کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور آئی جی سندھ کا مبینہ ’اغوا‘: سندھ حکومت نے وزارتی تحقیقاتی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا


کیپٹن صفدر،
فائل فوٹو
پاکستان کے صوبہ سندھ کے محکمہ داخلہ نے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کے داماد اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمے اور پولیس کی اعلیٰ قیادت سے ’بدسلوکی اور توہین‘ کی تحقیقات کے لیے وزارتی کمیٹی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔

اس صوبائی وزارتی کمیٹی کے کنوینر صوبائی وزیر سعید غنی جبکہ ارکان میں ناصر حسین شاہ، سید سردار علی شاہ،اویس قادر شاہ اور معاون خصوصی مرتضیٰ وہاب شامل ہیں۔

کمیٹی کے ٹرمز آف ریفرینس کے مطابق کمیٹی 18 اور 19 اکتوبر کو کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس پر ڈالے گئے مبینہ دباؤ، آواری ہوٹل میں چھاپہ مار کر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی پرائیوسی اور وقار کو مجروح کرنے کے الزامات کی تحقیقات کرے گی۔

کمیٹی پولیس کی اعلیٰ قیادت کی ’توہین اور بدسلوکی‘ کی مکمل تحقیقات سمیت اس واقعے سے منسلک دیگر معاملات پر غور کرے گی۔ صوبائی محکمہ داخلہ کے جاری کردہ مراسلے کے مطابق مذکورہ کمیٹی 30 روز میں اپنی رپورٹ مکمل کر کے جمع کروائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر ضمانت پر رہا

آئی جی سندھ کا مبینہ ’اغوا‘: بلاول بھٹو کے مطالبے کے بعد آرمی چیف کا تحقیقات کا حکم

مراد علی شاہ: ’کیپٹن (ر) صفدر کے معاملے میں سندھ حکومت کے خاتمے کی دھمکی دی گئی‘

یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کیپٹن (ر) صفدر کو 19 اکتوبر کی صبح کراچی کے ایک مقامی ہوٹل سے گرفتار کیا تھا۔ ان کے خلاف بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر نعرے بازی کرنے اور دھمکیاں دینے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا۔ اور پیر کو ہی کراچی کی ایک مقامی عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے الزام عائد کیا تھا کہ سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو کراچی میں ‘سیکٹر کمانڈر’ کے دفتر لے جایا گیا جہاں اُن سے زبردستی کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے احکامات پر دستخط کروائے گئے۔

کمیٹی کے رکن صوبائی وزیر سیاحت و ثقافت سردار علی شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے کمیٹی کا اجلاس ہو گا جس میں تحقیقات کے متعلق ترجیحات طے کی جائیں گی، جس کے بعد کمیٹی اپنا کام شروع کرے گی۔

واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دو روز قبل ایک پریس کانفرنس میں صوبائی وزارتی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اسی روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی اس واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ جس کے بعد آرمی چیف کی جانب سے کراچی کے کور کمانڈر کو تحقیقات کر کے فوری رپورٹ دینے کی ہدایت کی گئی تھی، تاہم اس تحقیقات کی آغاز کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

اس سے قبل سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کے معاملے میں ان کو حکومت کے خاتمے کی دھمکی دی گئی لیکن انھوں نے جواب دیا کہ ’عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔‘

تاہم انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ انھیں یہ ’دھمکی‘ کس کی جانب سے دی گئی۔

سندھ اسمبلی کے اجلاس سے بدھ کو خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ’ان دو دنوں میں بہت کچھ ہوا، کئی چیزیں ہیں جو میں بتا سکتا ہوں کچھ چیزیں میں نہیں بتا سکتا کیونکہ میں ان کی طرح غیر ذمہ دار نہیں ہوں۔‘

اس سے قبل پولیس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ پولیس کے آئی جی اور دیگر سینیئر پولیس افسران کے ساتھ وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں ایک اجلاس منعقد کیا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق یہ اجلاس ’صوبائی پولیس کے حوصلے بلند کرنے کے لیے‘ منعقد کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ اس واقعہ کے بعد 20 اکتوبر کو صوبہ سندھ کے انسپیکٹر جنرل آف پولیس سمیت پولیس افسران نے احتجاجاً چھٹی پر جانے کی درخواستیں دی تھی جنھیں بعدازاں دس دن کے لیے موخر کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp