پنجاب ماڈل زندہ باد



پنجاب کی سیاست 1857 سے تھانہ و پٹوار اور نمائندگان پر مشتمل ہے، پہلے اسے انگریز چوہدریوں، وڈیروں اور پیروں کے ذریعے چلاتے تھے، اب یہی کام ہماری سیاسی جماعتوں کے سربراہ کرتے ہیں۔ خان صاحب اس سیاست کو تبدیل کرنا چاہتے تھے، مگر حکومت آتے ہی وہ خیالی پلاو پکانے سے باہر نکل آئے ہیں۔ انھوں نے زمینی حقائق کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور جناب ناصر درانی جنھیں پولیس اصلاحات کے لئے مشیر خاص لگایا گیا تھا، ان کا استعفی قبول کر کے میرے کپتان نے واضح پیغام دے دیا کہ اصلاحات کو بھول جائیں، مکھی پر مکھی ماری جائے گی، جیسے شہباز شریف مارتے تھے۔ البتہ وہ مکھی مارنے کے ساتھ معطل بھی کر دیتے تھے، عثمان بزدار کے پاس تو اس کا بھی اختیار نہیں ہے۔

اول تو عثمان بزدار کی ذاتی صلاحیت کا مسئلہ ہے، دوسرا ان کے اردگرد اتنے سیاسی پہلوان بٹھا دیے گئے ہیں کہ وہ ان کے بوجھ تلے دب گئے ہیں۔ ان سیاسی پہلوانوں میں چوہدری پرویز الہی، چوہدری محمد سرور، میاں اسلم اقبال اور عبدالعلیم خان سرفہرست ہیں۔ ان سب کے دل میں وزیراعلی بننے کی کسک اٹھتی ہے، جس کے لئے ان سب کو بذریعہ قومی احتساب بیورو دوائی دی جاتی ہے، چند ایک دن ان کی طبعیت ناساز رہتی ہے، مگر پھر ٹھیک ہو جاتی ہے۔

پنجاب میں حکمرانی کے چند ایک ماڈل ہیں، پہلا ماڈل سردار عارف نکئی مرحوم والا ہے، جس میں وزیراعلی کمزور لگا دو مگر ساتھ سیاسی پہلوان لگا کر حکومت چلا لو۔

دوسرا ماڈل شریف و الہی ماڈل ہے، جس میں سیاسی پہلوان ہی صوبہ کا وزیراعلی ہو۔ دوسرے ماڈل کو جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ جو وزیراعلی بن جاتا ہے، وہ پھر وہ وزیراعظم بننے کے خواب دیکھتا ہے، چیدہ چیدہ مثالوں میں نواز شریف، پرویز الہی، شہباز شریف سرفہرست ہیں۔

تیسرا نیا ماڈل عمران خان ماڈل ہے، جس میں نا وزیراعلی صحیح لگاو اور نا ہی سیاسی پہلوان صحیح تلاش کرو تاکہ طاقت کا توازن ہی نا ہو۔ اس نازک صورتحال کا جائزہ لیتے رہو۔

اس تجربہ کا نتیجہ یہ ہے کہ پنجاب کی حکومت کے وہ دو بازو (بیوروکریسی اور پولیس) جو ریاستی امور چلاتے تھے۔ نا صرف بددل ہیں بلکہ رہی سہی کسر اور کس بل آئی جی اور سی سی پی او کی چپقلش نے نکال دی ہے۔ سی سی پی او اور آئی جی صاحب کی ذاتی مخاصمت اور پھر موٹروے پر ہونے والے واقعہ پر عمر شیخ کی ہرزہ سرائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ شعیب دستگیر، کلیم امام، محمد طاہر، امجد جاوید، اور کیپٹن عارف سمیت کوئی بھی آئی جی جناب وزیراعظم و وزیراعلی کے معیار پر پورا نہیں اترا، سب ہی نے گھر کو راہ لی ہے اور اب سہرا انعام غنی کے سر سجایا گیا ہے۔

اب تو پولیس فورس کے اندر سے لوگوں نے بغاوت شروع کر دی ہے اور چند ایک لوگوں نے رخصت پر جانا قبول کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں سی سی پی او کی اے ایس پی کے ساتھ تلخ کلامی بھی خبروں کا حصہ رہی ہے۔ چیف سیکریٹری، ہیلتھ سیکریٹری، فوڈ سیکریٹری وغیرہ کے تبادلے ابھی علیحدہ ہیں۔ ان سب تبادلوں کو اگر تحریر کر لیا جائے تو فہرست مرتب کی جا سکتی ہے۔

پنجاب کو چلانے کے لئے دو سال سے تجربات کیے جا رہے ہیں، پہلا تجربہ یہ تھا کہ ایسا بندہ وزیراعلی لگایا جائے جو صلاحیت اور کارکردگی کے لحاظ سے اتنا کمزور ہو، کہ کبھی ایسی کارکردگی نا دکھا سکے کہ وفاق میں جانے کے خواب دیکھ سکے۔ دوسرا تجربہ جو جاری ہے وہ یہ ہے کہ وزیراعظم جو ہر فن مولا ہیں، جن کے کندھوں پر حزب اختلاف کے احتساب سے لے کر معیشت اور حکومتی امور چلانے کا وزن موجود ہے۔ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کمزور وزیراعلی لگا کر ان صوبوں کی حکومتوں کی دیکھ بھال بھی خود اپنے سر لینا چاہتے ہیں۔

یہ اسی بات کا شاخسانہ ہے کہ اب کچھ بھی نہیں چل رہا ہے، اور مہلت ختم ہو رہی ہے۔ حالانکہ یہ وہی عمران خان ہیں جو حزب اختلاف میں ادارے بنانے کو ترجیح دیتے تھے افراد کو نہیں اور فرماتے تھے کہ تحریک انصاف ایک ادارہ بنے گی۔ جس طرح شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی ہیں۔ وہ عہد ہی کیا جو وزیراعظم صاحب نے وفا کیا ہو۔ دوسرا وزیراعظم صاحب ہر فن مولا، ہر فن ادھورا والے بندے ہیں، ایسے لوگ کبھی اچھے رہنما ثابت نہیں ہوتے۔

سب سے اہم اور تشویشناک بات یہ ہے، کہ محترم کو معلوم ہے کہ ان کے تقریباً تمام فیصلہ غلط ہیں، مگر طرف تماشا یہ ہے قبلہ غلطی سدھارنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ آخر میں وہ ہر بات کا جواب اس طرح دیتے ہیں کہ سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں، دوسرا اس پر میٹنگ ہو رہی ہے یا بات چیت چل رہی ہے، تیسرا اور سب سے اہم نقطہ نظر جو وہ پیش کرتے ہیں کہ یہ سب پچھلی حکومتوں کی زیر سرپرستی ہوتا رہا ہے، اس لئے میں بے قصور ہوں۔ چوتھی اہم تسلی جو دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی نیت نیک ہے، مگر ان کی ٹیم بہت ہی نکمی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).