کیا نانی ہونا گالی ہے



میرا بچپن روایتی بچپن جیسے ہی گزرا ہے۔ بس فرق یہ تھا کہ میرے بچپن میں ہمارے ساتھ ددھیالی رشتے نہیں تھے۔ جن کی کمی ہمیں ہر اس وقت محسوس ہوتی۔ جب کسی سہیلی یا کلاس فیلو سے سننے کو ملتا۔ کہ آج ہماری دادی نے یہ گفٹ دیا۔ آج ہمارے گھر پھپھو آئیں۔ ہمارے چاچو نے آئس کریم کھلائی۔ اور دادا نے پاپا کی ڈانٹ سے بچایا۔ جب کبھی ایسی کہانی کوئی بھی سناتا۔ میرے اندر ایک عجیب سی بے چینی ہونے لگتی۔ پھر سوال جواب کے لیے امی پاس پہنچتے۔

اور ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ میں نہیں جانتی وہ سب کہاں ہیں۔ ہاں مگر تم بڑے ہو کے ملنا چاہو تو مجھے اعتراض نہیں۔ یہ کمی میں نے اپنی بچپن کی دوست کی فیملی سے پوری کی۔ اس کی دادی میری دادی تھی۔ بلکہ میری قبضہ گروپ طبیعت کی وجہ سے اکثر ہی میری دادی زیادہ ہوتی تھی۔ اس کے چاچو میرے چاچو۔ اس کی پھپھیاں میری پھپھیاں۔ اور اس کا تایا میرا تایا۔ آج تک یہی سین ہے۔

لیکن نھنھیال کے معاملے میں، میں خودکفیل تھی۔ ہماری پرورش نانا نے کی ہے۔ اور جیسی محبت وہ ہم سے کرتے تھے۔ اس کے بارے کبھی الگ سے لکھوں گی۔ ہم اپنی نانی کو نانی اماں کہتے تھے۔ نانی اماں کی محبت کچھ عجیب لگتی تھی۔ کبھی کبھی وہ ایسے شفقت دکھاتیں کہ دل چاہتا وقت وہیں رک جائے۔ جب ڈانٹنے پہ آتیں تو لگتا کہ جیسے ہماری کچھ نہیں لگتیں۔ لیکن اب جبکہ میں سمجھداری کے مقام پہ تھوڑا بہت فائز ہوں۔ تو جب ان کی باتیں یاد آتی ہیں۔

تو سمجھ آتی ہے کہ وہ جب ڈانٹتی تھیں۔ تو وہ بھی ہماری بہتری کے لیے ہوتا تھا۔ نانا کی وفات تک میرا کچن میں جانا کوئی بھی کام کرنا شجر ممنوعہ تھا۔ نانا کو لگتا تھا کہ جیسے جونہی میں نے چولہا جلایا۔ مجھے آگ لگ جائے گی۔ سو مجھے چولہا جلانے کی اجازت نہ تھی۔ جبکہ نانی کا موقف ہوتا۔ کہ تم لڑکی کو بگاڑ رہے ہو۔ اگر یہ کام نہیں سیکھے گی۔ تو اگلے گھر جا کے کیا کرے گی۔

اور یہ بحث لڑائی پہ ختم ہوتی۔ سو میں نے تہیہ کر لیا کہ چولہے کو دور سے سلام۔

نانا کی وفات کے بعد نانی نے مجھ سے گھر کے کام کروانے شروع کیے۔ گھر کی صفائیاں برتن دھونا اور گھر کو صاف ستھرا کرنا میری ڈیوٹی لگ گئی۔ مجھے کوکنگ کا شوق چرایا۔ تو نانی نے کہا کہ چاول ابالنا سیکھو پہلے۔ میں نے کہا یہ تو کوئی بات ہی نہیں۔ بہت آسان ہیں۔ لو جی پہلے تو چاول دھونے پہ کلاس لگی۔ یہ کیسے چاول دھو رہی ہو نالائق۔ بٹاں دیاں کڑیاں انج چاول نہیں دھوندیاں۔ پھر پکانے پہ کلاس لگی۔ چاول پکائے تو بن گئے پپا (نرم) ۔ وہ کلاس لگی کہ الامان الحفیظ۔ شاید تین چار بار چاول خراب پکے۔ اور جس دن لیول کی بستی ہوئی۔ تو چاول ٹھیک بننے لگ گئے۔ اب سمجھ آتی ہے۔ جب ہر طرح کے چاول بہترین پکا لیتی ہوں۔ تو اس کے پیچھے کمال نانی اماں کے سکھائے طریقے ہیں۔ ان کی ٹیکنیکس آج بھی ساتھ ہیں۔

نانی اماں کی فیملی انبالہ سے آئی تھی۔ ہجرت کے وقت۔ ان سے بار بار ہجرت کی کہانی سنتی۔ تب یہ پتہ ہی نہ چلتا۔ کہ جب ان کی آنکھیں پانی سے بھر آتی تھیں۔ جب ان کے لہجے میں خوف در آتا تھا۔ تو وہ کیسا دردناک احساس ہوتا ہو گا۔ مجھے تو بس چسکہ ہوتا تھا۔ کرید کرید کے سوال پوچھتی۔ انبالہ میں کیسے رہتے تھے۔ اس سوال پہ ایک عجیب سی خوشی ان کے چہرے پہ ہوتی۔ بڑا سا گھر، دودھ دہی کی مشہور دکان ان کے ماموں کی تھی۔ پڑھنے لکھنے کی شوقین تھیں۔

مگر اجازت نہ تھی۔ اور سب سے بڑھ کے ان کو گانے کا شوق تھا۔ اس دور میں گانا گانے کا کہنا تو دور گانا سننا بھی دل گردے کا کام تھا۔ نانی نے بتایا کہ ان کے محلے میں آشا پوسلے رہتی تھیں۔ وہ ان سے ایک بار ملیں۔ تو قاعدہ لے آئیں۔ جب ان کے ماموں نے ان کے ہاتھ میں قاعدہ دیکھا۔ تو مارنے دوڑے۔ اور پھر ان کے باہر جانے اور خاص طور پہ ان کے گھر جانے پہ پابندی لگا دی۔ (آشا پوسلے کو میں آشا بھوسلے سمجھتی رہی تھی کئی عرصے تک) ۔ خیر نانی اماں کی پٹاری سے دلچسپ واقعات نکلوانے کا کام میرے علاوہ کوئی نہ کر سکا۔ وہ خود کہتیں تھیں۔ کہ جو باتیں میں تم سے کر لیتی ہوں وہ میں نے کبھی اپنی اولاد سے بھی نہ کیں۔

مجھ میں میوزک سننے کا کیڑا پیدائشی تو ہے۔ مگر اس کو مزید تقویت دینے میں نانی اماں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ میڈم نورجہاں کی عاشق تھیں۔ زبیدہ بیگم، منی بیگم اور فریدہ خانم کے گانے شوق سے سنتیں۔ (میں اس وقت بور ہوتی تھی میرے لیے اس وقت فلمی گانے میوزک کی سند تھے ) ۔ لیکن اب اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ذوق کتنا اندر تک اثر کر گیا۔ نانی اماں نے مجھ پہ جو احسان کیے۔ وہ اب سمجھ آتے ہیں۔ میرے لیے نانی کا رشتہ بہت خوبصورت و رنگین رشتہ ہے۔

گوری چٹی نانی اماں اپنا کیپری صابن اور تبت کریم کی ڈبی سب سے چھپا کے رکھتیں۔ اور راشن میں یہ دو چیزیں نہ آئیں ایسی جرات کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ میں آج جب بھی سٹورز پہ کیپری صابن ریک میں دیکھتی ہوں۔ تو اسے اٹھا کے محسوس کرتی ہوں۔ نانی اماں کی مہک محسوس ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ میرے اپنے بزرگوں سے بے شمار اختلافات ہوئے۔ مگر ان کی جانے انجانے میں کی گئی باتیں اور تجربات، میں نے ہمیشہ ان کو ساتھ رکھا۔

آپ کا کسی بھی شخصیت سے کیسا بھی اختلاف کیوں نہ ہو۔ اگر آپ اس کی ذاتیات تک اتر گئے۔ تو پھر آپ ایک گھٹیا انسان ہیں۔ ذاتیات پہ اتر کے بدتمیزی کرنا میرے نزدیک انتہائی برا فعل ہے۔ آپ کو کسی پہ غصہ ہے۔ کسی کی کوئی بات بری لگی ہے۔ خاص طور پہ جب مخالف سائیڈ پہ عورت ہو۔ تو سب سے پہلے ہم اسے کردار کا طعنہ دیں گے۔ اور پھر عمر کا۔ ہمارے معاشرے کے مرد یہ سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان کے دماغ میں یہ فیڈ ہے کہ اگر عورت کو بے عزت کرنا ہے۔

تو انہی دو چیزوں سے کرنا ہے۔ عام پدرسری معاشرے کے عام سے کالج سکول میں پڑھے مردوں کے منہ سے ایسی باتیں سننے کی عادت ہو چکی ہے۔ مگر جب یہی حدکت کسی ملک کا وزیراعظم کرے۔ جس کی ساری عمر باہر ملکوں میں کرکٹ کھیلتے گزری ہے۔ جس نے اس یونیورسٹی سے پڑھا ہو۔ جو دنیا کی نامور یونیورسٹی ہے۔ جب اس کے لہجے میں نانی کا لفظ بولتے ایسا طنز اور حقارت ہو تو اس بات پہ یقین پختہ ہو جاتا ہے۔ کہ کچھ لوگوں کا تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

نانی صرف ایک رشتہ نہیں ہے۔ زمانے کی سرد گرم کو برداشت کر کے عمر کے اس حصے میں پہنچنا ایک عہد ہے۔ ایک پورے عہد کی داستان ہے۔ جس نے بطور عورت اپنا ہر رشتہ نبھایا۔ ان رشتوں کو نبھانے میں چاہے اسے جو بھی سہنا پڑا ہو۔ عمر کا بڑھنا تو نمبر گیم ہے۔ اصل گیم تو وہ تجربات ہیں جو آپ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے خان صاحب کو لگتا ہے۔ کبھی بنیادی اخلاقیات پڑھائی ہی نہیں گئیں۔ جن میں بتایا جاتا ہے کہ بطور انسان آپ نے دوسرے انسان سے کیسے پیش آنا ہے۔

اختلاف رائے کیسے کرنا ہے۔ اس کا الف بھی وہ نہیں جانتے۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ تا کہ وہ ہدایت پا سکیں۔ ہم سوائے دعا کے کچھ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ دوا ہمارے بس کا روگ نہیں رہا۔ ہمیں بطور انسان عورت کو انسان سمجھتے ہوئے اسے ہر رشتے میں احترام دینا چاہیے۔ جیسے ماں بننا ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ ویسے ہی نانی بننا بھی کوئی غلط نہیں ہے۔ نانی تو ماں کی ماں ہے۔ زیافہ قابل احترام۔ اسے گالی مت بنائیے۔ خدارا رشتوں کو سیاست کی خاطر آلودہ مت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).