شعور سے دور ایک کالونی دنیا میں اب بھی موجود ہے


خطہ بے آئین گلگت بلتستان میں الیکشن اور سلیکشن کا دور زوروں پر ہے۔ یہ دنیا کا واحد علاقہ ہے، جہاں ہر شعبے میں ترقی کی رفتار اور ڈائریکشن کا معلوم نہیں ہوتا، ترقی اور شعور میں آگے جا رہی ہے کہ پیچھے۔ کوئی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس خطے کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی محرومیوں کی واحد وجہ، اس کی حکومتی مشینری ہے۔

سیلف گورننس کے نام سے جو سٹیج شو دنیا کو دکھایا جا رہا ہے، وہ محض ایک فراڈ ہے۔ یہ ڈراما 2009ء سے اب تک باکس آفس پہ ہٹ بھی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس خاکے کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر یہاں کے مقامی نہیں ہیں۔ انہوں نے اس سیریز کا آغاز تو 1947ء ہی سے شروع کیا تھا، اس وقت ان کو شاید فلم سازی سیکھنے کی حد تک ضرورت تھی، اب ان کو یہ پورا علاقہ ایک فلم انڈسٹری لگنے لگا ہے۔ وہ یہاں پہ اپنا سیٹ اپ بھی لانے کا سوچ رہے ہیں۔

خیر 1947ء سے اب تک کے اس دورانیے میں، ان کو یہاں کے باشندوں کی طرف سے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی، کیوں کہ ان کو ہانکنے کے لئے اس فلم ساز کمپنی نے کچھ مقامی پال رکھے تھے، جنہوں نے اپنی جان لگا کر مقامی باشندوں کا ہر راستہ بند کرنے اور گرد و نواح میں ہو رہی لوٹ مار اور نا انصافیوں سے با خبر رکھنے کے لئے ان کے پیٹھ پر کام کا بوجھ رکھ دیتے رہے اور روٹی اور چھت کے علاوہ سوچنے پہ پابندی عائد ہوتی۔ اسی اثنا میں اگر چہ معمولی رفتار سے حالات بدلتے گئے، لیکن یہ محض ایک کرشمہ تھا، جو وقت کے ساتھ ہر جگہ نمودار ہوتا رہتا ہے۔ اس کا اس خطے پہ خاطرخواہ اثر نہ ہو سکا۔ اسی عرصے میں دوسری دنیا، تعلیمی میدان میں بہت دور نکل گئی اور یہ علاقہ ساری دنیا سے کٹ کے رہ گیا۔

تاریخ سے نکل کر موجودہ حالات کی طرف بڑھتے ہیں ؛ اس وقت لولی وڈ فلم انڈسٹری کے ایک دو آفس، جی بی کونسل اور جی بی قانون ساز اسمبلی کے نام سے گلگت میں کھل گئے ہیں اور مین آفس اسلام آباد سے براہء راست رابطہ رہتا ہے۔ ایک بڑی تبدیلی اس میں یہ لائی گئی ہے کہ اب بہت سارے مقامی اداکار بھی اس انڈسٹری کے ساتھ جڑے ہیں۔ عوام کو چورن بیچنے، ان کو غیور اور با شعور کے نام سے پکارتے ہوئے، انہیں بے وقوف بنانے، الیکشن ڈرامے کی اندھا دھند مارکیٹنگ، تعلیم اور صحت کے محض سرٹیفکیٹس بیچنے، کام نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈنے کے علاوہ، عوام میں انڈسٹری کی مقبولیت بڑھانے جیسے با عزت جاب کر رہے ہیں۔

وہی عوام 73 سالوں کے استحصال کو اب تک بھی نہیں سمجھ سکے اور جب سمجھ نہیں تو سیکھنا کیسا؟ عوامی حلقوں سے بھی اپنے آپ کو با شعور کہنے سمجھنے اور دکھانے کی خبریں بھی آرہے ہیں، مگر جس انداز سے عوامی حمایت اس غیر قانونی فلم انڈسٹری کے مختلف شاخوں اور ان کے سہولت کاروں کو حاصل ہے، اس سے بالکل بھی نہیں لگ رہا کہ ان کے لئے مستقبل میں پھر سے کوئی کرشمہ ہو جائے۔ اب ان کی حالت، بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ جیسے یہ دنیا آگے جائے گی یہ اور پیچھے دھکیلا جائے گا۔ لہذا عوام اپنے آپ کو، اپنے رتبے کو، اپنے حقوق کو، اپنے درمیان سہولت کاروں کو اور اپنی طاقت کو پہچانیں، ورنہ یہ فلم انڈسٹری آپ کی تاریخ کے ساتھ ساتھ، آپ کی شناخت بھی چھین لے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).