مدیر “ہم سب” کا تبصرہ اور ہمارا جواب دعویٰ


‎پدر سری معاشرہ صرف عورت کو دولہ شاہ کی چوہیا نہیں بناتا، مرد کو بھی ایک مردہ چوہے سے لٹکتا ہوا دو پایہ بناتا ہے۔ کبھی پدر سری معاشرت کے مردوں پر اثرات کے بارے میں بھی لکھیے۔ مجھ سمیت بہت سے پڑھنے والوں کا بھلا ہو گا۔ و – مسعود

****             ****

یہ الفاظ ان کے قلم سے صفحہ قرطاس پہ بکھرے ہیں جن کی دانش، فہم، ذکاوت، معاملہ فہمی، سنجیدگی، حسن ظن، رواداری اور بذلہ سنجی کے ایک ہم ہی نہیں، ایک زمانہ مداح ہے سو فرمائش سر آنکھوں پہ! لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارا آئینہ ضرورت سے زیادہ سچ بولنے کا عادی ہے، اس راہ میں تو ہم خود کو بھی نہیں بخشتے۔

گو کہ یہ عدالت نہیں لیکن ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ ڈیڑھ برس میں پدرسری نظام کی شقاوت، سنگدلی، جبر، بے رحمی، نا انصافی اور ظلم پہ بہت لکھا اور جی بھر کے لکھا۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ہم نے اس نظام کے تحت دیوتا بن کے فائدہ اٹھانے والوں کو خوب سنائی ہیں اور دل کھول کے سنائی ہیں۔ ہم نے احتجاج کا علم بلند کیا اور پوری تن دہی سے کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس نظام کی گھمن گھیریوں میں صرف عورت ہی نہیں پستی، مرد بھی اس کا شکار بنتا ہے اور اس کی زندگی بھی بہت مواقع پہ عبرت ناک اور قابل رحم ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پدرسری نظام ایک ہشت پا کی طرح مرد و عورت کو اپنے شکنجے میں کس کے زندگی کی خوشیاں دونوں کے لئے شجر ممنوعہ بناتا ہے۔ دونوں ہی ایک ایسے پل صراط پر چلتے ہیں جس کے چاروں طرف آگ دہک رہی ہوتی ہے لیکن زندہ جلا کے راکھ کر دینے والے اس جہنم میں کون اکثریت اور کون اقلیت میں ٹھہرتا ہے، یہ جاننا ضروری ہے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس نظام کا شکنجه ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے اور چونکہ اس کی بنیاد طاقت کے حصول اور طاقتور کے دائرہ اختیار میں آنے والوں پہ رکھی گئی ہے تو آپ بحث کو مرد اور عورت کے بیچ سے ہٹا کے طاقتور اور کمزور کی طرف لے جا سکتے ہیں۔

اس کے لئے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس کھیل میں اب تک زیادہ تر طاقت کا محور کون رہا ہے, مرد یا عورت؟ اب تک اس نظام سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کس فرد کو فائدہ پہنچا، مرد یا عورت؟ اب تک وہ کون ہے جس کے حقوق اور فرائض گدلی اور دھندلی سی روشنائی سے لکھے گئے ہیں، مرد یا عورت ؟

وہ کون سا فرد ہے جسے پیدائش کے دن سے ہی محض جنس کی بنیاد پہ ہر طرف سے چھوٹ مل جاتی ہے، مرد یا عورت؟ وہ کون ہے جس کے لئے قانون چاہے وہ شرعی ہو یا غیر شرعی، اپنے دامن میں نرم گوشہ رکھتا ہے، مرد یا عورت؟

براہ کرم ریپ ہوئی شکستہ اور کچلی ہوئی عورت مت بھولیے جسے اپنی مظلومیت ثابت کرنے کے لئے چار مردوں کی گواہی چاہیے۔ اور اس نوعمر لڑکی کے جذبات، احساسات اور ذہنی ہیجان کو بھی مت بھولیے جسے اپنی پاکیزگی کا ثبوت پردہ بکارت کی شکل میں دینا پڑتا ہے۔

کیا ہر طرح سے کھل کھیلنے والے مرد کے لئے کبھی اس طرح کی آزمائش اور ثبوت کا سوچا گیا؟ پدرسری نظام یہاں اپنی آنکھ موند لیتا ہے۔

