سکیزوفرینیا: ’جب لوگوں نے میری جیتی جاگتی والدہ کے لیے ’تھیں‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا‘


ذہنی امراض
کیا آپ نے کبھی کسی ایسے انسان کا سوگ منایا ہے جو ابھی زندہ ہو؟
کیا آپ نے کبھی کسی ایسے انسان کا سوگ منایا ہے جو ابھی زندہ ہو؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کے سامنے ایک جیتا جاگتا انسان موجود ہو، لیکن وہ بالکل بھی ویسا نہ ہو جیسا آپ اسے جانتے تھے یا دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے تھے؟

دنیا بھر میں ہر سال اکتوبر کا مہینہ ذہنی بیماریوں کے ماہ کے طور پر منایا جاتا ہے، جہاں لوگوں کو ایک بار پھر یاد دلایا جاتا ہے کہ آپ کے اردگرد ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں اور جنھیں آپ کے مقابلے میں کچھ کام کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ وہ کچھ کرنا نہیں چاہتے، مگر ڈاکٹروں کے مطابق وہ ایسا اس لیے نہیں کر پاتے کیونکہ ان کا ذہن ماؤف ہو جاتا ہے، خیالات بے ربط رہتے ہیں اور آس پاس لوگ ہوتے ہوئے بھی بات کرنے کا دل نہیں کرتا۔

رواں برس عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او نے نہ صرف ذہنی امراض کے شعبے میں مزید سرمایہ اور وقت لگانے پر زور دیا ہے بلکہ ایسے حالات کی روک تھام کرنے کو بھی کہا ہے جن سے ذہنی امراض میں اضافہ ہوتا ہے۔

میں نے کراچی میں بطور ہیلتھ رپورٹر کام کرتے ہوئے ذہنی امراض پر بہت سی رپورٹس بنائی ہیں لیکن یہ تمام تر کہانیاں دوسرے لوگوں کی ہوتی تھیں جبکہ میں خود اپنی زندگی میں موجود ایک ایسی ہستی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کترا رہی تھی جو خود ذہنی مسائل سے دوچار ہیں۔

اس بار میں اپنے آپ کی بات کرنا چاہتی ہوں اور یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ مجھے یہ بات بتانے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اس میں شرمندہ ہونے والی یا چھپانے والی کوئی بات نہیں ہے۔


میں نے اپنا بچپن اور پھر بڑے ہونے تک کے تمام تر سال اپنی امّی کو سمجھنے میں اور ان کا خیال رکھنے میں گزارے ہیں۔ میں ان کا نام لیے بغیر ان کو اس تحریر میں امّی ہی کہوں گی کیونکہ میرا ان سے اجازت لینا ان کو یاد نہیں رہے گا اور نہ ہی اُن کو وقت یا دن یاد رہتے ہیں۔

امّی کے شناختی کارڈ کے مطابق اُن کی پیدائش جنوری 1965 میں ہوئی تھی۔ لیکن تاریخِ پیدائش ان کو صحیح طرح یاد نہیں ہے، اس لیے ہم گھر میں اکثر جنوری میں دو بار یعنی یکم اور 16 جنوری کو ان کی سالگرہ مناتے ہیں۔ ان میں ایک تاریخ وہ ہے جو ہم گھر والوں کو یاد ہے اور دوسری وہ جو وہ کبھی کبھار بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’میں نے بیٹے کی موت کے بارے میں سچ بولنا شروع کیا‘

ذہنی مسائل کا علاج، جس میں پیسہ پانی کی طرح بہتا ہے

’لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی ذہنی مسئلہ ہے تو آپ پاگل ہیں‘

میری امّی کو سکیزوفرینیا ہے جس کی تصدیق سنہ 2010 میں کراچی کے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر مراد موسیٰ نے کی تھی۔ لیکن میں نے دیکھا کہ اس مرض کی تصدیق ہونے سے زیادہ بڑا مسئلہ اس مرض سے جُڑے دقیانوسی خیالات، شرمندگی اور لوگوں کی سوچ کا ہے، جو ہمیں اس بارے میں کُھل کر بات کرنے نہیں دیتی۔ جب تک کھل کر بات نہیں کریں گے، تو علاج کیسے کر پائیں گے؟

ذہنی امراض

Science Photo Library
’میرا ان سے اجازت لینا ان کو یاد نہیں رہے گا اور نہ ہی اُن کو وقت یا دن یاد رہتے ہیں‘

امّی کو انڈین اور پاکستانی فلموں کے تمام نام اور گانے یاد رہتے تھے۔ ٹی وی پر کوئی بھی گانا آتے ہی وہ خود بھی گُنگنانا شروع کر دیتی تھیں یہاں تک کہ اس گانے کے بول کس نے لکھے ہیں وہ اس کا نام بھی بتا دیتی تھیں۔

پاکستانی پنجابی فلموں میں چاہے اداکارہ نیلی پر فلمایا ہوا کوئی گانا ہو یا نور جہاں کا گایا ہوا کوئی گانا، امّی کو سب گانے یاد رہتے تھے۔ میرے بابا کی ذمہ داری لگائی گئی تھی کہ وہ چاہے پورا ہفتہ کتنا بھی کام میں مصروف ہوں ہفتے کے آخر میں گانوں یا کسی بھی پاکستانی ٹی وی ڈرامے کی ویڈیو کیسٹ ساتھ لانا ضروری ہے۔

ہر ہفتے ایسا کرتے کرتے ہمارے کراچی کے کلفٹن والے فلیٹ میں ویڈیو کیسٹس کا ایک انبار لگ گیا تھا، جس پر ہم دونوں بہن بھائی اکثر مذاق میں بابا کو صدر کے رینبو سینٹر میں ایک دکان کرائے پر لینے کا مشورہ دیتے تھے۔

خاندان میں کسی کی بھی شادی میں امّی کو خاص طور سے بلایا جاتا تھا کیونکہ ایک تو انھیں گانے یاد ہوتے تھے اور دوسرا ان کے قصے کہانیاں سنانے کے انداز سے سب خوش ہوتے تھے۔

اس کے علاوہ کپڑے خریدنا، پرفیوم کا کوئی بھی نیا برانڈ لگانے کا بھی ان کو بے حد شوق تھا۔ تو اگر آج بھی میں آنکھیں بند کرتی ہوں اور اُس وقت کو یاد کرتی ہوں تو مجھے سب سے پہلے امّی کے پاس سے آنے والی خوشبو ذہن میں آتی ہے۔

ذہنی امراض

یہ سب کب شروع ہوا؟

سنہ 1980 کے آخر اور 1990 کی دہائی کے شروع کے کچھ سال میں نے نانی اور اپنے گھر میں گزارے۔ اس دوران میں نانی کے گھر سے سکول جاتی تھی اور پھر ہفتے کے آخر میں چھٹی کے دو دن اپنے گھر میں گزارتی تھی۔ جس دوران میں نے اّمی کے رویے میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا۔

فرق تب ظاہر ہونا شروع ہوا جب میں سنہ 1992 میں مکمل طور پر اپنے گھر آ گئی۔ میں تب آٹھ برس کی تھی۔ ایک روز میں نے امّی کو باتھ روم میں خود سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا اور سوچا کہ سامنے جو بھی کھڑا ہے اس کی آواز کیوں نہیں آ رہی؟ دروازہ پورا کھولنے پر پتا چلا کہ وہ اکیلی کھڑی تھیں۔

اسی طرح ایک دو نہیں بلکہ کئی مرتبہ گھر کے مختلف جگہوں پر ایسا ہوتے ہوئے دیکھا۔ کبھی وہ خود سے بات کرتے کرتے غصے میں آ جاتی تھیں اور کبھی ہنستی تھیں۔ میں اس دوران کوشش کرتی تھی کہ امّی کی گود میں چڑھ کر ان کا چہرہ اپنی طرف کروں، تاکہ وہ جہاں بھی دیکھ رہی ہیں وہاں نہ دیکھیں بلکہ مجھے دیکھیں اور جو بھی انھیں غصہ دلا رہا ہے وہ اس کے بارے میں بھول جائیں۔

جب اس سے بھی کام نہیں چلتا تھا تو میں انھیں آواز دیتی تھی تاکہ ان کا دھیان بٹ جائے۔ کبھی ان کا دھیان جہاں بھی ہوتا تھا وہ ٹوٹ جاتا تھا اور وہ میری طرف دیکھتی تھیں لیکن کبھی غصے سے وہاں سے چلی جاتی تھیں۔ اس وقت تک اس بارے میں صرف مجھے ہی پتا تھا۔

سکول کی چھٹیوں کے دوران جب ہم شہر سے باہر گھومنے جاتے تھے تو امّی کا موڈ کسی دن ٹھیک اور کسی کسی دن بہت خراب ہو جاتا تھا۔ لیکن اس سے زیادہ حیران کُن بات یہ تھی کہ میرے ذہن میں یہ بات چلتی رہتی تھی کہ کوئی کیوں کچھ نہیں کہہ رہا ہے؟

ذہنی بیماری اور دقیانوسی خیالات

سنہ 1999 کے آخر تک بات خاصی بگڑ گئی۔ اب میں نے دیکھنا شروع کیا کہ امّی کے کپڑوں پر اگر نشان ہے تو وہ اسے صاف نہیں کر رہیں۔ اگر ایک روز نہا لیا ہے تو دوسرے دن نہانے کے لیے انھیں یاد کرانا پڑتا تھا۔ بال بنانا بھول جایا کرتی تھیں۔ اگر رات میں ان کی غلطی سے نیند سے آنکھ کھل جائے تو وہ ساری رات جاگ کر گزار دیتی تھیں اور تمام وقت دیواروں کو دیکھنے میں گزار دیتی تھیں۔

ایک روز میں دیر رات ایک زوودار آواز سے اٹھی۔ باہر آنے پر پتا چلا کہ امّی ہاتھ میں ڈنڈا اٹھائے پردوں کو جھاڑ رہی ہیں کہ ’کوئی باہر سے مٹی پھینک رہا ہے۔‘ ان کو میں نے اور میرے چھوٹے بھائی نے بڑی مشکل سے سمجھایا کہ ایسا نہیں ہے۔

ہم نے گھر میں دوائیاں رکھنا چھوڑ دیں خاص طور سے کھانسی کی دوا۔ ایک روز سکول سے آنے کے بعد انھوں نے مجھ سے کھانسی کی دوا پھینکنے پر بہت جھگڑا کیا۔ ’میرا دماغ پھٹ رہا ہے‘ انھوں نے مجھے کہا۔ لیکن میں انھیں دوا اس لیے نہیں دے سکتی تھی کیونکہ وہ دوائی کی خاص مقدار سے زیادہ کھا سکتی تھیں۔

اب اس ڈر سے گھر کے ایک فرد کی ذمہ داری تھی کہ فریج میں سے دوائیاں نکال لیں اور صرف ضرورت کی ایک دوا رکھی جائے۔

یہ وہ دور تھا جب ذہنی بیماری کے بارے میں بات کرنا تو دور اس کے بارے میں علم ہونا بھی بڑی بات تھی اور یہ سمجھنے کے بعد کہ کوئی ذہنی مرض میں مبتلا ہے اس کا علاج کرانا اس سے بھی بڑی بات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ بھی تھا۔

اس بارے میں میری سمجھ اتنی نہیں تھی لیکن مجھے لگا کہ مجھے کسی بڑے کو بتانا چاہیے۔ تو میں نے اپنی بچپن کی دوست کی بہن جو مجھ سے صرف دو چار سال ہی بڑی تھی انھیں بتایا۔ مجھے لگا کہ اگر میں اسے بتا سکتی ہوں تو کسی سے بھی بات کر سکتی ہوں۔

اُس نے ڈھونڈ کر کمپیوٹر سے ایک لمبا چوڑا نام بتایا جو مجھے سمجھ نہیں آیا۔ تو ہم نے طے کیا کہ نام کو رہنے دیتے ہیں اور بابا سے بات کرتے ہوئے میں کہوں گی کہ ’ایک مسئلہ ہے۔‘

میرے بابا سول انجینئیر ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کام کی غرض سے شہر سے باہر ہوتے تھے۔ تو جب وہ ہفتے کے آخر میں گھر آئے تب میں نے انھیں بتایا۔ انھوں نے مجھے فوراً کہا کہ ’کیا آپ کہہ رہی ہو کہ آپ کی امّی پاگل ہیں؟‘ میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کا ایک بڑا نام بھی ہے جو میری دوست کو پتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے اور دوست دونوں کو ڈانٹ پڑی۔

اس دوران امّی نے اپنے تمام رشتہ داروں سے بات کرنا چھوڑ دیا کیونکہ ان کے خیال میں وہ سب ان کے خلاف ہیں۔ ان کی بتائی ہوئی باتوں میں ربط ختم ہوگیا تھا، ماضی کی کسی بات کو آج رونما ہونے والے کسی واقعے سے جوڑ دیتی تھیں۔ میں نے اس دوران اپنی نانی سے بات کی۔ ان کو یہ سب بتاتے ہوئے مجھے رونا آ گیا تو ان کے پاس کھڑی میری ایک رشہ دار نے کہا کہ ’ارے، رو کر لوگوں کی ہمدردی تھوڑی لینا ہے۔ مضبوط بنو۔‘

میری عمر اُس وقت تیرہ سال تھی۔

میری نانی ہر دوسرے روز فون پر مجھ سے امی کا پوچھتی تھیں اور یہ پتا چلنے پر کہ امّی بات نہیں کرنا چاہ رہی ہیں، رونا شروع کر دیتی تھیں۔ میری نانی کی پڑھائی نہ ہونے کے برابر تھی، لیکن وہ شہر کا کونا کونا جانتی تھیں۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ کچھ کریں گی۔

انھوں نے کراچی میں ذہنی امراض کا ایک ہسپتال ڈھونڈ نکالا اور میرے بابا کو بتایا کہ ’اب بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ میری بیٹی کو مدد کی ضرورت ہے۔‘ اس کے بعد امّی کو تین ماہ کے لیے ذہنی امراض کے ہسپتال داخل کر دیا گیا۔

اب باتیں ہونا شروع ہوگئیں۔ وہ تمام لوگ جو پہلے شاید لحاظ میں بات نہیں کرتے تھے، انھوں نے میری امّی کی حالت پر ہنسنا شروع کر دیا۔ پہلے اتنا احساس کر لیا جاتا تھا کہ میرے سامنے نہ ہنسیں، بعد میں اس بات کا خیال کرنا بھی چھوڑ دیا۔

اس دوران مجھے سننے کو ملا کہ ’اس کی ماں دوسروں کے لیے پاگل ہے اور اپنے بچوں کے لیے صحیح ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ سب جھوٹ اور ڈرامہ ہے۔‘

تین ماہ ہسپتال میں گزارنے کے بعد مجھے میری امّی میں خاصا بدلاؤ نظر آیا۔ وہ چُپ ہو گئی تھیں۔ صرف بات کرنے پر جواب دیتی تھیں ورنہ خاموش اپنے کمرے میں بیٹھی رہتی تھیں۔ اس دوران ہمیں امّی کے لیے انجیکشن دیا گیا جو ان کو دینا ضروری بتایا گیا۔ لیکن میں نے غور کیا کہ انجیکشن کا زور ٹوٹتے ہی وہ پہلے جیسی ہو جاتی ہیں اور باتیں کرتی ہیں، ہسنتی ہیں، لیکن انجیکشن لگتے ہی بالکل خاموش ہو جاتی ہیں۔

میری نانی کو ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کا علاج ساری عمر چلے گا۔

اب امّی کے بارے میں لوگ یا رشتہ دار جب بھی بات کرتے تو ’تھی‘ کا لفظ استعمال کرتے۔ اب عید یا شادیوں پر ہم لوگ امّی کے بغیر جانا شروع ہوگئے۔ اس دوران ہم سے لوگ ایسے ملتے تھے کہ جیسے خدانخواستہ امّی اب دنیا میں نہیں ہیں۔

صحافت میں اپنے کیریئر کی شروعات کرتے ہی میں نے پہلا ارادہ ایک اچھے ذہنی امراض کے ڈاکٹر کو ڈھونڈنے کا کیااور اتفاق سے مجھے پہلی بیٹ بھی ہیلتھ رپورٹر کی ملی۔ ایک دن آغا خان ہسپتال میں سیمینار کے دوران ڈاکٹر مراد موسیٰ سے ملنے اور ان کا لیکچر سننے کا اتفاق ہوا۔

انھوں نے اپنے لیکچر کے دوران ذہنی امراض کے مریضوں کو دور رکھنے، چھپانے یا جھڑکنے کے بجائے ان سے بات کرنے کا کہا۔ میں نے اس لیکچر کے فوراً بعد ان سے ملنے کا وقت طے کیا۔

سنہ 2010 میں امّی میں سکیزوفرینیا کی تشخیص کے بعد مجھے سکون اس لیے آیا کیونکہ آخر کار مجھے اس مرض کا نام مل گیا تھا۔ اس دوران ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ ’اُن کی کہی ہوئی بات کو رد نہ کریں، ان کو باتیں کرنے دیں، ان کی باتیں سنیں، ان کو باہر لے جایا کریں۔ اور ایسے تمام تر لوگوں سے نہ ملنے دیں جن سے مل کر انھیں غصہ آئے۔‘ ہم گھر والوں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔

میری امّی کی آج بھی وہی حالت ہے جو اب سے 25 سال پہلے تھی۔ لیکن اس دوران میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ میں انھیں چھپاؤں یا ان سے دور بھاگوں۔

میں نے کئی سال تک اس بارے میں اس ڈر سے بھی بات نہیں کی کہ امّی کا مذاق اڑے گا۔ لیکن آج کے دور میں اگر کوئی ذہنی امراض کو نہ سمجھے اور نہ سمجھنے کی کوشش کرے تو یہ تو خود اپنا مذاق اڑانے والی بات لگتی ہے۔

ذہنی امراض اور سوشل میڈیا

عالمی ادارہ صحت اور لینسٹ جریدے کی سنہ 2017 میں ہونے والی تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا میں سکیزوفرینیا سے دو کروڑ افراد متاثر ہیں۔اور اس کے علاوہ دنیا میں صرف ڈپریشن سے 264 ملین افراد متاثر ہیں۔اس کے باوجود ماہرین کا خیال ہے کہ جتنی بات چیت ان مسائل پر ہونی چاہیے اتنی نہیں ہوتی۔

مریم سہیل اسلام آباد میں فیملی تھیراپسٹ ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بات کیسے ہو گی؟ حکومت اور خاص کر لوگوں کو لگتا ہے کہ اس وقت سب سے ضروری مسائل کوئی اور ہیں۔ ہم ٹی وی چینل پر بھی ذہنی امراض کے سیکشن کو صرف پانچ منٹ یا اس سے بھی کم وقت دیتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر خودکشی کا کوئی واقعہ اور ذہنی امراض میں مبتلا افراد پر بحث چھڑنے کے نتیجے میں یہ کچھ دنوں تک خبروں میں رہتی ہے لیکن کچھ دن بعد ایسی خبریں اوجھل ہو جاتی ہیں۔

’یہ تو ایسا عنوان ہے جو آپ کے ڈراموں میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس سے کتنی آگاہی پھیل سکتی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی بتائی جا سکتی ہے کہ یہ کسی کو بھی ہو سکتا ہے۔ تو اسی لیے ذہنی امراض پر ہونے والی بحث کا حصہ بنیں۔‘

جب بات کرنے کی باری آتی ہے تو اکثر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کچھ گھنٹوں کے لیے ہیش ٹیگ مہم چلائی جاتی ہیں جو اس کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا مہم کے بعد بھی اس پر بات جاری رہے۔

اس بارے میں مریم نے کہا کہ ’اب ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ذہنی امراض میں مبتلا شخص ہم سے آ کر بات کرے۔ جو کہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ مرض سب سے پہلے آپ کی خودی کی حس کو ختم کرتا ہے۔ اس لیے بات ہمیں جا کر کرنا ہو گی۔ ایسے تمام تر لوگوں سے جو اس مرض میں مبتلا ہیں۔ اور اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ پہلے اپنا لائف جیکٹ پہنیں، اور پھر دوسرے کی مدد کریں۔‘

دوسری جانب، رواں سال مارچ میں کووڈ 19 کی وبا پھیلنے اور اس کے نتیجے میں لگنے والی پابندیوں کے نتیجے میں دماغی امراض کے کیسز میں بھی اضافہ ہونے لگا۔

مریم نے اس بارے میں کہا کہ اچانک سے جس مسئلے پر کبھی بات نہیں ہوتی تھی اس پر بات ہونا شروع ہو گئی۔ ’میرے پاس ایسے بہت سے کیسز آئے ہیں جن کے ذریعے مجھے پتا چلا کہ لوگ اس وقت ذہنی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے خود میں بھی بے چینی محسوس کی اور اس کا نتیجہ یوگا یا ورزش کے ذریعے نکالا۔‘

لیکن اس سب کے باوجود ذہنی امراض سے بچنے کے لیے سب سے پہلے کسی سے بات کرنا ضروری ہے ۔ جس کے لیے آس پاس کے لوگوں کو بھی اس بارے میں آگاہی ہونا ضروری ہے۔

تھیراپی کا خرچہ

ذہنی امراض پر ہونے والی حالیہ گفتگو میں ایک بات جو بارہا سامنے آتی رہی ہے وہ ہے تھیراپی میں جانے کا خرچہ جو بہت سے لوگ برداشت نہیں کر سکتے۔جس کی وجہ سے وہ خاموش رہتے ہوئے اپنی ذہنی صحت کے بارے میں بات نہیں کر پاتے۔

یہاں پر یہ واضح کرنا بھی لازمی ہے کہ سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتالوں کے تحت تھیراپی کے خرچے میں خاصا فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سرکاری ہسپتال میں ذہنی امراض کے ڈاکٹروں سے بات کرنے کی فیس 1500 سے تین ہزار روپے تک ہوتی ہے جبکہ پرائیوٹ ہسپتال کے ذریعے تھیراپی کی فیس 14 ہزار سے شروع ہوتی ہے۔

اسی سلسلے میں مریم سہیل نے ’کاؤنسلنگ ڈاٹ پی کے‘ کے نام سے سائیکولوجسٹس اور سائکو تھیراپسٹ کی فہرست کے بارے میں بتایا۔ جہاں ملک بھر میں موجود ماہرِ ذہنی امراض اور ڈاکٹروں کی فیس بھی ان کی تصاویر اور فون نمبرز سمیت موجود ہیں۔

انھوں نے کہا کہ تھیراپی ایک اہم طریقہ ہو سکتا ہے جس کے تحت آپ بات کرنا شروع کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32286 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp