آذربائیجان، آرمینیا تنازع: ’جھڑپوں میں اب تک تقریباً پانچ ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں‘


پوتن
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو قرہباخ کے تنازع پر حالیہ جھڑپوں کے دوران اب تک تقریباً پانچ ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اموات کی یہ تعداد دونوں ممالک کی جانب سے بتائی گئی اموات کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

پوتن کا کہنا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے سربراہان اور عہدیداروں سے دن میں کئی مرتبہ رابطہ کرتے ہیں اور یہ کہ روس اس تنازع میں کسی ایک ملک کی حمایت نہیں کر رہا۔

صدر پوتن کا کہنا تھا کہ ماسکو اس مسئلے پر ترکی سے اختلاف رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ اس تنازع میں ترکی آذربائیجان کی حمایت کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آرمینیا آذربائیجان تنازع: معاہدے کے چند منٹ بعد ہی جنگ بندی کی خلاف ورزی

آذربائیجان، آرمینیا تنازع: ’ہم سب مر بھی گئے تب بھی اپنی زمین کا ایک انچ نہیں چھوڑیں گے‘

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان فائر بندی کا آغاز، دونوں جانب سے خلاف ورزی کے الزامات

روسی صدر نے امریکہ سے بھی اس خطے میں امن کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ناگورنو قرہباخ تنازع سے متعلق آرمینیا اور آذربائیجان ایک دوسرے پر جنگ بندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا رہے ہیں۔

آرمینیا اور آذربائیجان

دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ ماہ سے اس علاقے میں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ عالمی سطح پر ناگورنو قرہباخ کو آذربائیجان کا حصہ قرار دیا جا چکا ہے لیکن یہاں آرمینیائی نسل کے افراد اکثریت میں آباد ہیں۔

سنہ 1994 میں اس علاقے پر چلنے والی چھ سالہ لڑائی جنگ بندی کے اعلان پر اختتام پذیر ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے ان حالیہ جھڑپوں کو بدترین تصویر کیا جا رہا ہے۔

پوتن نے کیا کہا؟

روس آرمینیا کے ساتھ ایک فوجی اتحاد کا بھی حصہ ہے اور روس کا آرمینیا میں ایک فوجی اڈہ بھی ہے۔ لیکن دوسری جانب آذربائیجان کے ساتھ بھی روس کے اچھے تعلقات ہیں۔

ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک میٹنگ میں روسی صدر نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں میں بہت سی اموات ہوئی ہیں۔ ’دونوں طرف دو، دو ہزار سے زیادہ۔۔۔ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے۔‘

اس سے قبل آرمینیا اور آذربائیجان کی جانب سے فراہم کردہ سرکاری اعداد و شمار کے تحت اس تنازع میں ہونے والی ہلاکتیں ایک ہزار سے کم تصور کی جا رہی تھی۔

ناگورنو قرہباخ کے خود ساختہ حکام نے آگاہ کیا تھا کہ 27 ستمبر سے اب تک 874 فوجی اور 37 سویلین ہلاک ہو چکے ہیں۔ آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس کے 61 سویلین شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم اس نے اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد ظاہر نہیں کی۔

روس آرمینیا

پوتن کا کہنا تھا کہ وہ آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پشنیان اور آذربائیجان کے صدر الہام کے ساتھ ’مسلسل رابطے‘ میں ہیں اور صرف کسی ایک ملک کا ساتھ نہیں دیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں ان سے ایک دن میں کئی مرتبہ فون پر بات کرتا ہوں۔’

پوتن کا کہنا ہے کہ وہ اس تنازع پر ترکی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ترک صدر اردوغان ‘شاید سخت لگتے ہیں لیکن وہ ایک لچکدار سیاستدان ہیں اور روس کے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔’

ترکی نے آذربائیجان سے کہا ہے کہ اگر وہ مطالبہ کریں گے تو انھیں ترک سپاہی اور فوجی امداد دی جائے گی۔

صدر پوتن نے امریکہ سے بھی تنازع کے حل کے لیے اپنا کردار کرنے کی اپیل کی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان واشنگٹن میں جمعے کو بات چیت ہونے جا رہی ہے۔ توقع ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے حکام اس روز امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کریں گے۔

امریکہ، روس اور فرانس اس اتحاد کا حصہ ہیں جنھوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

ناگورنو قرہباخ کی حالیہ صورتحال

رواں اتوار روسی ثالثی میں جنگ بندی کے باوجود جھڑپیں جاری ہیں اور سینکڑوں اب بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔

ناگورنو قرہباخ

آذربائیجان نے جمعرات کو کچھ علاقوں میں جھڑپوں کی اطلاع دی اور آرمینیا پر الزام لگایا ہے کہ اس نے تین بیلسٹک میزائل حملے کیے ہیں۔ آرمینیا اس کی تردید کرتا ہے۔

آرمینیا نے بھی متعدد جگہوں پر جھڑپوں کی خبر دی۔ حکام کا کہنا ہے کہ مارٹونی نامی ایک شہر اور اس کے اردگرد کے گاؤں میں گولہ باری ہوئی ہے۔

آرمینیا کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ‘اس مرحلے پر’ کوئی سفارتی حل موجود نہیں ہے۔

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازع ہے کیا؟

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازع کا محور ناگورنو قرہباخ نامی علاقہ ہے۔ اس علاقے کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کا انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس علاقے کو حاصل کرنے کے لیے 80 اور 90 کی دہائی میں خونریز جنگیں ہو چکی ہیں۔

دونوں ممالک جنگ بندی پر تو اتفاق کر چکے ہیں لیکن کسی امن معاہدے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=NKS2U3a6Ay8

آرمینیا اور آذربائیجان سنہ 1922 سے 1991 تک قائم رہنے والے کمیونسٹ ملک سویت یونین کا حصہ تھے۔ دونوں ممالک جنوب مشرقی یورپ میں ہیں جو دفاعی لحاظ سے اہم خطہ ہے اور جو ‘قفقاز’ کہلاتا ہے۔ ان ممالک کی سرحدیں مغرب میں ترکی، جنوب میں ایران اور شمال میں جارجیا سے ملتی ہیں۔ جبکہ روس کی سرحد شمال میں آذربائیجان سے ملتی ہے۔

آرمینیا میں آبادی کی اکثریت مسیحی ہے جبکہ تیل کی دولت سے مالا مال ملک آذربائیجان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

سویت یونین کے زمانے میں ناگورنو قرہباخ ایک ایسا خطہ تھا جہاں آرمینیائی نسل کے باشندوں کی اکثریت تھی لیکن وہ آذربائیجان کے حکام کے زیرِ انتظام تھا۔ جب 80 کی دہائی کے آخری برسوں میں سویت یونین اپنے خاتمے کے قریب پہنچنا شروع ہو گیا تو ناگورنو قرہباخ کی مقامی پارلیمنٹ نے اس علاقے کو آرمینیا کا حصہ بنانے کے حق میں ووٹ دے دیا۔

جس کے بعد نسلی فسادات شروع ہو گئے اور آرمینیا اور آذربائیجان کی جانب سے باقاعدہ طور پر ماسکو سے آزادی کے اعلان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بھرپور جنگ شروع ہو گئی۔

ناگورنو قرہباخ کے حوالے سے اہم حقائق

  • یہ تقریباً 4400 مربع کلومیٹر پر محیط پہاڑی علاقہ ہے
  • روایتی طور پر یہاں آرمینیائی مسیحی اور ترک مسلمان آباد رہے ہیں
  • سوویت دور میں یہ جمہوریہ آذربائیجان کے اندر ایک خودمختار خطہ بنا
  • بین الاقوامی طور پر اسے آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے تاہم اس کی اکثریتی آبادی آرمینیائی نسل سے تعلق رکھتی ہے
  • خود ساختہ حکام کو آرمینیا سمیت اقوامِ متحدہ کا کوئی بھی رکن تسلیم نہیں کرتا
  • یہاں 1988 سے 1994 کے دوران ہونے والی جنگ کے دوران تقریباً 10 لاکھ لوگ دربدر ہوئے جبکہ 30 ہزار لوگ ہلاک ہوئے
  • علیحدگی پسند قوتوں نے آذربائیجان کے اندر اس خطے کے گرد اضافی علاقوں پر قبضہ کیا
  • سنہ 1994 میں جنگ بندی کے بعد سے اس تنازعے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے
  • ترکی آذربائیجان کی واضح حمایت کرتا ہے
  • آرمینیا میں روس کا فوجی اڈہ موجود ہے
بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp