آپ انسانی رشتوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟


انسان کا کسی بھی خاندان، ثقافت، مذہب اور ملک میں پیدا ہونا ایک حادثاتی عمل ہوتا ہے اس پراسس میں اس کی چوائس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس حادثاتی عمل کے بعد بچپن سے بلوغت کا سفر بہت سارے مراحل سے گزرتا ہے۔ اس سفر میں وہ اپنے بہت سارے رشتے بناتا ہے اور ان رشتوں میں سب سے اہم رشتہ دوستی کا ہوتا ہے۔ انسانی رشتوں میں دوستی ایک سپورٹ سرکل کا درجہ رکھتی ہے۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آپ آہستہ آہستہ وہی بن جاتے ہیں جو آپ کے گرد حادثاتی طور پر موجود ہوتا ہے۔

آپ کی اپنی ذاتی شناخت و شخصیت روایتی ماحول کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو سی جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی آپ روایتی فکر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر آپ نے غیر روایتی طرز فکر کو اختیار کیا ہے تو پھر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ آپ اپنا ایک ایسا سپورٹ سرکل سلیکٹ کریں جو زندگی کے مدوجزر میں آپ کی طاقت بنے۔ ”ان سرچ آف پیس“ کا 5 واں پروگرام جو کہ کینیڈا ون ٹی وی پر نشر ہوتا ہے دیکھ رہا تھا جو کہ میرے اور میرے بہت سارے دوستوں کے لیے ایک طرح سے ”آنکھیں کھول دینے“ کے مترادف تھا۔

اس پروگرام کے روح رواں ڈاکٹرخالدسہیل اور ڈاکٹر کامران احمد انسانی رشتوں میں چھپی ہوئی پراسراریت کی پرتیں کھول رہے تھے۔ وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک بیلنسنگ ریلیشنگ کیسے قائم ہو سکتی ہے۔ ہمارے جیسے روایتی معاشروں میں رہنے والے لوگ ایک طرح سے bubble میں زندگی گزارتے ہیں اور زندگی کی لاتعداد حقیقتوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔ وہ انسانی رشتوں میں پائی جانے والی پراسراریت کو جان ہی نہیں پاتے اور نہ ہی جاننے کی جستجو کرتے ہیں۔

ڈاکٹر کامران نے بڑے خوبصورت انداز میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ جو لوگ غیر روایتی انداز سے زندگی گزارتے ہیں ان کے لیے دوستی کی صورت میں سپورٹ سرکل کا ہونا ایک لائف لائن کی طرح ہو تاہے مگر جو لوگ روایتی انداز سے زندگی گزارتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اپنا سرکل منتخب کرتے وقت صرف اپنے ہم خیال لوگوں سے وابستگی قائم نہ کریں بلکہ دوسرے مکتبہ فکر کے لوگوں سے بھی تعلقات بنائیں تاکہ آپ کی ذہنی صلاحیتیں پروان چڑھیں اور آ پ زندگی کے مختلف perspectives سے بھی آشنائی حاصل کر کے اپنی سوچ میں تنوع کا عنصر پیدا کر سکیں۔

خیالات کی رنگا رنگی سے ہی معاشرے بہتر انداز میں آگے بڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کنویں میں رہنے والی طرز زندگی میں صرف ”میں میں“ کی گردان کا غلبہ رہتا ہے اور لاتعداد انسانی صلاحیتوں کی اس سے زیادہ توہین نہیں ہو سکتی۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ انسانی تعلقات میں جب کوئی تلخی پیدا ہو جائے تو اس کو تین طریقوں سے حل کیا جاسکتا ہے۔

To resolve
To dissolve
To mediate

سب سے پہلے تلخی کے عوامل پر غور کیا جائے اور پھر اسے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ دوسرے مرحلے میں اس مسئلے کو جڑ سے ختم کیا جائے اور تیسرے مرحلے میں کسی ایسے دوست، استاد یا تھراپسٹ کو چنا جائے جوفریقین کے درمیان اپنی دانش سے مصالحت کروادے۔ اس طرح کرنے سے اگر رشتہ پائیدار ہو گا تو وہ قائم رہے گا اور اگر وہ رشتہ کسی غرض کی بنیاد پر ہوگا تو وہ ختم ہو جائے گا۔ جب ہم شعوری انتخاب نہیں کرتے تو پھر ہمیں بلا وجہ کا بوجھ ساتھ ساتھ گھسیٹنا پڑتا ہے۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر سہیل نے انسانی رشتوں کو متوازن رکھنے کے لیے اپنی ایک فلاسفی کا ذکر بھی کیا جس کے تین مدارج ہیں۔

1۔ ریڈزون
2۔ ییلو زون
3۔ گرین زون

اس فلاسفی کے بارے میں یہ خیال ہے کہ انسان جب بہت زیادہ غصے میں ہوتا ہے تو و ہ ریڈزون میں چلا جاتا ہے۔ جب وہ اپنے جذبات کے مدوجزر میں ہوتا ہے یعنی تھوڑا غصہ یا چڑچڑا پن تو وہ ییلو زون میں ہوتا ہے اور جب وہ بہت زیادہ ہشاش بشاش اور خوش ہوتا ہے تو وہ اپنے گرین زون میں ہوتا ہے۔ اگر ہمیں اپنی زندگی میں معنویت کے عنصر کو بڑھانا ہے تو ہمیں زیادہ سے زیادہ گرین زون میں رہنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہوتا ہے کہ کن عوامل کی وجہ سے آپ کے اندر ان تین زون والی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ جب آپ ان عوامل کو جان لیں گے تو پھر آپ اپنے گرین زون میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کر کے اپنی زندگی کے دامن میں خوشیاں بھر سکیں گے۔ اس کے بعد ڈاکٹر سہیل نے دو قسم کے لوگوں کا تذکرہ کیا۔

1. Introvert
2. Extrovert

جو لوگ انٹروورٹ ہوتے ہیں ان کے لیے سوشل رلیشنگ میں بہت سارے مسائل ہوتے ہیں اور وہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار اور تعلقات کو انجوائے نہیں کر سکتے جبکہ اس کے برعکس جو لوگ ایکسٹروورٹ ہوتے ہیں ان کے لیے ہنسنا، کھیلنا، دوست بنانا، محفلوں میں وقت گزارنا اور زندگی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ یہ دونوں قسم کے لوگ نارمل ہوتے ہیں لیکن انٹروورٹ بعض دفعہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی نظر میں دونوں میں واضح فرق یہ ہے کہ ایکسٹروورٹ کسی بھی محفل میں سے انرجی حاصل کر کے آتا ہے جبکہ انٹروورٹ اپنی انرجی کھو کر آتا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے دو طرح کے لوگوں کا تذکرہ کیا۔

1۔ روایتی اکثریت
2۔ تخلیقی اقلیت

ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ پہلے والے روایات کی شاہراہ پر چلتے ہیں جبکہ دوسرے اپنے من کی پگڈنڈی پر چلتے ہیں۔ اس سب گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ ہمیں اپنے دوستوں اور تعلقات بنانے میں شعوری ادراک سے کام لینا چاہیے کیونکہ دوستیاں، تعلقات اور وابستگیاں آپ کی ذہنی ترجیحات کا تعین کرتی ہیں۔ ڈاکٹر کامران کا کہنا تھا کہ آپ کے چند ایسے دوست ضرور ہونے چاہیے جن کے ساتھ آپ ہارٹ ٹو ہارٹ بات کرسکیں دراصل یہ ایسے دوست ہوتے ہیں جن کے سامنے آپ بڑی بے فکری سے اپنا ”پرسوناماسک“ اتار سکتے ہیں۔ زندگی گزارنے کے لیے سیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے اور یہی تخلیقی دوست ہمارے سیکھنے کے عمل میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ اس علمی پروگرام کی ابھی 5 اقساط ہوئی ہیں اور ابھی بہت کچھ ڈسکس ہونا باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).