علامہ اقبالؒ اور مستنصر حسین تارڑ


7 جون 2018 ء مستنصر حسین تارڑ کا ایک مضمون روزنامہ 92 نیوز میں ”شورش کاشمیری کی اس بازار میں اور اقبال کی امیر بائی“ نظروں سے گزرا۔ اس میں مستنصر حسین تارڑ نے شورش کاشمیری کے ایک افسانوی اور من گھڑت قصے کو جان بوجھ کر مزے لے لے کر بیان کیا ہے اور آخر میں خود کو بری الزمہ قرار دیتے ہوئے لکھ دیا ہے:
اقبال شناس مجھے بتائیں کہ اصل قصہ کیا ہے؟

مستنصر حسین تارڑ پورا قصہ پبلک کرنے کے بعد، جو ان کا اصل مقصد تھا، لکھتے ہیں:
”اگر چہ شورش کاشمیری نے جو قصہ بیان کیا ہے مجھے کسی حد تک اس سے اختلاف ہے۔ انہوں نے طوائف امیر کی زبان سے جو کچھ نہایت ڈرامائی اور تھیٹریکل زبان میں کہلوایا ہے، وہ امیر کی نہیں شورش کی اپنی زبان اور لہجے کی کارستانیاں ہیں۔ ایک طوائف چاہے وہ حکیم الامت کی محبوب رہی ہو، کلام پر اس قدر قدرت نہیں رکھتی۔ مجھے ان کی نیت پر کچھ شک ہے۔ اب اس بکھیڑے کے سلسلے میں اقبال شناس کچھ مدد کریں کہ اصل قصہ کیا تھا۔“

تارڑ صاحب کو شورش کی نیت پر شک گزرا، لیکن میرا ماتھا ضرور ٹھنکا کہ مستنصر حسین تارڑ کو یہ قصہ سنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ مجھے وہ اندر سے خاصے غیر مطمئن اور غصے سے بھرے ہوئے محسوس ہوئے۔ میں نے کھوج لگانا شروع کیا کہ آخر ایسی کیا بات ہوئی کہ انہیں یہ قصہ بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تارڑ صاحب لکھتے ہیں:
”شورش نے ایک ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ہم نے بات کو طول دینا چاہا اور تقاضا کیا کہ وہ (امیر بیگم) ان صحبتوں کی کوئی کہانی چھیڑے، جب حکیم الامت علامہ اقبال، سر عبد القادر، گرامی اور ناظر وغیرہ حاضر ہوتے تھے لیکن اس نے کھوکھلے قہقہوں میں ہمارے استفسار کو سمیٹا، پھر ذرا ترش ہو کر کہا: خطائے بزرگاں گرفتن خطا است”۔

تارڑ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ شورش کاشمیری کے تجربات ہیں۔ عرض یہ ہے کہ شورش کاشمیری 1917ء میں پیدا ہوئے اور 1975 ء میں وفات پائی، جب کہ امیر بیگم کا تعلق اگر چہ طوائفوں کے گھرانے سے تھا، لیکن ان کے خاندان کی عورتیں اس پیشے سے بہت پہلے تائب ہو چکی تھیں۔ امیر بیگم خود طوائف نہیں بلکہ وہ اچھی شاعرہ تھیں۔ اس کے علاوہ انہیں اردو اور فارسی کے بہت سے شعرا کے اشعار ازبر تھے۔ نہایت فصیح و بلیغ اردو میں بات چیت کرتی تھیں۔ اقبال 1905ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے۔ وہ سارے منظر خواب ہو گئے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب اقبال کی عمر ستائیس سال تھی۔ نہ اس وقت وہ حکیم الامت تھے، نہ شاعر مشرق بلکہ داغ دہلوی کی شاگردی میں تھے اور ان کی شاعری میں داغ دہلوی کا رنگ نمایاں تھا۔ داغ کا ایک مقطع ملاحظہ فرمائیں:
؎ بوسہ لے کر دل دیا ہے اور پھر نالاں ہیں داغ
کون جانے مفت میں حضرت کا نقصان ہوا

علامہ اقبالؒ کا 3 مئی 1903ء کا تحریر کردہ ایک خط، مولوی میر حسن کے صاحب زادے تقی شاہ کے نام ہے، جو ان کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ اس میں انھوں نے لکھا ہے:
”امیر کہاں ہے، خدا کے لیے وہاں ضرور جایا کریں، مجھے اضطراب ہے“۔

یہ 1903 ءکا زمانہ تھا، جب امیر بیگم تائب ہو کر ایک شاعرہ کی حیثیت سے زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کے یہاں اہل ادب کا آنا جانا رہا ہو گا، لیکن میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ شورش اس وقت ان کا مشاہدہ کہاں کر رہے تھے۔ جب کہ وہ خود 1917ء میں پیدا ہوئے۔ پھر یوم اقبالؒ 1948ء کے موقع پر امیر بیگم ہیرا منڈی میں کہاں آ گئی؟ اگر ”کلیات مکاتیب اقبال“ جلد اول پر مذکور خط پرایک نظر ڈالیں، تو اس کی پوری تفصیل حاشیے میں موجود ہے کہ اس کے خاندان کی عورتیں تو کب کی تائب ہو کر ہیرا منڈی چھوڑ چکی تھیں۔ پھر شورش کی امیر بیگم سے کہاں ملاقات ہوئی۔ یہ سارا من گھڑت قصہ ہے۔

تارڑ صاحب کو علامہ اقبالؒ پرکیا غصہ تھا کہ وہ یہ قصہ بیان کرنے پر مجبور ہوئے۔ کیا کہیں یہ وجہ تو نہیں جس کا ذکر انھوں نے خود اپنی تصنیف ”ہیلو ہالینڈ“ کے صفحہ نمبر 107 پرکیا ہے؟:
میرا ایک نازک ملوک سا پوتا یاشار، ظفر علی روڈ پر واقع ”کڈز کیمپس“ میں نرسری کی کلاس میں کھیلتا کودتا ہے اور وہ اکثر رونی سی شکل بنا کر مجھے شکایت کرتا تھا کہ دادا، میری کلاس میں ایک موٹا سا بچہ سیفی ہے، جو مجھے مارتا ہے، تو میں اسے کہتا کہ یہ تو بہت بری بات ہے، تم ایک تارڑ دادا کے پوتے ہو۔ تم اسے کیوں نہیں مارتے؟ تو وہ روہانسا ہو کر کہتا، دادا وہ میرے اوپر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک روز اس کے سکول کی جانب سے پروانہ ملا کہ ہم ایک ”گرینڈ پیئرنٹ ڈے“ کا اہتمام کر رہے ہیں، آپ آئیے اور دیکھیے کہ آپ کے پوتے پوتیاں کس ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو میں اور میمونہ کشاں کشاں وہاں پہنچے، تو دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کے فرزند جسٹس جاوید اقبال اور ان کی اہلیہ ناصرہ اقبال بھی موجود ہیں۔

میں نے جسٹس صاحب سے استفسار کیا کہ حضور آپ کہاں؟ تو کہنے لگے، تارڑ صاحب میرا پوتا سیفی بھی یہاں پڑھتا ہے۔ کھلا یہ کہ میرے پوتے یاشار کو پھینٹی لگانے والا بچہ سیفی جاوید اقبال کا پوتا اور علامہ اقبال کا پڑ پوتا ہے۔ تب میں نے بصد ادب جاوید اقبال سے گزارش کی کہ محترم بے شک ہم آپ اور آپ کے ابا جی علامہ اقبال کا بے حد احترام کرتے ہیں لیکن اگر آئندہ آپ کے پوتے نے۔۔۔ علامہ اقبالؒ اپنی جگہ اور میرا پوتا یاشار اپنی جگہ”۔

اصل مسئلہ یہ تھا، جہاں تارڑ صاحب کو اپنا کتھارسس کرنے کے لیے، شورش صاحب کے من گھڑت قصے کا سہارا لینا پڑا۔ رہی بات دھمکی کی تو اتفاق سے وہ ویڈیو میری نظروں سے بھی گزری ہے، جہاں تارڑ صاحب اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے جاوید اقبال سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ مسکراہٹ اتنی ہے کہ ان کے سارے خوبصورت دانت آسانی سے گنے جا سکتے ہیں۔

تارڑ صاحب سنجیدہ شخص ہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ انھوں نے نرسری اسکول کے بچوں کی اس معمولی سی پھینٹی کو کتاب میں شامل کیا۔ کل جب یہ بچے بڑے ہوں گے اور تارڑ صاحب کی کتاب پڑھیں گے، تو ان کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ چار پانچ سال کے بچوں کے بارے میں یہ نفرت آمیز لہجہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ سیف اور یاشار دونوں اس قوم کا مستقبل ہیں۔ بجائے ان کے درمیان صلح کروانے کے، اشتعال دلانا اور یہ ترغیب دلانا کہ آپ بھی ویسا ہی کرتے، جیسے اس نے کیا ہے، کوئی مناسب حوصلہ افزائی نہیں ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ تارڑ صاحب اور شورش صاحب کی ان کہانیوں کی بیس سال بعد کوئی اہمیت نہ رہے اور ان کے ناموں سے بھی لوگ واقف نہ ہوں، لیکن اقبالؒ اور اس کے کلام کو تو رہتی دنیا تک پڑھا اور یاد رکھا جائے گا۔ یہ طے شدہ ہے کہ چاند پر تھوکنے سے چاند کبھی میلا نہیں ہوتا۔ اسی طرح علامہ اقبال ایک شاعر اور فلسفی کے علاوہ ایک سچے عاشق رسول ہیں۔ علامہ اقبال کے نزدیک عشق رسولﷺ ہی حاصل دنیا و دین ہے اور اس کا سرچشمہ وہ ذات اقدس ہے جس کے طفیل سارے عالم کی تخلیق ہوئی اور جس کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جہاں فرمایا ہے کہ ”ورفعنا لک ذکرک“۔ کہ اے محبوب ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے۔ تو اس کے ساتھ میرا تو عقیدہ ہے کہ جس نے بھی آقائے دو عالم ﷺ کی محبت اور ناموس کو مقدم رکھا، اللہ تعالیٰ نے اسے کو دونوں جہانوں میں عزتوں اور رفعتوں سے نواز دیا۔ اس کی عزتوں میں زید، بکر، کوئی بھی کمی نہیں لا سکا۔ بلکہ اس کی قبر کی مٹی بھی اس کے کفن کو چھونے سے کتراتی ہے۔
؎ کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).