عشق کے چالیس اصول: ناول پر ایک تاثر


مصنفہ: الف شفق
تبصرہ نگار: حبیب شیخ

کہانی کے اندر ایک اور کہانی کو بیان کرنا ہر لکھاری کے بس کی بات نہیں، اور یہی نہیں بلکہ ان دونوں کہانیوں کے حسیں امتزاج کی مثال عشق کے چالیس اصول The Forty Rules of Love نامی ناول ہے۔

ترکی نزاد مصنفہ الف شفق کے اس ناول کا مرکزی کردار ایک شادی شدہ امریکی عورت ایلا اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ خوش حال زندگی گزار رہی ہے، لیکن اس کے اندر محبت سے عاری خلا ہے۔ وہ ایک پبلشر کے لئے ناول ’شگفتہ توہین‘ Sweet Blasphemy کو تنقیدی ذہن کے ساتھ پڑھ رہی ہے، تا کہ وہ اسے اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کرے کہ یہ ناول شائع کرنے کے قابل ہے کہ نہیں۔ شگفتہ توہین کتاب شمس تبریزی کے بارے میں ایک ناول ہے، جو ایک خانہ بدوش درویش، عالم اور دانشور ہے اور چند مافوق الفطرت (supernatural) خصوصیات کا حامل ہے۔

وہ خدا کی ذات میں مجذوب ہے اور اس نے عشق کے چالیس اصول وضع کیے ہیں۔ اس ناول میں شمس تبریزی کا کردار ایک طرف عشق کا پرچار کرتا ہے تو دوسری طرف لوگوں کو ان کی منافقت سے آگاہ کرتا ہے۔ شمس تبریزی کی شخصیت عجیب و غریب ہے۔ وہ معاشرے کے دھتکارے ہوئے لو گوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو عزت بخشتا ہے لیکن اہل مسند اور ان کے حواریوں کے طور طریقوں کو کھلے عام چیلنج کرنے سے نہیں گھبراتا ہے۔ وہ شادی کرتا ہے لیکن جسمانی تعلق سے پرہیز کرتا ہے۔

شمس تبریزی کی شدید خواہش تھی کہ اس کو ایک ایسا ساتھی ملے جس کو وہ اپنا علم منتقل کر سکے۔ یہ شاگرد اسے جلال الدین رومی کی شکل میں ملتا ہے۔ ایک طرف رومی اپنے مرشد کی محبت میں گرفتار ہو کر اپنے خاندان اور شاگردوں کو نظر انداز کرتا ہے تو دوسری طرف شمس کے غیر روایتی گفتار اور اعمال کی وجہ سے کئی لوگ اٌس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً کچھ لوگ شمس تبریزی کے قتل کی سازش کرتے ہیں اور اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ رومی اپنے مرشد شمس کی جدائی کے غم میں شعر گوئی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ وہ فی البدیہہ شعر کہنا شروع کر دیتا ہے اور ایک عظیم شاعر بن جاتا ہے۔

ایلا جیسے جیسے شگفتہ توہین ناول کو پڑھتی ہے اسے اس کے مصنف عزیز کے بارے میں جاننے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے۔ دونوں کی کئی لمبی لمبی ای میلوں کے بعد اسے محسوس ہوتا ہے کہ عزیز بھی کئی لحاظ سے شمس تبریزی کے مانند ہے۔ ایلا اسے اپنے گھریلو مسائل کے بارے میں لکھتی ہے تو وہ اسے محبت کے اصولوں کی روشنی میں مشورہ دیتا ہے۔ خط کتابت سے ان دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور ان خطوط پر ان کی محبت کی بیل پروان چڑھتی ہے جو ان کو رومی کے شہر کونیا لے جاتی ہے۔ میں اس محبت کے انجام کے بارے میں لکھنے سے احتراز کروں گا، تا کہ جن لوگوں کا اس کتاب کو پڑھنے کا ارادہ ہے ان کا تجسس برقرار ہے۔

شمس تبریزی اور رومی کے درمیان استاد اور شاگرد کی محبت کی کہانی سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ تو شمس کے بارے میں شک کرتے تھے کہ کیا ایک ایسی شخصیت دنیا میں وجود پذیر ہوئی تھی یا یہ سب محض قصے کہانیاں ہیں۔ مگر فارسی زبان میں شمس تبریزی کی ڈائری موجود ہے جس کا انگریزی ترجمہ