تاریخ انسانی اٹھا کے دیکھ لیجیے، آپ کو ہر ورق، ہر کتاب پہ کمزور پہ کیے گئے بے شمار مظالم کی خونچکاں داستانیں ملیں گی اور بدقسمتی سے اکثریت عورت کی ہوگی۔ صدیوں میں سفر کرتے ہوئے اکیسویں صدی تک آ جائیے، ہر روایت اور جبر کا شکار کمزور فریق یعنی عورت ہو گی۔

چلیے بر صغیر سے شروع کرتے ہیں۔ یہ عورت ہی تھی جس سے شوہر کے مرنے کے بعد جینے کا حق چھین کے زندہ جلانے کی روایت پہ انسانیت ہنستی نظر آتی ہے۔ ستی ہونے کی تکلیف تصور کرنا بھی کس قدر اذیت ناک دکھائی دیتی ہے ؟ لکڑیوں کے بھانبھڑ دیتے ہوئے الاؤ میں شعلوں کی لپکتی ہوئی زبانیں ایک مردہ جسم کے ساتھ ایک زندہ جیتی جاگتی ہستی کو کیسے چاٹتی ہوں گی؟ وہ کرموں جلی اس جہنم سے بھاگنے کی کوشش کرتی ہو گی تو اسے آگ میں پھر سے دھکیلا جاتا ہوگا۔ اس کے جسم کی چربی پگھلتی ہو گی اورسوختہ ہوتا جسم کوئلے اور راکھ میں ڈھلتا ہو گا محض اس لئے کہ وہ ایک عورت ہے اور اپنے جیسے ہی ایک انسان سے کمتر، سو اس انسان کی موت کے بعد جینے کا حق نہیں رکھتی۔

کیا کبھی کوئی مرد ستی ہوا اپنی بیوی کی چتا میں ؟

اور برصغیر میں ہی رائج اس کالے قانون کا تو کیا ہی کہنا، جہاں ایک عورت کو اپنے برہنہ جسم کو ڈھانپنے کے لئے ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ وہ عورت جو یہ رقم ادا کرنے سے قاصر رہتی تھی وہ اپنی چھاتی اور پستان کپڑے سے چھپا نہیں سکتی تھی اور اسے اپنے عورت ہونے کا خراج ہر لحظہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ ایسے میں ایک ہم جیسی ستم ظریف خوئے غلامی میں ناپختہ نے ٹیکس انسپکٹر کے ظلم اور تقاضوں سے زچ ہو کے اپنے پستان چاقو سے کاٹ کے اسے پیش کر دیئے تھے کہ لیجیے نہ رہیں گے بانس، نہ بجے گی بانسریا اور پھر پدرسری پہ استہزائیہ قہقہے لگاتی موت کی اندھیری گلی میں اتر گئی۔

کیا کبھی کسی مرد کے جسم کے نازک حصوں پہ پہ ٹیکس لگانے کا نادر خیال کسی کو سوجھا ؟

چھٹی سے نویں صدی عیسوی کے چین میں چلے چلیے۔ عورت نے جس روپ میں جنم لیا ہے وہ پدرسری نظام کے طاقتور مرد کو گوارا نہیں سو اپنی فرسودہ چشم تصور میں ڈھالنے کے لئے عورت کو بچپن ہی سے تمام عمر کی معذوری بخش دینے کا خیال اسی نظام کا کارنامہ ٹھہرا۔ پاؤں کو ایک مخصوص شکل عطا کرنے کے لئے ہڈیوں کو ضرب لگا کے توڑنے کے بعد انگلیوں کو پوری قوت سے موڑ کے تلوے کے ساتھ لگایا جاتا۔ انگلیاں ٹوٹ کے تلوے میں پیوست ہو جاتیں۔ پھر پاؤں کو ٹانگ کے ساتھ سیدھا بنانے کے لئے لوہے کے جوتے پہنا دیے جاتے، اور اس ظلم کو کنول پاؤں یا Lotus feet کا نام دیا جاتا۔ نوبل انعام یافتہ پرل ایس بک کا ناول The Good Earth پڑھ لیجیے، رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔

سولہویں صدی عیسوی کے یورپ کا حال ملاحظہ کیجیے۔ جس بھی عورت کو مصلوب کرنا ہو، جادوگری کا الزام لگائیے اور پھینک دیجیے آگ میں یا ہاتھ پاؤں باندھ کے پانی میں۔ اور معصوم ہونے کا پیمانہ کیا ہے اگر بچ گئیں تو قصوروار، چل بسیں تو بے قصور سوموت ہر حال میں مقدر۔ یعنی چت بھی میری اور پٹ بھی۔
یہ ظلم بھرا قانون شہنشاہ جیمز ششم نے متعارف کروایا اور اس کے تحت لاکھوں بے گناہ عورتیں جلا کے راکھ کر دی گئیں۔ ایڈنبرا کیسل میں شاید آج بھی ان جلائی گئی عورتوں کی راکھ اڑتی پھرتی ہے۔

کیا تاریخ کے کسی بھی دور میں مرد پہ یہ مقام آیا؟

دہلی میں چلتی بس میں سوار ہونے والے نوجوان جوڑے میں مرد کو مضروب تو کیا گیا، لیکن آہنی راڈ سے جسم کا قیمہ بنا دینا عورت ہی کا مقدر ٹھہرا۔ اپنے ہم جنس پہ اتنا رحم تو آ ہی جاتا ہے نا سو زندگی صرف عورت کی چھینی گئی ورنہ راڈ گھسانے کے مقامات کی مرد کے پاس بھی کمی نہیں تھی۔

کیا کبھی زینب اور فرشتہ کے کوڑے کے ڈھیر پہ پڑے بے جان سرد لاشوں کی جگہ قاسم یا انور کے سردجسم پائے گئے ؟

موٹروے پہ رات کے وقت نکلنے کی وجہ عورت سے پوچھنا اور مرد کو کھلی چھٹی دے دینا پدرسری کا وہ مزاج ہے جو شاہ دولے کا چوہا اور چوہیا تو دونوں کو بناتا ہے لیکن صلیب ہر حال میں چوہیا کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

ہم اعتراف کرتے ہیں کہ مرد تمام عمر معاشی استحصال کا نشانہ بنتے ہوئے کولہو کے بیل کی طرح مشقت کرتے ہوئے زندگی گزارتا ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ اس کے پس پردہ بھی پدرسری نظام کی وہ شق ہے جس میں مرد اپنے آپ کو طاقت کا مرکز بنانے کے جنون میں عورت کی تعلیم اور اس کی معاشی آزادی پہ پابندی لگاتا ہے۔ کتنی لیڈی ڈاکٹرز کا احوال آپ کو سناؤں جو محض اس لئے اپنی ڈگری کو طاق پہ رکھے بیٹھی ہیں کہ طاقت کے سرغنہ کو ان کا گھر سے نکلنا پسند نہیں۔

بے پناہ طاقت کا نشہ اور غرور مرد کی آنکھوں پہ پٹی باندھ کے وہ فیصلے کرواتا ہے جس کی زد میں آ کر وہ خود بھی نہ صرف زخمی ہوتا ہے بلکہ ایک ایسی ناخوش زندگی گزارتا ہے جس میں زندگی گلزار کی بجائے ایک ایسی جنگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس میں دونوں فریق ہمہ وقت وار کرکے ایک دوسرے کو لہولہان کرنے کا موقع ڈھونڈتے ہیں۔

جو بات ہمیں افسرده کرتی ہے کہ پدرسری نظام کے شکار مرد و عورت میں مرد کے پاس وہ طاقت ہے جس سے کام لے کے وہ نظام بدلنے کا اختیار رکھتا ہے۔وہ اہل ہے اس نظام کی عورت کے گرد لپٹی زنجیریں توڑنے کا، اسے اس کی ذات کا مالک بنانے کا، آزادی رائے بخشنے کا، تعلیم اور معاشی خود مختاری کے مقفل دروازے کے کواڑ کھولنے کا تاکہ عورت پرندوں کی سی پرواز کر سکے۔

جس دن ایسا ہو گیا یقین کیجیے، ہمارے معاشرے سے شاہ دولے کے چوہوں اور چوہیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

کہنےکو اتنا کچھ ہے کہ صفحات کے صفحات سیاہ کیے جا سکتے ہیں لیکن کالم میں تنگی وقت دامن گیر ہوتی ہے۔ ہم جو ہر وقت یہ چیخ و پکار کرتے رہتے ہیں اس حوالے سے اگر گستاخی نہ ہو تو ایک سوال ہم بھی کرنا چاہتے ہیں،

ایک طرف اگر بلند وبالا عمارت آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہو اور اس میں کچھ ذی روح بری طرح جھلس کے جاں بہ لب ہوں اور عمارت کے باہر ایک اور تھکا ماندا ذی شعور پاؤں میں موچ لئے بیٹھا ہو، کس کی مدد پہلے کرنا چاہیں گے آپ؟ کس کے لئے آپ اپنی جان پہ کھیلنا پسند کریں گے؟

بس یہی کچھ کر رہے ہیں ہم!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).