پاکستانی سیاست کے خطرناک مغالطے


شاگردوں نے استاد سے پوچھا، ”مغالطہ سے کیا مراد ہے؟“ استاد نے کہا کہ میں ایک مثال دیتا ہوں۔ دو مرد میرے پاس آتے ہیں جن میں سے ایک صاف ستھرا اور دوسرا گندا ہے۔ میں ان کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ غسل کر کے پاک صاف ہو جائیں۔ آپ بتائیں کہ ان میں سے کون غسل کرے گا؟ شاگردوں نے فوراً کہا، ”گندا مرد“۔ اس پر استاد بولا، ”نہیں بلکہ صاف مرد غسل کرے گا، کیوں کہ اسے نہانے کی عادت ہے، جب کہ گندے مرد کو صفائی کی قدر و قیمت معلوم ہی نہیں، لہذا اب بتاؤ کہ کون نہائے گا؟ سب نے کہا، “گندہ”۔ استاد مسکرائے اور جواب دیا، “دونوں نہائیں گے، کیوں کہ صاف مرد کو نہانے کی عادت ہے اور گندے کو نہانے کی ضرورت ہے”۔

استاد نے ایک بار پھر پوچھا کہ اب کون نہائے گا؟ شاگردوں کا اس بار مشترک جواب تھا، “دونوں”۔ جواب سن کر استاد نے کہا کہ کوئی بھی نہیں نہائے گا، کیوں کہ گندے مرد کو نہانے کی عادت نہیں، جب کہ صاف کو نہانے کی حاجت نہیں۔ استاد کے ہر بار ایک الگ جواب سے شاگرد پریشان ہو گئے بولے، “آپ ہر بار الگ جواب دیتے ہیں اور ہر جواب درست معلوم ہوتا ہے۔ آپ ہی بتائیں کہ ہمیں درست بات کیسے معلوم ہو؟” اس پر استاد نے کہا، “مغالطہ یہی تو ہے”۔

بد قسمتی سے پاکستانی سیاسی پارٹیاں اس وقت شدید مغالطے کا شکار ہیں۔ اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت اور صوبہ سندھ کی حکمران پارٹی اپنے نامہ اعمال کی سیاہ کاریوں کو چھپانے کے جتن کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں پی پی پی پی نے کراچی کے جلسے سے نواز شریف کو خطاب کرنے کی اجازت نہ دی، نیز مریم کو بھی پابند کیا کہ وہ اپنی تقریر کے دوران میں سلامتی کے اداروں اور ان کے سربراہ کے بارے میں محتاط انداز بیان اپنائیں گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے کوئٹہ کے جلسے میں شمولیت سے معذرت کر لی ہے۔

پی پی پی پی کی نظر میں خیر سگالی کی یہ کارروائیاں ایک اچھا پیکج تھا، جس کے عوض ان کی قیادت پر حکومت وقت اور عدالت کا ہاتھ نسبتاً نرم ہو جانا چاہیے۔ اس مغالطے میں کئی شامیں گزارنے کے بعد بھی، ”ابھی دلی دور است“ کے مصداق حکومتی اداروں کی طرف سے جب کوئی اشارہ نہیں دیا گیا تو سونے پہ سہاگا کہ کسی اور مغالطے میں رہتے ہوئے مایوس کن صورت احوال میں پی پی پی پی نے ایک خطرناک کھیل کا آغاز کر دیا۔ سلامتی اور ریاستی اداروں کے ٹکراؤ کا کھیل۔

وفاق اور صوبے کے امن و سلامتی کے اداروں میں بد گمانی اور بد اعتمادی کا بیج بونے کی ایک خطرناک چال چلی گئی۔ پھر کیا ہونا تھا! سندھ پولیس کا سویا ہوا ضمیر اچانک جاگ گیا۔ ایسا ضمیر جو سیاست دانوں کے تلوے چاٹتے ہوئے بھی بے خبر سویا رہتا تھا، ایسا ضمیر جو سندھ کی معصوم عوام کے قاتلوں کو تحفظ دیتے ہوئے پر سکون رہتا تھا، ایسا ضمیر جو چوروں، ڈکیتوں اور بد معاشوں کے ڈیروں پر سلامی دیتے ہوئے ہمیشہ شانت رہتا تھا، ایسا ضمیر جو اپنے بھائی بندوں کے برائی کے اڈوں کی حفاظت خوشی سے کرتا تھا، ایسا ضمیر جو نیک اور انصاف پسند پولیس افسروں کو کھڈے لائن لگاتے وقت مطمئن رہتا تھا۔

جی ہاں! ان کا ضمیر اچھی طرح جانتا ہے کہ کب جاگنا ہے اور کب گھوڑے بیچ کر سو جانا ہے۔ صوبہ سندھ کے ایک درجن سے زائد اعلیٰ پولیس افسران نے نام نہاد توہین آمیز رویے کی وجہ سے چھٹیوں کے لیے درخواستیں جمع کروا دی ہیں۔ مگر پھر مغالطے کی وجہ سے آئی جی سندھ نے سب افسران کو اپنا اپنا کام جاری رکھنے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ تو پاکستان پیپلز پارٹی کے مغالطے تھے اور ہیں۔ اب ہم بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کی قیادت کے مغالطوں کی بات کرتے ہیں جن کو سب سے بڑا یہ مغالطہ تھا کہ وہ حساب کتاب سے مبرا ہیں، ٹی ٹی ایز کا کاروبار حلال کاروبار ہے، سرکاری افسران کو اپنا ذاتی ملازم سمجھنا انسانیت کی معراج ہے، کرپشن کے ریکارڈ بنانا عظیم کام ہے، جماعت کی قیادت اپنے خاندان تک محدود رکھنا عوام کی آواز ہے۔

مگر پھر مقدمات کی طویل اننگز کھیلنے اور سزا پانے کے بعد مغالطہ ہوا کہ ”ووٹ کو عزت دو“ ۔ جیل جا کر جب آٹے دال کا بھاؤ پتا چلا تو پلیٹ لیٹس کا مغالطہ ہو گیا۔ لندن روانگی کے بعد مغالطہ ہوا کہ بیک ڈور پالیسی فار این آر او بہترین ہے مگر تقریباً ایک سال کی نا کامی کے بعد انتخابات میں شکست کا براہ راست فوج کو ذمہ دار قرار دینے کا مغالطہ شروع ہو گیا جس میں مزید تڑکا یہ لگا کہ عدالتوں سے نا اہل کروایا گیا ہے۔

جلسے جلوسوں کا مغالطہ گوجرانوالہ سے شروع ہو چکا ہے جو مختلف شہروں سے ہوتا ہوا جلد کسی اور مغالطے میں بدل جائے گا۔ مغالطوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے جو اس ملک و قوم کے نصیب میں لکھا گیا ہے جب تک یہ قوم خود اپنا احتساب نہیں کرتی اور مغالطوں سے نکل کر ہدایت کے راستے پر نہیں چل پڑتی، ہمارے نصیب میں بس مغالطے ہی مغالطے لکھے جائیں گے۔ وقت کم رہ گیا ہے، بس پہچان لو! اپنے ہمدرد اور دشمن کو۔ سفید لبادوں میں چھپے داغ دار انسانوں کے وجود سے اس ملک کو پاک کرنا ہو گا، ورنہ پھر نہ کہنا کہ ایک اور مغالطے نے مار دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).