Me and Rumi: The Autobiography of Shams۔ I Tabrizi کتاب کی شکل میں William C۔ Chittick نے شائع کیا ہے۔ پھر بھی اس ناول میں شمس تبریزی کو ایک کہانی کا کردار ہی سمجھنا چاہیے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس کردار اور اصل شخص میں کتنا فرق ہے۔ مجھے یہ تجربہ نسیم حجازی کی کتابوں سے ہوا، جنہیں میں لڑکپن میں تاریخ کا حصہ سمجھ کر پڑھتا رہا لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ان ناولوں میں حقیقت کم اور افسانہ نگاری زیادہ تھی۔

عشق کے چالیس اصول کی کتاب میں سے درج ذیل نکات نے مجھے متاثر کیا:
٭دو کہانیوں کو جن کے ادوار میں سات سو سال کا فرق ہے، بڑی آسانی سے متوازی طرز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں سیکڑوں چھوٹے چھوٹے ابواب ہیں اور ہر باب کا عنوان کا ایک کردار ہے۔ اس تکنیک کے استعمال سے مصنفہ جب چاہے، ایک کہانی کو چھوڑ کر دوسری کہانی میں چلی جاتی ہے۔

٭اس ناول کو پڑھ کر صوفیت کے بارے میں میرے علم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اپنی اس تحریر کے ذریعے الف شفق نے صوفی مسلک کو سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

٭یہ ناول اس خیال کی نفی کرتا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو تشدد پر اکساتا ہے۔ چوں کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ فروخت والا ناول بھی رہ چکا ہے، تو اس کے لاکھوں قارئین کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اسلام کس طرح محبت کی تعلیم دیتا ہے۔

٭اس کتاب میں بیان کردہ عشق کے چالیس اصول زندگی گزارنے کے لئے مشعل راہ ہیں۔ مثلاً:
”عقل اور عشق مختلف مواد سے بنے ہیں۔ عقل انسان کو زنجیروں سے باندھ دیتی ہے تا کہ وہ خطرات کی دنیا میں نہ کودے، لیکن عشق تمام زنجیروں اور خطرات کو تحلیل کر دیتا ہے۔ عقل ہمیشہ محتاط ہوتی ہے اور مشورہ دیتی ہے کہ جنونی بننے سے پرہیز کرو، لیکن عشق کا کہنا ہے کہ نتیجے کی پروا مت کرو۔ عقل انسان کو بچا بچا کر رکھتی ہے، جب کہ عشق خود کو ملبے میں تبدیل کر سکتا ہے، کیوں کہ زندگی کے خزانے اسی ملبے میں پوشیدہ ہیں۔ ایک ٹوٹے ہوئے دل میں یہ خزانے چھپے ہوتے ہیں۔“

شاعر مشرق اقبال نے بھی اپنی شاعری میں بارہا عقل اور عشق کا موازنہ کیا ہے
؎ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

ایک اور جگہ اقبال نے کہا
؎ نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے

٭اس کتاب کے مطابق قرآن کی تشریح کے چار سطحیں ہیں، ظاہری، باطنی، اولیائے اللہ کی تشریح، اور انبیا کی تشریح۔
٭ قرآن کی سورۃ النساء آیت 34 کے روایتی ترجموں میں شادی شدہ مردوں کو بعض صورت احوال میں ان کی بیویوں پر علامتی جسمانی تشدد کی اجازت دی گئی ہے، لیکن شمس تبریزی کے مطابق ان پر جسمانی تشدد نہیں بلکہ ان کو ترغیب دلانے اور ان سے پرے ہو جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ ترجمہ الف شفق نے
Al-Quran: A Contemporary Translation by Ahmed Ali (Princeton University Press 2001)
سے لیا ہے۔

٭اس کتاب میں ماحول اور کرداروں کی اصلیت کو برقرار رکھنے کے لئے انگریزی رسم الخط میں فارسی زبان کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً: nafs، faqir۔ کتاب کے آخر میں Glossary کے باب میں ان الفاظ کا انگریزی میں ترجمہ بیان کیا گیا ہے۔

آخر میں میں یہی کہوں گا کہ ”The Forty Rules of Love“ ناول ادب اور تجسس کے لحاظ سے ایک انوکھی اور کامیاب کوشش ہے اور میں اسے کبھی دوبارہ پھر پڑھوں گا۔

اس کتاب کا چالیس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس ناول کا اردو میں بھی کئی لوگ ترجمہ کر چکے ہیں، جن میں نعیم اشرف (عشق کے چالیس اصول) اور ہما انور (چالیس چراغ عشق کے) کے ترجمے شامل ہیں۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).