بینک سے قرض حاصل کرنا پاکستانی نوجوانوں اور خواتین کے لیے کس حد تک مشکل ہے؟


بینک
پاکستان میں ایک نوجوان خاص کر کسی خاتون کے لیے بینک سے قرض کا حصول کس قدر مشکل ہو سکتا ہے اس کا اندازہ مجھے ایک دوست کی بات سُن کر ہوا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے قرض حاصل کرنے کے لیے مختلف بینکوں سے رجوع کیا۔ کسی بینک سے بھی واضح انداز میں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ قرض فراہم کرنے سے متعلق بینک کی اصل پالیسی آخر ہے کیا، جیسا کہ شرح سود کیا ہو گی اور قرض واپس کرنے کی اقساط کیسی ہوں گی اور اُن پر چارجز کتنے ہوں گے وغیرہ۔‘

اُن کا دعویٰ ہے کہ ہر بینک صرف سنہرے خواب دکھاتا ہے اور بیشتر تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے بھی قرض کی اِن پیچیدہ تفصیلات کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اُن کے بقول جب وہ ایک نجی بینک قرضہ حاصل کرنے کے لیے گئیں تو انھیں ایک سکیم کی بہت سی خوبیاں بتا کر دستخط لے لیے گئے۔ ان سے کہا گیا کہ ’آپ نے بینک کے نمائندے کی جانب سے آنے والی تصدیقی کال میں ہر سوال کا جواب ہاں میں دینا ہے، ورنہ قرض کے حصول میں وقت لگ جائے گا اور مسائل پیدا ہوں گے۔‘

خاتون کے بقول قرض کی درست تفصیلات آپ کو درحقیقت اسی تصدیقی کال سے پتا چلتی ہیں کیونکہ ’کوالٹی کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے یہ کال ریکارڈ کی جاتی ہے‘ اور بعد میں ضرورت پڑنے پر اسے بطور قابل قبول شواہد استعمال کیا جا سکتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ انھیں اسی کال سے معلوم ہوا کہ ’جس سکیم کے تحت مجھے قرضہ دیا جا رہا ہے اس میں شرح سود دراصل دگنی تھی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اپنی ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے انھیں ایسا قرضہ لینا پڑا جس میں سود کی شرح زیادہ تھی۔

یہ بھی پڑھیے

سروس شوز: جب تین دوستوں کو فوجی بوٹ بنانے کا آرڈر ملا

’وہ بازار جہاں بے صبروں سے پیسہ صبر کرنے والوں کو منتقل ہوتا ہے‘

18 کرسیوں سے شروع ہونے والے راولپنڈی کے معروف ’سیور فوڈز‘ کی کہانی

پاکستان میں بینک سے قرض کا حصول کتنا مشکل ہے، یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے اس رپورٹ میں بینکنگ کے شعبے سے وابستہ چند ماہرین سے بات کی ہے۔

سٹیٹ بینک

بینک کتنی قسم کے قرضے دیتے ہیں؟

اسد رضا اسلام آباد میں بینکنگ کے شعبے سے گذشتہ 13 سال سے وابستہ ہیں اور ایک نجی بینک کے ایریا ہیڈ بھی ہیں۔ ان کے مطابق ہر کمرشل بینک دو قسم کے قرضے دیتا ہے: کنزیومر لون اور نان کنزیومر لون۔

کنزیومر لون سے مراد چھوٹے قرضے ہیں جو ایک بینک اپنے صارفین کو نیا کاروبار شروع کرنے، پہلے سے موجود کاروبار کو وسعت دینے یا کسی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے دیتا ہے۔ اس میں گاڑی کی خریداری، کریڈٹ کارڈ یا گھر کی تعمیر کے لیے بھی قرض کی فراہمی شامل ہے۔

نان کنزیومر لون میں پیسوں یا کیش کی صورت میں مالی معاونت نہیں کی جاتی بلکہ بینک کسی بھی کاروباری لین دین کے سلسلے میں اپنے صارف کی طرف سے ضمانت یعنی گارنٹی فراہم کرتا ہے۔

بینک کا قرض اور شرح سود

عمومی خیال یہی ہوتا ہے کہ اگر کسی نے 12 فیصد شرح سود پر بینک سے ایک لاکھ قرضہ لیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں کل ایک لاکھ 12 ہزار بینک کو واپس کرنے ہوں گے۔ مگر یہ بات اتنی سادہ نہیں جتنا زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں۔

اسد رضا کے مطابق اگر کسی بینک نے آپ کو ایک لاکھ قرض دیا ہے تو اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ آیا یہ ’رننگ فنانس‘ ہے یا سال کے آخر پر دیا جانے والا مارک اپ ہے۔

رننگ فنانس محدود مدت کے لیے دیا جانے والا ایک قرض ہے جس میں بینک کسی کاروبار کے روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض کی بالائی حد مقرر کر دیتا ہے اور اب یہ آپ پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ اس میں کتنی رقم استعمال کرتے ہیں۔ جتنی زیادہ رقم آپ خرچ کریں گے مارک اپ اسی حساب سے بڑھتا رہے گا۔

مارک اپ سے مراد قرضہ استعمال کرنے کی فیس ہے جس کا ایک حصہ سٹیٹ بینک جبکہ دوسرا قرض فراہم کرنے والے بینک کو ملتا ہے۔

بینکرز

بینکنگ شعبے کے ماہرین: صائمہ امجد (درمیان)، اسد رضا (دائیں) اور علی سلطان (بائیں)

بینک کے قرضے پر اقساط کیسے طے ہوتی ہیں؟

بینکنگ کے شعبے سے وابستہ علی سلطان بتاتے ہیں کہ کسی صارف کو قرض فراہم کرتے وقت بینک ایک ’ایمورٹائیزیشن شیڈول‘ بنا کر دیتا ہے جسے عام زبان میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’قسطیں کتنی ہوں گی۔‘

اس شیڈول میں بینک صارف کو سمجھاتے ہیں کہ انھوں نے کل جتنا قرضہ لیا ہے، ہر مہینے اس پر کتنی شرح سود بنے گی۔

علی سلطان کے مطابق ’پہلی قسم میں بینک آپ کی پوری رقم پر ایک ہی بار 12 فیصد شرح سود لگا دیتے ہیں جس کے بعد بتا دیا جاتا ہے کہ صارف کو ہر مہینے کتنی قسط دینی ہو گی۔‘

’دوسری قسم (کمپاؤنڈ انٹرسٹ) میں پہلے مہینے کی قسط دینے کے بعد آپ کے اکاؤنٹ میں جتنی رقم بچ جاتی ہے، دوسرے مہینے کی قسط کا حساب اس پر لگایا جاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا ہے۔‘

علی کے مطابق کنزیومر لون میں اے پی آر (سالانہ شرح) کا ذکر لازم کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بینکنگ کی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص ہو تو قرض لیتے وقت وہ اے پی آر کا ضرور پوچھتا ہے۔ اس میں پروسیسنگ کاسٹ اور کمپاؤنڈنگ سمیت دیگر عناصر شامل ہوتے ہیں۔ ’اگر کوئی شخص 12 فیصد شرح سود پر قرض لے رہا ہے تو دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ 18 سے 19 فیصد تک سود ادا کر رہا ہوتا ہے۔‘

بینک

قسط کی سالانہ رقم کم کیسے ہوتی ہے؟

بینک کے قرض پر دی جانے والی ابتدائی اقساط میں سود کا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔ اگر آپ نے 10 فیصد شرح سود پر پانچ سال کے لیے ایک لاکھ روپے قرض لیا ہے تو پہلے سال 25 ہزار پرنسپل اماونٹ (یعنی قرض کی اصل رقم) کے ساتھ 10 ہزار سود ادا کرنا ہو گا۔ یعنی پہلے سال کل 35 ہزار روپے واپس کرنے ہوں گے۔

جب دوسرا سال شروع ہو گا تو آپ کی قسط کا حساب 75 ہزار کے حساب سے لگایا جائے گا۔ لہذا آپ کو اب 75 ہزار پر 10 فیصد شرح سود کے ساتھ 7500 روپے سود ادا کرنا ہے، یعنی آپ کی دوسری قسط 32500 روپے بنے گی۔

اسی طرح ہر سال قسطوں کی رقم کم ہوتی جاتی ہے۔

کئی افراد کا ماننا ہے کہ اگر آپ قرض لیتے ہیں تو شروع کے چند سالوں میں کی جانے والی ادائیگیوں کا زیادہ حصہ آپ کی اصل رقم کے بجائے انٹرسٹ میں جمع ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہوگا کہ بینک پہلے انٹرسٹ اتارتے ہیں اور بعد میں اصل رقم کیونکہ اصل رقم جتنی زیادہ رہے گی آپ کا انٹرسٹ اتنا ہی بنتا جائے گا۔

لیکن اسد رضا اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی انٹرسٹ اور اصل رقم کا تناسب طے کر رکھا ہے اور ہر بینک کے لیے ان قواعد پر عمل کرنا لازم ہے۔

’تناسب وہی رہتا ہے۔ جیسے جیسے آپ کی اصل رقم کم ہوتی جائے گی، ویسے ویسے انٹرسٹ بھی اسی تناسب سے کم ہو گا۔‘

کمپاؤنڈ انٹرسٹ کیا ہوتا ہے؟

اسد کے مطابق کمپاؤنڈ انٹرسٹ کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ نے 12 فیصد شرح سود پر ایک لاکھ کا قرضہ لیا ہے تو اس پر سال کی انٹرسٹ کی رقم 12 ہزار اور ایک مہینے کی ایک ہزار بنتی ہے۔ اگر آپ نے ایک ماہ وہ رقم ادا نہیں کی تو ایک ماہ بعد آپ کو ایک لاکھ ایک ہزار ادا کرنا ہو گا۔ اور اگلے انٹرسٹ کا حساب بھی ایک ہزار ایک (غیر وصول شدہ بقایا رقم) کے حساب سے لگایا جائے گا۔ اسی لیے کمپاونڈ ہو کر یہ زیادہ رقم بن جاتی ہے۔

آپ نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہو گا کہ ان کے کمپاؤنڈ انٹرسٹ کی رقم اصل قرض کی رقم سے بھی بڑھ گئی ہے اور قرض لینے والا اپنی جمع پونجی سے بھی محروم ہو گیا۔

کمپاؤنڈ انٹرسٹ کی صورت میں اگر آپ ساتھ ساتھ ادائیگیاں کرتے جائیں تو اضافی سود نہیں دینا پڑتا اور بینک نے آپ کو جو شیڈول دیا ہوتا ہے، ادائیگیاں اسی حساب سے جاری رہتی ہیں مگر آپ قرض کی قسط بروقت ادا نہ کر پائے تو کمپاؤنڈ انٹرسٹ بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے۔

بینک

قرضہ دیتے ہوئے بینک کس چیز کو مدِنظر رکھتا ہے؟

کسی بھی قسم کا قرضہ دیتے ہوئے بینک بنیادی چیز یہ دیکھتا ہے کہ آپ کے پاس ذرائع آمدن کا کسی بھی قسم کا ثبوت ہے یا نہیں اور کیا آپ بینک سے لیا گیا قرض ایک مقررہ وقت کے اندر واپس کر سکتے ہیں یا نہیں۔ صارف کی جانب سے فراہم کی گئی تفصیلات کی تصدیق کے بعد بینک قرض جاری کرتے ہیں۔

اسد بتاتے ہیں کہ کسی بھی شخص کو قرض دینے سے متعلق بینک کی واضح ہدایات یا گائیڈ لائنز ہوتی ہیں جن کی نگرانی سٹیٹ بینک کرتا ہے۔

تنخواہ دار شخص اگر قرض حاصل کر رہا ہوتا ہے تو بینک یہ دیکھتا ہے کہ وہ نوکری کہاں کر رہا ہے اور اس کی ملازمت مستقل ہے یا نہیں۔

علی کے مطابق بینک کے لیے ’تجربہ‘ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بینک کے لیے سب سے اہم چیز صارف کا کیش فلو ہوتا ہے یعنی بینک اپنی وصولی کو یقینی کیسے بنائے گا۔ اگر کوئی شخص تنخواہ دار نہیں اور نیا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے تو اس صورت میں علی سلطان کے مطابق بینک کاروبار کی نوعیت اور کامیابی کے امکانات کا تعین کرتا ہے اور پھر قرض جاری کرتا ہے۔

علی اس کی مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ سافٹ ویئر انجینئر کو سافٹ وئیر ہاؤس کھولنے کے لیے قرض مل سکتا ہے مگر کپڑوں کی بوتیک کھولنے کے لیے اسے قرضہ ملنا مشکل ہو سکتا ہے۔

قرض دیتے ہوئے بینک آپ کے گارنٹی دینے والوں کو بھی دیکھتے ہیں۔

بینک

کیا بینک خواتین کو قرض دینے میں ہچکچاتے ہیں؟

صائمہ امجد کہتی ہیں اگر پاکستانی معاشرے کے لحاظ سے بات کریں تو یقینا یہ عنصر موجود ہے اور خواتین کو اس طرح برابری کا درجہ نہیں دیا جاتا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب چیزیں بدل رہی اور اب خواتین کی جنس کے بجائے ان کا کاروباری منصوبے اور پسِ منظر اہمیت رکھتا ہے۔ ’بس بینک کو قرض فراہم کرنے کا بہتر جواز چاہیے ہوتا ہے۔‘

لیکن علی اور اسد دونوں ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ اسد کا کہنا تھا ’ہم ہچکچاتے بالکل نہیں ہیں لیکن اگر وہ سٹیٹ بینک کی دی گئی گائیڈ لائن پر پوری نہیں اتریں گی تو ہم قانون توڑ کر کوئی کام تو نہیں کر سکتے۔ ہم کسی عورت کو بھی اتنی ہی خوشی سے قرضہ دیتے ہیں جتنی خوشی سے کسی مرد کو دیتے ہیں لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان کی پروفائل کتنی ٹھیک ہے۔‘

پاکستان میں خواتین میں قرض لینے کی شرح کم کیوں ہے؟

صائمہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین خود قرضے لینے آگے نہیں آ رہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ حکومت نے سنہ 2013 سے سنہ 2018 کے درمیان نوجوانوں کے لیے قرضوں کی جس سکیم کا اعلان کیا اس میں خواتین کے لیے 50 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا تھا۔

’مجموعی طور پر صرف ایک لاکھ افراد نے قرض کے حصول کی درخواستیں دیں جن میں خواتین کا تناسب صرف 12 فیصد تھا۔ اسی وجہ سے حالیہ سرکاری قرض سکیم میں خواتین کا کوٹہ 50 سے کم کر کے 25 فیصد کر دیا گیا ہے۔‘

اس حوالے سے اسد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر خواتین اپنے شوہر، بھائی یا والد پر انحصار کرتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کے قرض لینے کی شرح مردوں کی نسبت کم ہے۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے اسد کہتے ہیں کہ ’ہمارے معاشرے میں پہلے خواتین کا کاروبار اور کیرئیر کی جانب اتنا زیادہ رجحان نہیں تھا، لیکن اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔‘

اسد نے بتایا کہ سٹیٹ بینک کی ہدایات کے مطابق تمام بینک زیادہ سے زیادہ خواتین کے اکاؤنٹس کھولنے کے لیے زور لگا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین بینکنگ نیٹ ورک کا حصہ بن سکیں۔ اس لیے مستقبل میں خواتین کو دیے جانے والے قرضوں کی شرح بھی بڑھنے کا امکان ہے۔

بینک

نوجوانوں کے لیے آسان راستہ کیا؟

اسد کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کے لیے بینک سے قرض لینے کے بجائے کسی حکومتی سکیم (جس میں حکومت نئے کاروبار شروع کرنے کے لیے آسان شرائط پر قرض دیتی ہے) سے قرضہ لینا زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ اس میں بھاری بھرکم ضمانتیں فراہم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہر حکومت اس نوعیت کی سکیمز کا اجرا کرتی ہے اور نوجوانوں کے لیے یہی ایک بہترین راستہ ہے۔

ایک حالیہ حکومتی سکیم کی مثال دیتے ہوئے صائمہ کہتی ہیں کہ ’کامیاب نوجوان سکیم‘ میں ایک کروڑ تک قرض لیا جا سکتا ہے، بس اس کا انحصار آپ کے منصوبے پر ہے۔

اسد کے مطابق اس کی ایک دوسری صورت چھوٹے پیمانے پر ’ان سکیورڈ لینڈنگ‘ یا ایسے قرضے ہیں جن میں آپ کو سکیورٹی کی ضرورت نہیں پڑتی۔

دیہی علاقوں میں رائج آغا خان ماڈل کی مثال دیتے ہوئے علی سلطان بتاتے ہیں کہ دیہات میں اگر کوئی خاتون نیا کاروبار شروع کرنا چاہتی ہے تو وہ ضمانت کے طور پر بینک کو اپنے زیورات دیتی ہیں، اس صورت میں انھیں 24 گھنٹوں کے اندر اندر چھوٹا قرض مل جاتا ہے جس سے وہ اپنا کاروبار شروع کر سکتی ہیں۔

یاد رہے اس منصوبے کا آغاز 80 کی دہائی میں آغا خان فاؤنڈیشن نے گلگت میں کیا تھا۔ بعد میں پاکستان کے ہر صوبے میں اس ماڈل کو اپنایا گیا۔

اتنا قرض لیں جتنا واپس کر سکیں

ماہرین کے مطابق پراپرٹی جیسے ایک اثاثے پر خاندان میں سے ایک وقت میں صرف ایک شخص ہی قرض لے سکتا ہے۔

نوجوان اور خواتین چھوٹے پیمانے پر اپنے کاروبار کے لیے 20 لاکھ تک کا سکیورڈ لینڈنگ قرض لے سکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ رقم کے لیے انھیں اپنے مالی وسائل بڑھانے یا نجی ذرائع سے رقم جمع کرنی چاہیے۔

اسد کے مطابق بینک سے قرض لینے سے پہلے صارف کو اپنی سٹیٹمنٹ ٹھیک کرنی چاہیے، قرض کی رقم کا تعین کرنا چاہیے اور حال اور مستقبل کے انٹرسٹ ریٹ کا خیال رکھنا اور مارکیٹ سے باخبر رہنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں ہمارا فارمولا یہ ہے کہ ’قرضہ لینے کے لیے آپ کی آمدن قسط سے تین گنا زیادہ ہونی چاہیے۔‘

اسد کہتے ہیں کہ اتنا قرض لیں جتنا آپ کا کاروبار ادا کر سکے اور اس پر بوجھ نہ بنے۔

’جیسے ہم گھر میں کہتے ہیں کہ اتنا ہی خرچہ کریں جتنی تنخواہ ہے، قرضہ لیتے ہوئے بھی آپ نے یہی دیکھنا ہے کہ آپ اپنی آمدن میں ایک اضافی خرچہ ڈالنے لگے ہیں، آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ کیا آپ کی آمدن اس کی اجازت دیتی ہے اور کیا مستقبل قریب میں آپ باقاعدگی سے قرض کی قسطیں دے پائیں گے؟ اگر ایسا ہے تو ضرور قرض لیں ورنہ بہتر یہی ہے کہ اس سے دور رہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp