کیا نیپال کے وزیراعظم کی را کے سربراہ سے ’خفیہ‘ ملاقات کسی تنازعے کا باعث بن سکتی ہے؟


انڈیا، نیپال جھنڈے
انڈیا کے انٹیلیجنس ادارے را کے سربراہ سمنت کمار گوئل اور نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی کے مابین ہونے والی ملاقات سے نیپال کمیونسٹ پارٹی (این سی پی) میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہونے کا امکان ہے۔

این سی پی کے ترجمان نارائن کجی شریستھا نے بی بی سی نیپالی کو بتایا ہے کہ حکمران جماعت اس ملاقات کے بارے میں بے خبر تھی اور پارٹی کے ایک داخلی اجلاس میں اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی نیپال کمیونسٹ پارٹی کے دو چیئرمین میں سے ایک ہیں۔

شریستھا کے مطابق این سی پی کے دوسرے چیئرمین اور نیپال کے سابق وزیراعظم پشپا کمال دہل اور جماعت کے دیگر نو ممبر اس اجلاس سے لاعلم تھے۔

ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ نیپال کی وزارت خارجہ کو بھی اس ملاقات کا علم نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

نیپال انڈیا سے ناراض کیوں؟

نیپال انڈیا تنازع: نئے نقشے کی منظوری تعلقات پر کیسے اثر انداز ہوگی؟

لپو لیکھ تنازع: ’نیپال اپنی زمین کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑے گا‘

تاہم وزیر اعظم اولی کے پریس ایڈوائزر نے جمعرات کے روز ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس ملاقات کے بارے میں بتایا گیا۔

پریس ایڈوائزر سوریا تھاپا کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اس بیان پر این سی پی رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ اپوزیشن رہنماؤں نے بھی تنقید کی ہے۔

بہت سے لوگوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ وزیراعظم نے سفارتی ضابطہ اخلاق پر عمل نہیں کیا۔

نیپال کے سابق وزیر خارجہ امور شریستھا نے بی بی سی کو بتایا کہ سفارت کاروں اور غیر ملکی سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران عام طور پر وزارت خارجہ کے کسی عہدیدار کی موجودگی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

شریستھا نے مزید کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ضابطہ اخلاق پر عمل کیا جائے۔

اس ملاقات کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا: ’یہ سوال کرنا فطری بات ہے کہ وزیراعظم نے اس طرح سے انڈین خفیہ ایجنسی کے چیف سے ملاقات کیوں کی؟ ایک سوال یہ ہے کہ یہ ملاقات کیوں ہوئی اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایسا اس طرح سے کیوں ہوا؟

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’یہی وجہ ہے کہ اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اور اس پر تبادلہ خیال کیا جانا چاہیے۔‘

ماہرین کا دعویٰ ہے کہ رواں سال مئی میں نیپال کے اپنے نئے سیاسی اور انتظامی نقشے کی نقاب کشائی کے بعد یہ انڈیا کا ’پہلا اعلی سطحی دورہ‘ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں انڈین خفیہ ایجنسی کے چیف کی آمد اور وزیراعظم سے ملاقات کرنا، جب دونوں ممالک کے مابین تعلقات معمول کے مطابق نہیں، گہرے معنی رکھتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر اس اجلاس میں جس میں اطلاعات کے مطابق ’وزارت خارجہ کے عہدیدار نہیں تھے‘ نے خود حکمران جماعت کے رہنماؤں کو حیرت میں ڈال دیا ہے؟

سوریا تھاپا کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ را کے سربراہ نے بدھ کی شام وزیراعظم سے ملاقات کی۔

بیان کے مطابق ’را چیف نے ملاقات کے دوران نیپال اور انڈیا کے مابین دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھنے، موجودہ معاملات کو بذریعہ بات چیت حل کرنے اور دوطرفہ تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔‘

اس بیان کو عام کرنے سے پہلے تک نیپال میں کسی بھی سرکاری ایجنسی نے اس دورے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا تھا تاہم کئی اعلی عہدیداروں نے وضاحت جاری کی ہے کہ انھوں نے را کے سربراہ سے ملاقات نہیں کی۔

واضح رہے کہ نیپال کی حکمران جماعت نے حال ہی میں ایک اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ اہم امور اور حکومتی فیصلوں پر بات چیت پارٹی کے اندر ہی کی جائے گی۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا تھا جب پارٹی کو حکومت کے کچھ بڑے معاملات کو نمٹنے کے طریقہ کار کے حوالے سے پارٹی میں شدید قسم کے اختلافات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بغیر کسی اطلاع، کسی غیر ملکی سرزمین کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے ملاقات نے پارٹی رہنماؤں کو بھی حیران کر دیا ہے۔

سمنت کمار گوئل کی نیپال آمد کے بارے میں خبریں سامنے آنے کے بعد این سی پی کے دوسرے چیئرمین پشپا کمال دہل، سینئر رہنما مادھو کمار اور اپوزیشن رہنما شیر بہادر دیوبا نے بھی اس ملاقات سے کسی قسم کی وابستگی کی تردید کی ہے۔

این سی پی کی قائمہ کمیٹی کے ممبر اور سابق نائب وزیراعظم اور وزیر داخلہ بھیم بہادر راول نے بھی ٹوئٹر پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

امور خارجہ کے کچھ ماہرین کے مطابق اولی اور گوئل کے مابین ملاقات سفارتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔

سابق سفیر دینیش بھٹارائی نے بی بی سی کو بتایا: ’اگرچہ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب انڈیا نیپال میں چینی اثر و رسوخ کے بارے میں فکرمند ہے اور دوسری طرف نیپال مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ اس کا اثر نیپال پر طویل عرصے تک پڑ سکتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’جس طرح سے یہ ملاقات ہوئی اس سے یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے اپنے ذاتی مسائل کے بارے میں کھل کر بات کی ہو گی اور انڈیا کی طرف سے مدد کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اس کے اردگرد مذاکرات ہو سکتے ہیں۔‘

’اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ فی الوقت تو فائدہ مند ہو گا تاہم طویل مدتی میں اس سے مسئلے پیدا ہو سکتے ہیں۔‘

تاہم سابق وزیر خارجہ رمیش ناتھ پانڈے کہتے ہیں کہ سفارتکاری کی کوئی حد نہیں اور ضرورت ہے کہ حالیہ دورے کا جائزہ اس کے نتائج کی بنیاد پر کیا جائے۔

یہ کہتے ہوئے کہ نیپال اور انڈیا کے درمیان فوج کے ذریعے سفارتی تعلقات رکھنے کی ایک تاریخ ہے، رمیش پانڈے کا کہنا تھا کہ اگر دونوں ملکوں کے مابین غلط فہمیوں اور رابطوں کی کمی کو دور کرنے کے لئے کوئی اقدام شروع کیا گیا ہے تو اس کے نتائج کی بنیاد پر اس کا فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے مزید کہا: ’ماضی میں نیپال اور انڈیا کے تعلقات میں سرکاری اور غیر سرکاری سفارتی طریقوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ ایک نیا سفارتی ذریعہ عمل میں لایا گیا ہے۔‘

تاہم بھٹارائی کا ماننا ہے کہ سفارتکاری میں ہر چیز کا نظر آنا یا عوام کے سامنے آنا ضروری نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp