پی ڈی ایم معاشی روڈ میپ دے


محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بار انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں یاتو آمریت ہوتی ہے یا پھر کنٹرولڈ جمہوریت اور ہم حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایک ایسی جمہوریت جس میں اقتدار حقیقی معنوں میں صاف وشفاف الیکشن کے نتیجے میں منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کو منتقل کیا جائے۔ بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ نا تو صاف شفاف الیکشن ہو سکے اور نا ہی اقتدار حقیقی نمائندوں کو منتخب ہوسکا۔ ایک مدت سے سیاسی حلقوں میں ایک بات تواتر کے ساتھ دہرائی جاتی ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے پاور شیئر کرتے ہیں مگر پاور ٹرانسفر نہیں کرتے۔ اس کا مطلب شاید یہی ہے کہ کچھ معاملات سویلین نمائندوں کو دیے جاتے ہیں جبکہ باقی ماندہ اختیارات کا خود استعمال کیا جاتا ہے اور اگر کوئی عوامی نمائندہ اپنی حدود سے تجاوز کرنے لگے تو یا تو اس کو پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے یا پھر معاہدہ کر کے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔

کم وبیش تین دہائیوں سے اقتدار کے ایوانوں میں یہی واہیات کھیل اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے حصول اقتدار کی خاطر ہر اخلاقی حد کو عبور کیا۔ کسی مرحلے پر یہ نہیں سوچا کہ آج وہ جس طرح اقتدار حاصل کر رہے ہیں کل کوئی اور بھی حاصل کر سکتا ہے۔ اور یہی کچھ ہوا کل کے تخت نشین آج زیر عتاب ہیں۔ اورآج جو تخت نشین ہیں خداجانے ان کا آنے والا کل کیسا ہوگا۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مقولے کے مطابق تو اچھا نہیں ہوگا۔ یہ تو ہو گئی ان کی بات جنہوں نے اقتدار کے مزے لوٹے اور مسیحائی کے دعوے کے ساتھ تخت نشین رہے۔ مگرجس انسان نما مخلوق پر انہوں نے حکمرانی کی کوئی ان کی بھی تو بات ہونی چاہیے۔ حسن کوزہ گرتو اپنی جہاں ذاد کے قصے سنائے گا کوئی ان کروڑوں مظلوموں کی بھی تو بات کرو جو محض مرنے کی آس پر جیئے جاتے ہیں

آج کے سیاسی ماحول پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ابھی سندھ پولیس کے آئی جی کے ساتھ ہونے والے معاملہ کی وضاحت نہیں ہوئی کہ پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسہ پر نیکٹا نے وارننگ جاری کردی۔ سنا ہے اس بار میاں نواز شریف بھی خطاب کریں گے اور شاید ماضی کی دو تقریروں کی طرح ان کی یہ تقریر بھی ایک انقلابی تقریر ہو۔ مگر اپوزیشن کی ان انقلابی تقریروں سے عوام کو کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ کیا مہنگائی کم ہو رہی ہے لوگوں کو روزگار ملنا شروع ہو گیا ہے۔

ادویات کی ارزاں نرخوں پر فراہمی شروع ہو گئی ہے۔ کیا سرکاری ملازمین کا مہنگائی کے تناسب سے مراعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو رہا تو اپوزیشن پھر کس ایجنڈے کو لے کر چل رہی ہے۔ کیا زیادہ بہتر یہ نہیں تھا کہ اپوزیشن ایک معاشی روڈ میپ دیتی جس میں عوام کو درپیش مسائل کے حل دیے جاتے۔ کیونکہ حکومت سے ان مسائل کے حل کی توقع کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

میرے خیال میں اپوزیشن سے زیادہ واضح بات تو معروف صحافی کامران خان اپنے وی لاگ میں کہہ گئے ہیں کہ عمران خان صاحب عوام آپ سے بد دل ہو چکی ہے۔ اندوہناک مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ عوام اور متعلقہ امور کے ماہرین کی یہ رائے ہے کہ موجودہ معاشی ابتری آپ کی ٹیم کی نالائقی، غلط فیصلوں اور غلط اندازوں کے سبب ہوئی ہے اس لیے ملک کے معاشی حالات کو بہتر کرنے کی طرف توجہ دیں۔ قارئین سے ایک سوال ہے کہ کیا ایک سفید پوش شخص اپنی آمدنی کے اعتبار سے گھر کا کرایہ، بجلی اور گیس کے بل، بچوں کی تعلیم، صحت، اور اشیائے خورد و نوش کو با آسانی حاصل کر سکتا ہے اگر اس کا جواب نہیں ہے توپھر حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی سوچنا چاہیے۔

بدترین معاشی پالیسیوں کے سبب بے تحاشا بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب آدمی کی آمدنی اور اخراجات میں ایک واضح خلیج پیدا کردی ہے۔ اب تو سوال بنیادی ضروریات زندگی کاپیدا ہو گیا ہے کہ وہ ہی پوری نہیں ہورہیں۔ ان حالات میں بھی حکومتی وزیر چھلانگیں لگاتے نہیں تھکتے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہو گیا ہے۔ جس ملک کی معاشی شرح نمو ہی منفی میں ہو یوں کہہ لیں کہ معیشت چل ہی نا رہی ہو تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ لازمی کم ہوگا اب اس میں کریڈٹ لینے والی کون سی بات ہے اگر یہ واقعی حکومتی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے تو پھر اس کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ رہے۔ عالم تو یہ ہے کہ ہم اپنی ہی پیدا کردہ گندم 1400 روپے فی من فروخت کر کے 2800 روپے من آٹا خرید رہے ہیں۔ اب تو دو وقت کی روٹی بھی عیاشی کے زمرے میں آنے لگی ہے۔

بے تحاشا لگائے گئے ٹیکس سے بھی حکومت کا پیٹ نہیں بھررہا۔ اب تو عام پاکستانی بالواسطہ یا بلا واسطہ اتنے ٹیکسز ادا کر رہا ہے کہ اسے خود بھی معلوم نہیں کہ وہ کس جرم کی سزا بھگت رہا ہے۔ جبکہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال انتہائی خستہ ہے۔ لہذا معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کو سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف نے ٹیکسوں کی شرح اور محصولات میں اضافہ سمیت نان فائلر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز دی ہے۔ شاید یہ وجہ ہے کہ دسمبرمیں منی بجٹ کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ مطلب یہ کہ اب تک جو گزری سو گزری مگر آنے والے دنوں عکاسی اس شعر سے ہو سکتی ہے کہ جو گزاری نا جا سکی ہم سے، ہم نے وہ زندگی گزاری ہے۔

یہ تو طے ہے کہ اس وقت جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے یہ کہیں بھی نہیں ہوتا۔ ہم ایک عجیب وغریب صورتحال سے دوچار ہیں ذرا سوچیئے گا کہ عوام بھی پریشان ہے، اپوزیشن بھی پریشان ہے، حکومت بھی پریشان ہے اور حکومت کو لانے والے بھی پریشان ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب پوری بس ڈرائیور سمیت کھائی میں جاگرے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فریقین ضد، انا چھوڑ کر مل بیٹھیں اور اس بدترین صورتحال سے نکلنے کا حل تلاش کریں۔ اس سے بھلے حالات جلدی تبدیل نا ہوں کم سے کم ایک امید تو پیدا ہو جائے گی کہ کسی نا کسی دن اس کھائی سے نکل جائیں گے۔ اور کچھ نہیں تو کم سے کم پی ڈی ایم ہی معاشی روڈ میپ دے دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).