جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریاستی جاسوسی کی گئی، ریفرنس بدنیتی پر مبنی تھا: سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ


جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا، تفصیلی فیصلہ 224 صفحات پر مشتمل ہے۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ معزز جج کے خلاف صدارتی ریفرنس بدنیتی پر مبنی تھا، معزز جج کو لندن کی جائیدادیں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انہیں خفيہ رياستی جاسوسی کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف صدر مملکت عارف علوی نے بیرون ملک اثاثہ جات رکھنے کے الزام میں سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا جس کے خلاف قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ریفرنس خارج کر دیا تھا۔

آج سپریم کورٹ نے کیس کا تفصیلی فیصہ کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ صدارتی ریفرنس بدنیتی پر مبنی تھا۔ ریفرنس میں لگائے گئے الزامات میں کوئی جان نہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کو لندن کی جائیدادیں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انہیں خفیہ ریاستی جاسوسی کا نشانہ بنایا گیا۔

یاد رہے کہ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تفصیلی فیصلہ تحریر کیا جو 224 صفحات پر مشتمل ہے۔ تفصیلی فیصلہ ’سورۃ النساء‘ کی آیات سے شروع کیا گیا ہے جس کے مطابق آزاد، غیر جانبدار عدلیہ کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے کی اقدار میں شامل ہے۔

جسٹس فیصل عرب اور جسٹس یحیٰ آفریدی نے فیصلے میں الگ الگ نوٹ تحریر کیا ہے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس آئین و قانون کی خلاف ورزی تھی، ریفرنس داخل کرنے کا سارا عمل آئین و قانون کے خلاف تھا۔ جسٹس یحیٰ آفریدی نے نوٹ میں لکھا کہ صدر آئین کے مطابق صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں ناکام رہے۔

جسٹس فیصل عرب نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا وکلا برادری میں انتہائی احترام ہے ، جب انکے ما لی معاملات پر سوال اٹھا تو انتہائی لازمی تھا کہ وہ اپنے اوپر لگے داغ دھوئیں ۔

یاد رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے مختصر فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).