سندھ حکومت کو دھمکی اور شبلی فراز کی خواہش


کراچی میں سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صوبائی اسمبلی کوبتارہے تھے کہ انہیں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے معاملہ پر حکومت گرانے کی دھمکی دی گئی تھی لیکن سندھی ہونے کے ناتے ان کے لئے ’عزت، کرسی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے‘۔ دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز اسلام آباد میں منعقد کی گئی پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کررہے تھے کہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے سوال پر ’سندھ حکومت گھناؤنا کردار ادا کررہی ہے‘۔

نہ تو سید مراد علی شاہ نے کھل کر بتایا ہے کہ کس نے صوبائی حکومت ختم کرنے کی دھمکی دی تھی اور وہ کون سے ’خطرناک حقائق ‘ ہیں جن کا اظہار وہ صوبے کے سب سے بااختیار منصب پر بھی کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ اسی طرح شبلی فراز کی باتیں بھی الزامات اور دھمکیوں سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں اپوزیشن پر ’آگ سے کھیلنے کا الزام ‘ لگاتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی بدعنوانی کو اداروں پر الزام لگا کر چھپانا چاہتے ہیں۔  ملک کی سیاسی صورت حال کے بارے میں وفاقی وزیر کا بیان الزامات اور دھمکیوں سے معمور تھا۔ کرپشن کے علاوہ ملک دشمنی کا نیا نعرہ اپوزیشن کے احتجاج اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا جواب دینے کے لئے ایجاد کیا گیا ہے۔

 شبلی فراز نے بھی آج انہی دو نعروں سے اپنی پریس کانفرنس میں رونق لگانے کی کوشش کی ۔ ان کو اس بات کا ملال تھا کہ بھارتی ٹی وی چینل اپوزیشن کی باتوں کو نمایاں طور سے نشر کررہے ہیں۔ یہی حکومت اور اس کے ترجمان کے نزدیک اپوزیشن کی ’ملک دشمنی‘ کا شافی ثبوت ہے۔ حالانکہ اس کی ایک وجہ تو خود حکومت بنی ہوئی ہے جس کی سخت نگرانی میں ملکی میڈیا صرف وہی بتانے اور دکھانے پر مامور ہے جس کی سرکار دربار سے اجازت مرحمت ہوتی ہے۔ کسی جمہوری حکومت میں میڈیا پر اس قدر شدید سنسر شپ کی مثال ملکی تاریخ میں تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ شبلی فراز کو وزیر اطلاعات کے طور پر اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اظہار شرمندگی کرنا چاہئے تھا ۔

اس پوری تصویر کا یہ صرف ایک، لیکن اہم ترین پہلو ہے کہ اگر ملک میں میڈیا پر عائد پابندیاں ہٹا لی جائیں اور اینکرز کے علاوہ مباحث میں شریک ہونے والے لوگوں کو آزادی سے اپنی رائے کاا ظہار کرنے کا موقع دیاجائے تو حکومت کے چہرے پر لگا ہوا ایک داغ تو دھل سکتا ہے اور صحت مند سیاسی مکالمہ کی بنیاد بھی رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن موجودہ حکومت کی سربراہی عمران خان کے ہاتھ میں ہے اور وہ عملی اقدامات کی بجائے تقریبات میں منہ پر ہاتھ پھیر کر، اپوزیشن کے بارے میں سخت ترین لب و لہجہ اختیار کرکے اپنی حکومت کو شفاف ثابت کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اپنے لیڈر کی اس روایت کو ان کے پسندیدہ وزیر و مشیر اتنی ہی تندی سے اپناتے ہوئے ملک کا سیاسی ماحول کثیف کرنے میں مصروف ہیں۔ تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت ملک میں سیاسی تصادم کی بجائے مفاہمت و ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

 اپوزیشن اور حکومت کے دست و گریبان ہونے سے نہ تو جمہوریت کو فائدہ پہنچے گا اور نہ ہی معیشت کا پہیہ پٹری پر چڑھنے کی امید ہے۔ لیکن یہ سادہ سی بات تحریک انصاف کی قیادت سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان سمیت ان کی کابینہ کے کسی ہوشمند کو یہ یقین دلانا بھی ممکن نہیں ہے کہ موجودہ بحران بڑھنے سے نقصان صرف تحریک انصاف اور جمہوریت کو ہوگا۔ لیکن ایک پیج کی طاقت کا نشہ کچھ اس قدر زیادہ ہے کہ حکومت اور اس کے ترجمان فائرنگ پوزیشن سے ایک قدم پیچھے ہٹنے یا سیز فائر کرکے حالات کا از سر نو جائزہ لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

کراچی میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈر کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری و رہائی اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے تسلسل میں وزیر اعظم کا فرض تھا کہ وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ رابطہ کرکے صورت حال کے بارے میں آگاہ ہونے کی کوشش کرتے اور انہیں بتاتے کہ وفاقی حکومت کسی بھی صوبے کے معاملات میں مداخلت پر یقین نہیں رکھتی۔ اور اگر سندھ پولیس کو کسی بھی طرف سے ڈرایا دھمکایا گیا ہے تو وہ خود ان عناصر سے باز پرس کریں گے۔ عمران خان تو کجا ان کے کسی وزیر کو بھی اس واقعہ کی سنگینی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی پریشانی کا احساس نہیں ہؤا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس میں تحقیقات کی اپیل کے بعد فوری اقدام کرتے ہوئے کور کمانڈر کراچی کو اس واقعہ کی تحقیق کرنے اور رپورٹ دینے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بلاول کو فون کرکے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا اور انہیں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔

کسی صوبے کے آئی جی اور دیگر اعلیٰ افسروں کے خلاف کسی قسم کی زبردستی ناقابل قبول رویہ ہے۔ یہ کام خواہ وفاقی وزیر اپنے دھمکی آمیز بیانات کے ذریعے کریں یا کوئی سرکاری ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے طاقت کے زور پر انسپکٹر جنرل پولیس کو کوئی ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور کرے جس پر وہ خود راضی نہ ہو، اسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے نہ صرف وفاق اور صوبوں کے درمیان اعتماد کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اداروں کی شہرت و وقار بھی داؤ پر لگتا ہے۔ ایسے ہی طریقے ملکی اداروں کے بارے میں افواہ سازی اور الزامات کی بنیاد بنتے ہیں۔ آرمی چیف نے اسی لئے صورت حال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے یہ یقین دلایا ہے کہ اس معاملہ کی تہہ تک پہنچا جائے گا۔ وفاقی حکومت کا جواب آج وزیر اطلاعات شبلی فراز نے پریس کانفرنس میں دیا ہے۔ اس بیان کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ وفاقی حکومت کے نگران اور معاون اس معاملہ کی نزاکت سمجھنے کی بجائے اس بات پر خوشی و اطمینان محسوس کررہے ہیں کہ کسی بھی طرح اور کسی بھی طریقے سے سہی کیپٹن صفدر کو گرفتار کرکے شریف خاندان کو نیچا دکھایا گیا ہے۔ یہی رویہ اس وقت ملک میں بحران، پریشانی اور انتشار کا سبب بنا ہؤا ہے۔ اسے تبدیل کئے بغیر حکومت کسی بہتری کی امید نہیں کرسکتی۔

شبلی فراز کی پریس کانفرنس دھمکیوں اور غیر واضح الزامات کے علاوہ معاشی معاملات اور عوام کی پریشان حالی سے ناآشنا ہونے کا واضح اظہار تھی۔ جس وقت عام شہری اجناس و دواؤں کی قیمتوں سے بدحواس ہیں، عین اس وقت وزیر اطلاعات معاشی اشاریوں کو درست سمت بتا کر ، نہ جانے اپنی لیاقت کا رعب جمانا چاہتے تھے یا عوام کی بےبسی کا مذاق اڑارہے تھے۔ ایک بات البتہ واضح ہے کہ اپوزیشن پر غریب کی حالت سے ناآشنا ہونے کا الزام لگانے والے وزیر اطلاعات کو خود بھی یہ اندازہ نہیں کہ عوام کی اکثریت مہنگائی و بیروزگاری کی وجہ سے موجودہ حکومت و قیادت کے بارے میں شدید غم و غصہ میں مبتلا ہے۔

پی ڈی ایم کے بینر تلے اپوزیشن کی تحریک کو اصل قوت حکومت کی ناقص کارکردگی سے مل رہی ہے۔ حکومت کے مٹھی بھر لوگوں کے سوا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ حکمران معاشی مشکلات اور سیاسی نزاکتوں کو سمجھنے میں ناکام ہوچکے ہیں ۔ موجودہ قیادت میں ملک اب صرف پریشان حالی ہی کی طرف بڑھے گا۔ سیاست، مفاہمت و مصلحت سے کام لینے کے علاوہ غلطیوں سے سیکھنے کا عمل ہے لیکن عمران خان یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ وہ ہر معاملہ کے ماہر ہیں اور دوسروں کو ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان سے غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی۔’ اعلیٰ کردار‘کے اس درجے پر فائز کسی شخص سے دشمن تو کیا دوست بھی مکالمہ نہیں کرسکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کابینہ میں شامل وزیر اعظم کے درباری، رائے دینے کی بجائے اسی بات کی جگالی شروع کردیتے ہیں جو عمران خان سننا چاہتے ہیں۔

وزیر اعظم ، نواز شریف کو برباد کرنے کی خواہش پال بیٹھے ہیں اور کسی بھی قیمت پر انہیں زیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ نواز شریف ایک فرد کا نام نہیں ہے بلکہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی اور پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی طاقت کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کراچی میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے لئے اختیار کئے گئے طریقہ کار میں روا رکھی گئی غلطی کے علاوہ اس کی حساسیت کو سمجھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ آرمی چیف کے بروقت اقدام کے بعد بھی وفاقی حکومت کے نمائیندوں کو یہ احساس نہیں ہوپایا کہ کراچی میں ہونے والا واقعہ سنگین تھا جو حکومت کی آئین دوستی اور قانون کا احترام کرنے کے دعوؤں کی قلعی کھول رہا ہے۔ اس نقصان کا ازالہ کرنے کی بجائے پیپلز پارٹی، بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ پر الزامات عائد کرکے وفاقی حکومت خود کو درست ثابت کرنا چاہتی ہے لیکن وہ ان حرکتوں سے اپنے لئے سیاسی گڑھا کھود رہی ہے ۔

شبلی فراز کی پریس کانفرنس میں اگر کوئی بات کسی ابہام کے بغیر سمجھی جاسکتی ہے تو وہ یہ دعویٰ تھا کہ ’ہمارا بنیادی مقصد پاکستان کو شریف و زرداری خاندان سے نجات دلوانا ہے‘۔ شبلی فراز اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ پرویز مشرف یہی خواہش لئے ہوئے بالآخر اب خود دوبئی میں عبرت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ نواز شریف یا آصف زرداری کو جب تک عوام کی حمایت حاصل رہے گی، ان سے ’نجات‘ نہیں مل سکتی۔ اس خواہش کی تکمیل کا کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تحریک انصاف کام کرکے دکھائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali