ایف اے ٹی ایف کو پاکستان کے لیے گنجائش نکالنی چاہیے: شاہ محمود قریشی


شاہ محمود قریشی
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ایک چیز بڑی واضح دکھائی دے رہی ہے کہ انڈیا کے پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کے جو عزائم تھے اس میں وہ ناکام ہو گا
منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کے روک تھام کا عالمی ادارہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آج پاکستان کو زیرِ نگرانی ممالک کی گرے لسٹ میں رکھنے کے بارے میں فیصلہ سنانے والا ہے اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کو پاکستان کے اقدامات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کے لیے گنجائش نکالنی چاہیے۔

پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے یا اس کا نام فہرست سے نکالنے کے بارے میں فیصلہ ایف اے ٹی ایف کے تین روزہ اجلاس میں کیا گیا ہے جو جمعے کو اختتام پذیر ہو رہا ہے۔

اس تناظر میں اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 27 اقدامات کرنے کا کہا تھا جس میں سے 21 پر سو فیصد عملدرآمد ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بقیہ چھ اقدامات رہ گئے ہیں حکومت ان پر بھی کام کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں سمجھتا ہوں کے ایف اے ٹی ایف کو ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے لیے گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ایف اے ٹی ایف: کیا پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو پائے گا؟

پاکستان منتقل ہونے والی رقوم میں اضافہ: کیا ہنڈی، حوالہ میں کمی آئی ہے؟

پاکستان میں دہشتگردوں کی مدد، مالی معاونت کے خلاف قوانین مزید سخت

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس: پاکستان اگلے چار ماہ تک ’گرے لسٹ‘ میں رہے گا

پاکستان کی کوشش ہے کہ اسے گرے لسٹ سے نکال دیا جائے لیکن اس کی یہ کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہیں جبکہ انڈیا کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے کیونکہ انڈیا کا الزام ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی روک تھام اور اس کی مالی اعانت کو روکنے کے اقدامات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا ہے۔

اس بارے میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ایک چیز بڑی واضح دکھائی دے رہی ہے کہ انڈیا کے پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کے جو عزائم تھے اس میں وہ ناکام ہو گا۔ دنیا آج پاکستان کی جانب سے اس ضمن میں اٹھائے گئے ٹھوس اقدامات پر قائل ہو چکی ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے معاملات کو جانچنے کے لیے موجودہ حکومت اور پارلیمان نے جو قانونی سازی کی ہے اور انتظامی اقدامات اٹھائے اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔‘

ایف اے ٹی ایف

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈولپمنٹ کی عمارت جہاں ایف اے ٹی ایف کا دفتر قائم ہے

پاکستان کا نام گرے لسٹ میں کب اور کیوں آیا؟

پاکستان کو جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے اکتوبر 2019 تک کا وقت دیا گیا تھا جس میں بعدازاں چار مہینے کی توسیع کر دی گئی تھی۔ پاکستان نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ دی گئی اس مہلت کے دوران ضروری قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کے لیے ایک موثر نظام تیار کر لے گا۔

فروری 2020 تک پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی 27 سفارشات میں سے صرف 14 پر عمل کیا تھا اور باقی رہ جانے والی 13 سفارشات پوری کرنے کے لیے اسے مزید چار ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔

21 سے 23 اکتوبر 2020 تک ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے منی لانڈرنگ کا جائزہ لینے والے ایشیا پیسیفک گروپ کی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔

11 اکتوبر کو (اے پی جی) کی ایک رپورٹ (ایم ای آر) میں پاکستان کو ’اِنہانسڈ فالو اپ‘ فہرست میں ڈالا گیا ہے۔ اے پی جی کے مطابق ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنناسنگ کی روک تھام میں کوئی خاص پیشرفت نہیں کی ہے۔

ایشیا پیسیفک گروپ کی رپورٹ میں کیا کہا گیا؟

اے پی جی، ایف اے ٹی ایف سے منسلک ایک ادارہ ہے جو خطے میں ایف اے ٹی ایف کی ذیلی شاخ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اسی طرز کے ذیلی ادارے یورپ، جنوبی امریکہ اور دیگر خطوں میں بھی ہیں۔

اے پی جی میں خطے کے مختلف ممالک شامل ہوتے ہیں جو ادارے کو وقتاً فوقتاً سفارشات دینے کے ساتھ ساتھ ان کو ایف اے ٹی ایف کی فہرست میں شامل ممالک کی پیشرفت سے متعلق آگاہ بھی کرتے ہیں۔

اے پی جی نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی 27 سفارشات پوری کرنے میں مصروفِ عمل ہے اور ٹیرر فننانسنگ کی روک تھام کے لیے 15 معاملات پر قانون سازی بھی کر چکا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چند سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ادارہ پاکستان کی جانب سے اس ضمن میں کیے جانے والے اقدامات سے زیادہ مطمئن نہیں۔

ان سفارشات پر عملدرآمد کی بنیاد پر ہی ایف اے ٹی ایف کسی ملک کو گرے یا بلیک لسٹ میں شامل رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کیا ہے؟

ایف اے ٹی ایف ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کا قیام سنہ 1989 میں عمل میں آیا تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھا جائے اور اس مقصد کے لیے قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کیے جائیں۔

اس تنظیم کے 35 ارکان ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، چین اور انڈیا بھی شامل ہیں، البتہ پاکستان اس تنظیم کا رکن نہیں ہے۔

سنہ 2000 کے بعد سے ایف اے ٹی ایف وقتاً فوقتاً ایک فہرست جاری کرتی ہے، جس میں ان ملکوں کے نام شامل کیے جاتے ہیں جو اس کے خیال میں کالے دھن کو سفید کرنے اور دہشت گردی کی مالی پشت پناہی سے روکنے کی سفارشات پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔

اس وقت دنیا کے 18 ممالک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہیں۔ اسی طرح ایک بلیک لسٹ بھی ہے جس میں اس وقت ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں۔

گرے لسٹ میں موجود ممالک پر عالمی سطح پر مختلف نوعیت کی معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی اسی بنیاد پر روکا جا سکتا ہے۔

انہانسڈ فالو اپ لسٹ کیا ہے؟

کسی ملک کو انہانسڈ فالو اپ لسٹ میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی مانیٹرنگ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کسی بھی ملک کی گرے لسٹ میں شمولیت کے بعد اس ملک کی پیشرفت غیر تسلی بخش ہونے پر مانیٹرنگ میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

اس بارے میں بی بی سی کی سحر بلوچ سے حال ہی میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیرِ مملکت اور چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ ہارون شریف نے کہا تھا کہ ’اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ انہانسڈ فالو اپ لسٹ سے معمولی مانیٹرنگ پر آ جائے اور ریگولر مانیٹرنگ پر جانے کے بعد اگلا مرحلہ گرے لسٹ سے باہر نکلنے کا ہو گا۔‘

اس کے علاوہ وفاقی حکومت کے ایک ترجمان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’اس فہرست سے نکلنا اتنی جلدی اس لیے ممکن نہیں ہو سکے گا کیونکہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں کئی ماہ یا سال لگ سکتے ہیں۔‘

تاہم انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’اس فہرست سے نکلنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگانے کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو کوئی ملک قرضہ دے رہا ہے یا کاروبار کر رہا ہے تو وہ سود کی شرح زیادہ لگائے گا جس سے پاکستان پر معاشی بوجھ بڑھ جائے گا۔ اس وقت اس فہرست سے نکلنا ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp