عمران خان کی ٹویٹ: کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کا بڑھنا پاکستان کے لیے کتنی بڑی معاشی کامیابی ہے؟


عمران خان، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس، معیشت، پاکستان
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ایک ’عظیم خوشخبری‘ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں مالی سال ماہِ ستمبر میں ’73 ملین ڈالر کے سرپلس کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ (جاری کھاتے) پہلی سہ ماہی میں 792 ملین ڈالر سرپلس ہوگیا جو گذشتہ برس اسی عرصے کے دوران 1492 ملین ڈالر خسارے میں تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ گذشتہ ماہ کے دوران برآمدات 29 فیصد بڑھیں جبکہ ترسیلاتِ زر میں نو فیصد اضافہ ہوا۔

وزیراعظم پاکستان کے مطابق قوم کے لیے یہ ایک ’عظیم خوشخبری‘ ہے اور ’ملک کے درست سمت میں چلنے کی علامت‘ ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ سر پلس سترہ سال بعد اپنی بلند ترین سطح پر پہنچا ہے۔ سنہ 2004 میں ایک سہ ماہی میں بلند ترین سرپلس 1.1 ارب ڈالر تھا جو سترہ سال بعد اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 792 ملین ڈالر تک ریکارڈ کیا گیا۔

کرنٹ اکاؤنٹ یعنی جاری کھاتے میں سرپلس (فاضل) کی ملکی معیشت میں اہمیت ہے اور اس معاشی اعشاریے میں مثبت رجحان کے بارے میں معاشی تجزیہ کار اسے کسی حد تک تو حکومت کی کامیابی قرار دیتے ہیں تاہم اسے ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کا پیمانہ نہیں مانتے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان پر ملکی تاریخ کا بلند ترین قرض کیوں چڑھا؟

حکومتِ پاکستان اتنے نوٹ کیوں چھاپ رہی ہے

انڈیا کے جی ڈی پی میں ’تاریخی کمی‘ اور چینی تجارت میں اضافے کا راز

کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس: امید کی ایک کرن، مگر مدھم مدھم

دوسری جانب پاکستان میں حکومت کی سب سے بڑی سیاسی حریف پاکستان مسلم لیگ نواز نے وزیر اعظم کے کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس کو عظیم خوشخبری دینے کو ان کی معیشت کی ساخت سے ’ناواقفیت‘ کہا ہے اور اسے دراصل معیشت کے لیے ’خطرناک‘ قرار دیا ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ کیا ہے؟

کرنٹ اکاؤنٹ یا جاری کھاتے میں بنیادی طور پر ملک کی بیرونی تجارت کا حساب رکھا جاتا ہے، یعنی اس میں مصنوعات اور خدمات کے ساتھ ترسیلاتِ زر شامل ہیں۔

پاکستان سے ہونے والی برآمدات اور ملک میں آنے والی درآمدات کے درمیان فرق جسے ’ٹریڈ بیلنس‘ کہا جاتا ہے وہ کرنٹ اکاؤنٹ کا حصہ ہوتا ہے۔ ترسیلاتِ زر کی ملک میں آمد اور روانگی بھی اس میں شامل ہے۔

عارف حبیب سکیورٹیز میں معیشت کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ برآمدات اور ترسیلات زر سے آنے والے ڈالروں، درآمدات اور پاکستان سے تعلیمی یا دوسرے مقاصد کے لیے بھیجے جانے والے ڈالروں کے درمیان فرق کو کرنٹ اکاؤنٹ میں دیکھا جاتا ہے۔

اگر ڈالر زیادہ گئے اور کم آئے تو یہ خسارہ ہے اور ملک میں زیادہ آئے اور باہر کم جائیں تو یہ سرپلس ہوگا۔

ثنا نے بتایا کہ جب امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ میں پیسے مل رہے تھے تو وہ بھی کرنٹ اکاؤنٹ میں ظاہر کیے جاتے تھے۔

اسی طرح نواز لیگ کی حکومت میں سعودی عرب سے ملنے والے ایک ارب ڈالر بھی اس میں شامل تھے۔

بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے آنے والے ڈالروں کے بارے میں ثنا نے کہا وہ فنانشل اکاؤنٹ کا حصہ ہیں اور اسی طرح پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے بیرون ملک منافع کو بھی فنانشل اکاؤنٹ میں ظاہر کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں کرنٹ اکاؤنٹ کا رجحان

اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ میں 792 ملین ڈالر کا سرپلس سترہ سال کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچا۔ سنہ 2004 کی سہ ماہی میں یہ 1.1 ارب ڈالر کی سطح پر جا پہنچا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت کے آنے سے قبل مالی سال 2018 میں مجموعی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19 ارب ڈالر سے زیادہ تھا جو اگلے مالی سال یعنی 2019 میں 13 ارب ڈالر کی سطح تک گر گیا۔

30 جون 2020 کو ختم ہونے والے مالی سال میں یہ خسارہ 2.97 ارب ڈالر کی سطح تک گر گیا۔ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ 792 ملین ڈالر سرپلس ہو گیا۔

عمران خان، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس، معیشت، پاکستان

کرنٹ اکاؤنٹ میں مثبت رجحان کی کیا وجہ ہے

کرنٹ اکاؤنٹ میں مثبت رجحان کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے ثنا توفیق نے کہا کہ دو سالوں میں اس کی ایک بڑی وجہ درآمدات میں نمایاں کمی ہے، جو مالی سال 2018 میں 55 ارب ڈالر سے مالی سال 2020 میں 42 ارب ڈالر تک گر گئیں۔

دو سال میں اس نمایاں کمی نے کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کیا تو دوسری جانب برآمدات میں بھی کچھ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اس سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس میں ایک بڑی وجہ ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ ہے جو پہلی سہ ماہی میں سات ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں۔

ثنا کے مطابق ترسیلات زر میں ہونے والے اضافے کی بڑی وجہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے زیادہ پیسہ ہے جو اب قانونی طریقے یعنی حوالے اور ہنڈی کی بجائے بینکوں کے ذریعے پاکستان پہنچ رہا ہے۔

سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ معیشت میں بہتری کی علامت؟

وزیر اعظم عمران خان نے کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس کو ’عظیم خوشخبری‘ قرار دیا ہے اور ’ملک کے درست سمت میں چلنے‘ کا اعلان کیا ہے۔

اس سلسلے میں موجودہ حکومت کی سب سے بڑی سیاسی حریف پاکستان مسلم لیگ نواز کی معاشی ٹیم کے رکن اور پاکستان کے سابق وزیر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ وزیراعظم کا اعلان ان کی معیشت سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔

انھوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ کوئی معنی نہیں رکھتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ نے اسے مثبت کر دیا ہے تو اس کی وجہ درآمدات کم کرنا ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ نے معیشت کی گاڑی کا انجن بند کر کے اسے کھڑا کر دیا ہے۔‘

احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان میں برآمدات ہونے والی اشیا کا 60 سے 70 فیصد خام مال درآمد کیا جاتا ہے جو حکومت کی ’درآمد دشمن پالیسی‘ کی وجہ سے رُک گیا ہے اور اس کا نتیجہ معاشی پیداوار میں کمی کی صورت میں ہوا اور سب نے دیکھا کہ معیشت کا پہیہ رُک گیا ہے۔

ڈالرز

ماہرین معیشت کے مطابق زیادہ سے زیادہ ڈالرز کا ملک میں ہونا بیرونی ادائیگیوں کو مدد فراہم کرے گا

احسن اقبال نے کہا کہ اگر حکومت برآمدات بڑھا کر اور بیرونی سرمایہ کاری کو زیادہ لا کر کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری لاتی تو یہ قابل ستائش عمل ہوتا۔

نواز لیگ کے دور میں ملکی تاریخ کے بلند ترین کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ ہمارے دور میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے سرمایہ کاری کے وہ منصوبے تھے جن کے لیے مشینری، آلات وغیرہ درآمد کرنے پڑے۔ تاہم وہ ایک وقتی عمل تھا کیونکہ ان منصوبوں کی وجہ سے ’ملک کی معیشت میں گروتھ آتی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے۔‘

انھوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ میں پیدا ہونے والا خسارہ کوئی منفی چیز نہیں بلکہ یہ ملکی معیشت میں ترقی کے لحاظ سے ایک مثبت رجحان ہوتا ہے۔

ماہر اقتصادیات اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈ منسٹریشن (آئی بی اے) کراچی میں معیشت کے استاد صائم علی نے وزیر اعظم پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ میں مثبت رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک خاص تناظر میں تو یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔

’جب ملک میں ڈالروں کی سپلائی کم ہے اور معیشت بھی سست روی کا شکار ہے تو روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے میں یہ ایک اہم رجحان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت میں بھی سکڑنے کا رجحان جاری ہے تو بیرونی دنیا میں طلب کم ہے کہ آپ برآمد کر کے ڈالر کما سکیں۔ تو اس مشکل صورتحال میں کرنٹ اکاؤنٹ کا سرپلس ہونا مثبت عمل ہے کیونکہ اگلے دو تین سال میں پاکستان کو بیرونی قرضے بھی واپس کرنے ہیں تو زیادہ سے زیادہ ڈالر کا ملک میں ہونا ہماری بیرونی ادائیگیوں کو مدد فراہم کرے گا۔‘

صائم علی نے کہا کہ درآمدات پر انحصار کر کے برآمدی اشیا بنانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کی معیشت کی ساخت ایسی ہے کہ ہمیں درآمدات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مثالی طور پر تو یہی ہونا چاہیے کہ برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری بڑھا کر کرنٹ اکاؤنٹ کو کم کیا جائے جیسے کہ چین، سنگا پور، ویتنام کرتے ہیں اور جن میں اب بنگلہ دیش بھی شامل ہوگیا ہے کیونکہ اصل میں یہی ’گروتھ سٹوری‘ ہے اور پاکستان کو بھی اس سے سیکھنا چاہیے۔

صائم علی نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ مثبت ہونا ایک کامیابی ہے لیکن زیادہ بڑے چیلنج مہنگائی اور غربت ہیں جن پر قابو پانا حکومت کی اصل کامیابی ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے عالمی معیشت کے ساڑھے چار فیصد تک سکڑنے کی پیشگوئی کی ہے جبکہ پاکستان میں معیشت کی ترقی دو فیصد تک کا ٹارگٹ ہے۔ ان حالات میں آنے والے دنوں میں معاشی محاذ پر بہت بڑا امتحان حکومت کو درپیش ہے۔

ثنا توفیق نے اس سلسلے میں کہا کہ ایک معیشت کا بیرونی محاذ ہوتا ہے اور ایک اندرونی۔

’بیرونی محاذ پر کرنٹ اکاؤنٹ کا سرپلس ہونا ایک بڑی کامیابی ہے جو پاکستان کی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں حالیہ عرصے میں استحکام دے رہا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp