امریکہ میں ووٹ ڈالنا اتنا مشکل کیوں ہو جاتا ہے؟


            <figure>
  <img alt="Long queues in Nevada" src="https://c.files.bbci.co.uk/14EC5/production/_115010758_lines_976getty.jpg" height="549" width="976" />
  <footer>Getty Images</footer>

</figure>امریکہ میں کس کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے اور کس نظام کے تحت ووٹ ڈالے جانے چاہیئں، اس بحث نے سینکڑوں مقدمات اور ووٹر سپریشن (یعنی ووٹروں کو روکنے کی کوشش) کے دعوؤں کو جنم دے دیا ہے۔ مگر امریکہ میں ووٹ ڈالنے میں رکاوٹیں کیا ہیں؟

ملک میں جلد ووٹ ڈالنے کے لیے شہریوں کی لگی لمبی قطاروں کو عوام میں جذبے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اسے ووٹنگ کے نظام میں مسائل کے شواہد کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

ووٹ ڈاٹ اورگ نامی ایک غیر جانبدارانہ تنظیم کی سی ای او اینڈیرہ ہیلی کا کہنا ہے کہ قطاریں، ووٹنگ کے حوالے سے سخت قوانین اور پولنگ سٹیشنوں تک محدود رسائی یہ سب کچھ لوگوں کو جمہوری عمل میں شرکت سے روکتا ہے۔

ان میں کچھ رکاوٹیں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بڑھ گئی ہیں کیونکہ ملک بھر میں پولنگ سٹیشنوں پر رضاکاروں کی کمی ہوگئی ہے اور پولنگ سٹیشنز بھی کم کرنے پڑے ہیں۔ اینڈریہ کہتی ہیں کہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے میں اضافی مشکلات کا سامنا ہے۔

ایک پولنگ سٹیشن میں زیادہ لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے کورونا کے خطرات کے باعث کچھ ریاستوں میں ووٹنگ قوانین کو نرم کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے امریکی شہری ارلی ووٹنگ یعنی الیکشن کے دن سے پہلے ہی ووٹ ڈال سکیں گے یا پھر ڈاک کے ذریعے اپنے ووٹ بھیج سکیں گے۔ مگر ہر کوئی ان سہولیات کے حق میں نہیں ہے۔

ملک کی 44 ریاستوں میں اس وقت 300 سے زیادہ مقدمات کیے جا چکے ہیں جن کا تعلق ایبسنٹی ووٹوں (یعنی جو لوگ پولنگ سٹیشن پر از خود آ کر ووٹ نہیں ڈالتے) کی گنتی سے ہے۔ ان میں سوالات یہ ہیں کہ کس کو ارلی ووٹنگ کی اجازت ہے، اور ڈاک سے آنے والے ووٹوں کو کیسے گنا جائے گا۔ رپبلکن پارٹی کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پابندیاں ووٹر فراڈ کو کم کرنے کے لیے ضروری ہیں جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ سب لوگوں کے ووٹ کے حق کو دبانے کی کوشش ہے۔

تو لوگوں کو اس حوالے سے کیا مشکلات سامنے آ رہی ہیں؟

10 گھنٹے تک کا انتظار

ریاست جارجیا میں ہزاروں ووٹروں کو کئی کئی گھنٹے تک ارلی ووٹنگ کے دوران اپنے ووٹ ڈالنے کے لیے انتظار کرنا پڑا ہے۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ووٹروں میں زیادہ عزم ہے مگر دیگر عناصر جیسے کہ پولنگ سٹیشنوں میں کمی، عملے کی تعداد کو ہونا یا کمپیوٹروں کے نظام میں مسائل کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

اب تک یہ واضح نہیں کہ کتنے لوگوں نے لمبی قطاروں کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالے مگر یہ واضح ہے کہ ان مشکلات کا زیادہ سامنا کن لوگوں کو ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی الیکشن 2020: ڈونلڈ ٹرمپ آگے ہیں یا جو بائیڈن؟

اہم امور پر ٹرمپ کے حریف جو بائیڈن کا کیا موقف ہے؟

موچی کا بیٹا جو امریکہ کا صدر بنا

امریکہ کے لیے ’انکل سیم‘ کی اصطلاح کیسے وجود میں آئی

2016 کے انتخابات کے سلسلے میں میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ایک جائزے کے مطابق سیاہ فام ووٹروں کو اوسط 16 منٹ تک انتظار کرنا پڑا تھا جبکہ سفید فام ووٹروں کو 10 منٹ انتظار کرنا پڑا۔ دیگر جائزوں میں بھی ایسے ہی نتائج سامنے ائے تھے۔

اور لمبی قطاروں سے یومیہ اجرت والے افراد پر اثر زیادہ پڑتا ہے جنھیں ووٹ ڈالنے کے لیے دفاتر سے چھٹی نہیں ملتی۔

‘نیکڈ بیلٹ اور دیگر سخت قوانین‘

انڈریا ہیلی کا کہنا ہے کہ ووٹ ڈالنے کے لیے بیلٹ پیپر کو پرنٹ کرنے کی ضرورت کی وجہ سے نوجوان یا غریب تر ووٹروں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے پاس گھر پر اپنا پرنٹر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

پینسلوینا میں ریاستی سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ جن بیلٹوں کو سیکریسی لفافے (یعنی ایسا لفافہ جو ووٹر کی شناخت چھپاتا نہیں)، انھیں مانا نہیں جائے گا۔ انتخاب کے اتنے قریب ایسا فیصلہ آنے سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بہت سے ‘نیکڈ بیلٹ‘ (جو ایسے لفافوں میں نہیں) انھیں ضائع کر دیا جائے گا۔

کورونا وائرس کی وبا سے قبل بہت سی ریاستوں میں یہ قانون تھا کہ ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے بیلٹ پر نوٹری یا گواہان کے دستخط کی ضرورت ہے۔ مگر وبا کے آنے کے بعد سے بہت سی ریاستوں نے یہ قوانین نرم کر دیے ہیں۔ مگر ایسا سب نے نہیں کیا ہے۔

شمالی کیرولینا، جنوبی کیرولینا، اوکلاہوما، الاسکا، اور ایلاباما میں کم از کم ایک گواہ کے ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے بلیٹ پر دستخط ضروری ہیں۔

Man posts mail-in ballot in Maryland

Getty Images
</figure><h3>طویل فاصلہ تک سفر</h3><p>امریکہ کے دیہی علاقوں میں کچھ ووٹروں کو کئی گھنٹوں تک سفر کر کے پولنگ سٹیشن پہنچنا پڑ رہا ہے۔ 

نیٹیو امریکنوں یعنی امریکہ کے قدیمی باشندے کے ووٹنگ حقوق کے سلسلے میں ایک تنظیم فور ڈائریکشنز کا کہنا ہے کہ بہت سے نیٹیو امریکن جو کہ اپنی ریزرویشنز پر رہتے ہیں انھیں ووٹنگ تک محدود رسائی ہے۔

مثال کے طور پر ریاست نیواڈا میں پریمڈ لیکس پیئوس نامی کمیونٹی کے لوگوں کو کم از کم 100 میل دور تک آنے جانے میں گاڑی چلانا پڑے گی تب جا کر وہ اپنے قریب ترین ارلی ووٹنگ کے پولنگ سٹیشن تک پہنچ سکیں گے۔

ریاست ایریزونا میں ناواہو نیشن کے لوگوں نے عدالت سے پولنگ کے لیے اضافی وقت مانگا ہے کیونکہ کہ وہ پر ہر 707 مربع میل میں صرف ایک ڈاک خانہ ہے۔

آئی ڈئ کے قوانین (شناختی دستاویز کے قوانین)

جب لوگ ایک مرتبہ قطار کے مرحلے میں سے گزر جاتے ہیں تو پھر انھیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ان کی شناخت کیا ہے۔

ملک کی 35 ریاستوں میں ووٹروں کے پاس کسی قسم کا آئی ڈی یعنی شناختی دستاویز ہونا ضروری ہے۔ اگرچہ کچھ ریاستوں میں اگر اپ کے پاس شناختی دستاویز نہیں ہے تو ایک ایفی ڈیوڈ دے سکتے ہیں مگر کچھ ریاستوں میں جن میں وسکانسن، ٹیکساس، انڈیانا، ٹیناسی، مزوری، اور جارجیا شامل ہیں وہاں یہ سہولت موجود نہیں ہے۔

شناختی دستاویزات کے سخت قوانین کے حامی افراد جیسے کہ ویسکانسن کے سابق گورنر سکاٹ واکر کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ووٹنگ آسان بناتے ہیں مگر بے ایمانی کرنا مشکل۔

تاہم دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ ووٹر فراڈ کے خدشات بڑھا چڑھا کر بتائے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے غریب، بےگھر اور معذور ووٹروں سے ان کا حق چھینا جا رہا ہے۔

ووٹنگ کے لیے شناختی دستاویزات کی ضرورت کے حوالے سے قوانین گذشتہ ایک دہائی میں ریپبلکن قانون ساز اسمبلیوں میں بطور ووٹر فراڈ کو روکنے کی کوشش کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا اصل مقصد ایسے ووٹروں کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے جن کا ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کا امکان زیادہ ہے۔

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہر کسی کے پاس کویی شناختی دستاویز ہوتا ہے اور آپ کو بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے یا جہاز پر سفر کے لیے بھی تو یہ درکار ہوتے ہیں۔ مگر ہر کوئی تو جہاز پر سفر نہیں کرتا یا بینک اکاؤنٹ نہیں رکھتا۔

مگر امریکہ وہ واحد ملک نہیں جہاں ووٹ ڈالنے کے شناختی دستاویز کی ضرورت ہو۔ برطانیہ میں بھی اس سلسلے میں پائلٹ پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔

تاہم امریکہ میں بڑے پیمانے پر ووٹر فراڈ کے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔ اس حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ نے 2016 کے ان،حابات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن بھی بنایا تھا تاہم کوئی رپورٹ شائع کیے بغیر اسے ختم کر دیا گیا۔

اس وقت وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ بہت سی ریاستوں نے اس سلسلے میں مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ووٹر فہرستوں میں رد و بدل

امریکہ میں مقامی کاؤنٹی انتخابات کی منتظم ہوتی ہے۔ ہر کاؤنٹی اور ریاست کے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہر مرتبہ ووٹر فہرستیں ہٹا دیتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر ووٹر کو ہر بار اپنا نام اندراج کروانا پڑتا ہے۔

ویسکانسن کی سپریم کورٹ کے سامنے اس وقت ایک مقدمہ موجود ہے جس میں 130000 ووٹروں کے نام فہرستوں سے نکالے جا سکتے ہیں۔ ایک قدامت پسند لا فرم نے ریاست کے خلاف یہ مقدمہ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے الیکشن کمیشن نے ان لوگوں کو فہرستوں سے نہیں نکالا جنھیں کہا گیا کہ ان کا نام نکالا جا سکتا ہے تو انھوں نے 30 دن کے اندر جواب جمع نہیں کروائے تھے۔

Apple vendor Rikardo Jahnke wears a facemask reading "vote" at the farmers market in Viroqua, Wisconsin

Getty Images
</figure><p>یہ سوال ایک ایسی ریاست میں جہاں 2016 میں ٹرمپ نے بہت تھوڑے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی، پارٹی لائنز کے تحت ہی منقسم جوابات دے رہا ہے۔ ریپبلکنز کا کہنا ہے کہ کمیشن نے لوگوں کو ووٹر فہرستوں پر رکھنے سے قانون توڑا ہے، جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ قوانین غریب اور نوجوان ووٹروں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔</p><h3>جیلوں میں ووٹنگ پر پابندی</h3><p>زیادہ تر ریاستیں سنگین جرائم والے مجرموں جو ووٹ نہیں ڈالنے دیتیں۔ کچھ ریاستوں میں سزا مکمل ہونے پر خود بہ خود اپنے کے ووٹ کا حق بحال ہو جاتا ہے جبکہ کچھ میں جب تک پرول اور پروبیشن ہو یا تمام جرمانے ادا نہ کر دیے جائیں، ایسا نہیں ہوتا۔ 

2018 میں فلورڈیا نے 15 لاکھ مجرمان کا ووٹنگ کا حق بحال کیا۔ اس بعد ریاست میں نیا قانون لایا گیا جس کے مطابق جب تک کسی مجرم نے تمام جرمانے ادا نہیں کیے اسے ووٹنگ کا حق نہیں دیا جائے گا۔

نیویارک کے سابق میئر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار مائیک بلومبرگ نے 16 ملین ڈالر عطیہ کیے تاکہ 32000 سیاہ فام اور لاطینی امریکی شہریوں کے جرمانے ادا کیے جا سکیں۔

مگر ان کے اس اقدام ھر ریاست کے رپبلکن اٹارنی جنرل نے ایف بی آئی سے کہا کہ ممکنہ طور پر الیکشن قوانین کی خلاف ورمی کا جائزہ لیا جائے۔

ایک سیاہ تاریخ

ووٹر سپریشن یعنی ووٹروں کے لیے مشکلات پیدا کرنا امریکہ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ ملک میں پہلے انتخابات سے آج تک چلا آ رہا ہے۔ ملک کے پہلے انتخابات میں صرف زمیندار سفید فام مردوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت تھی۔

امریکی حانہ جنگی کے بعد سیاہ فام امریکیوں کو ووٹ کی اجازت ملی مگر ان کو روکنے کے لیے پولنگ ٹیکس اور پڑھنے کی صلاحیت جیسے ٹیسٹ رکھے گئے تاکہ انھیں مشکلات ہوں۔

March for rights in 1963

Getty Images
</figure><p>مگر 1965 میں یہ سب تبدیل ہو گیا جب ووٹنگ رائٹس ایکٹ پاس کیا گیا جن میں ایسی بہت سی پابندیوں کو غیر قانونی کر دیا گیا اور بہت سی ریاستوں پر یہ لاگو کر دیا گیا کہ ووٹنگ قوانین میں تبدیلی سے قبل وہ وفاقی اجازت حاصل کریں۔

مگر 2013 میں اس ایکٹ کا ایک حصہ جس میں کچھ ریاستوں پر وفاقی نگرانی ضروری قرار دی گئی تھی، اسی امتیازی ہونے کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے ختم کر دیا جس کے بعد ریاستوں کے پاس ووٹنگ قوانین بنانے کی اجازت آگئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp