دنیا کے مختلف ملکوں کے پاسپورٹ مختلف کیوں ہوتے ہیں؟


تائیوان کا پاسپورٹ
پاسپورٹ بیرون ملک سفر کے لیے لازمی دستاویز ہے جو کسی شخص کی شناخت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اسے عام طور پر بہت حفاظت سے ہی رکھا جاتا ہے اور اس کے صفحے صرف کبھی کبھار چند اہلکار ہی کھول کر الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں۔

اس کا دوہرا کام ہے۔ اول یہ کہ اس دستاویز سے حامل شخص کی شناخت ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ اس کا اجرا کرنے والے ملک کا بھی تعین کیا جاتا ہے۔ لیکن اکثر ہم اس پر لگی اپنی ہی تصویر سے مطمئن نہیں ہوتے اور پاسپورٹ پر بنے سنہرے نقوش سے اپنی قومیت کی پہچان ہونے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔

اس کے باوجود پاسپورٹ ایک ایسی چیز ہے جو کہ بہت سی چیزوں کی ترجمانی کرتا ہے اور جو بین الاقومی سرحدوں کو ظاہر بھی کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی عالمگیریت کا بھی مظہر ہے۔

روایتی طور پر پاسپورٹ جس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے اس میں دلچسپی کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر تائیوان کے نئے پاسپورٹ کی گہرے سبز رنگ کی جلد ہے جس پر سنہرے دائرے میں سورج کا عکس بنا ہوا ہے۔

تائیوان کا پاسپورٹ

حال ہی میں اس جزیرے کی علیحدگی پسند 'نیو پاور پارٹی' نے پاسپورٹ کے نئے ڈیزائن کے لیے 'کراؤڈ سورسنگ' کے ذریعے مقابلہ کروایا۔ اس کا ایک سیاسی زاویہ بھی تھا۔

یہ مقابلہ جولائی میں پارلیمنٹ میں ایک قرار داد کے نتیجے میں کروایا گیا تھا جس میں لفظ تائیوان کو اجاگر کیا گیا جو موجودہ سفری دستاویز پر جمہوریہ چین کے نیچے درج ہے، جس پر قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اس سے بیرون ملک تائیوان کے شہریوں کی شناخت میں دشواری ہوتی ہے۔

پاسپورٹ کے ڈیزائن کے مقابلے کے آخری مرحلے تک پہنچنے والوں نے ایک قدم آگے جاتے ہوئے جمہوریہ چین کے الفاظ ہی اڑا دیے۔ اب انگریزی زبان میں درج تین لفظ ‘ریپبلک آف چائنہ’ اس پر موجود نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاسپورٹ کے لیے کتنی قیمت ادا کی جائے؟

امیر افراد مالٹا کے ’گولڈن پاسپورٹ‘ کے دیوانے کیوں؟

’یورپی یونین‘ کے بغیر نئے برطانوی پاسپورٹ جاری

پاسپورٹ ڈیزائن کرنے والے اپنے تخلیقی جوش و جذبے میں پاسپورٹ کے ڈیزائن میں پرندوں، تتلیوں اور چالوں کے پودوں کے عکس بنانے اور اس کو مختلف رنگوں سے آراستہ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں لیکن ایک بنیادی سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر پاسپورٹ جس طرح کے بنائے جاتے ہیں اس طرح کے کیوں بنائے جاتے ہیں۔

پاسپورٹ ہمیشہ سے آج کی طرح کی مضوط جلد والے کتابچے کی صورت میں نہیں ہوتے تھے۔ تاریخ میں سب سے قدیم حوالہ جو پاسپورٹ کی طرح کی سفری دستاویز کا ملتا ہے وہ انجیل کی کتاب نہیمیا میں ملتا ہے۔ اس میں بیان کیا گیا کہ 450 قبل مسیح میں فارس کے ایک بادشاہ ارٹیکسرسز اول نے دریائے فرات کے پار کے حکمرانوں کو ایک پیغمبر کو اپنے علاقوں سے گزرنے کی اجازت دینے کی درخواست کی صورت میں پاسپورٹ جاری کیا تھا۔

ہم یہ نہیں جانتے کہ ان پاسپورٹوں کی کیا شکل ہوتی تھی لیکن عین ممکن ہے کہ یہ قدیم ترین پاسپورٹ جو اب تک محفوظ ہے اس ہی کی طرح کے ہوں گے۔

ایک پارچہ پر جلی اور خوبصورت تحریر جس پر انگلینڈ کے بادشاہ چارلس اول کے دستخط بھی ہوتے تھے، اور اس کو تہ کیے جانے کے بعد ہی جیب میں رکھا جا سکتا تھا۔ یہ سنہ 1636 میں سر تھامس لٹلٹن کو جاری کیا گیا تھا تاکہ ان کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ ریاست کی سمندری حدود سے آگے سفر کر سکیں۔ ان کو اپنے ہمراہ چار نوکر، پچاس پاؤنڈ اور اپنے بکسے اور ضروری اشیا لے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔۔

جنگ عظیم اوّل کے شروع ہو جانے کے بعد حکومتوں نے پاسپورٹ دیکھنا شروع کر دیے تاکہ دشمن ممالک کے جاسوسوں کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ پہلا جدید برطانوی پاسپورٹ سنہ 1915 میں جاری کیا گیا۔ یہ پاسپورٹ ایک صفحے پر مشتمل تھا جس کو کارڈ بورڈ کی ایک جلد میں تہ کر لیا جاتا تھا۔ اس پر برطانیہ کا شاہی نشان بنا ہوا تھا۔ یہ شیر اور ایک سینگ والا گھوڑا جو بالترتیب انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کا قومی نشان ہیں آج بھی پاسپورٹ پر موجود ہیں ۔

اندر سے یہ مختلف ہے۔ سنہ 1915 میں جاری ہونے والے پاسپورٹ میں تصویر لازمی تھی لیکن اس زمانے کی تصویر آج کل کے جدید ڈجیٹل پورٹریٹ سے بہت مختلف ہوتی تھی۔

آرتھر کونان ڈوئل کے سو سال پرانے پاسپورٹ پر جو تصویر لگی تھی اس میں وہ اپنی بیوی اور گھوڑا گاڑی میں بیٹھے اپنے دو لڑکوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پورا خاندان ایک پاسپورٹ پر سفر کر سکتا تھا۔ اس دور میں رینڈل ڈیوسن، جو اس وقت کینٹربری کے بڑے پادری تھے ان کے پاسپورٹ پر جو تصویر لگی تھی اس میں ان کا سارا سٹاف موجود تھا۔

اگر آپ پرانے پاسپورٹ دیکھیں تو ان میں لوگوں کی مختلف تصاویر لگی ہوتی تھیں، کہیں کوئی شخص اپنے باغ میں کھڑا ہو گا، کسی کی ساحل سمندر پر تصویر اس کے پاسپورٹ میں لگی ملے گی۔، کسی کی سگریٹ پیتے ہوئے تصویر لگی ہو گی اور کسی کی ساز بجاتے ہوئے یا اخبار پڑھتے ہوئے۔ اس بارے میں کوئی سرکاری ہدایت یا طے شدہ قاعدہ نہیں تھا اور اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کی خواہش بھی ان تصاویر میں جھلکتی تھی۔

یہ تصاویر پہچان میں زیادہ مدد گار ثابت نہیں ہوتی تھیں۔ مصنف کریگ رابرٹسن ‘پاسپورٹ ان امریکہ’ نامی اپنی کتاب میں ایک شخص ڈین کا ذکر کرتے ہیں جن کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں اور جنھوں نے جرمنی کا سفر کیا تھا۔

جرمنی پہنچنے کے بعد اس شخص کو پتا چلتا ہے کہ بڑی مونچھیں جرمنی کے سابق بادشاہ کائزر ولہیل کی پہچان تھیں تو وہ مونچھیں منڈوا دیتے ہیں۔ جب وہ جرمنی سے واپس کا سفر اختیار کرنا چاہتے ہیں تو حکام انھیں روک دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاسپورٹ پر لگی تصویر میں ان کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں اور مونچھیں منڈوانے کے بعد ان کی شکل تصویر سے مل نہیں رہی تھی بلکہ ان کی شکل ایک بدنام ٹھگ سے مل رہی تھی۔

قوم کی اساس

آج کل شہری ہوا بازی کی بین الاقوامی تنظیم جو اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے وہ یہ طے کرنے کا ذمہ دار ہے کہ پاسپورٹ کسی طرح کے ہونے چاہییں، ان کا ڈیزائن کیسا ہونا چاہیے اور کیا ٹیکنالوجی ہونی چاہیے۔ لیکن ان قواعد میں پاسپورٹس کے رنگوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔

زیادہ تر ملکوں کے پاسپورٹس سبز، سرخ اور نیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ مغربی دنیا یا جسے ‘نیو ورلڈ’ کہا جاتا ہے ان ملکوں کے پاسپورٹ کا ترجیحی رنگ نیلا ہوتا ہے، سرخ رنگ کے پاسپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی کیمونسٹ ملک کا ہے اور اسلامی ملکوں کے پاسپورٹ سبز رنگ کے ہوتے ہیں۔

پاسپورٹ کی دستاویز

پاسپورٹ کے یکساں ڈیزائن کی اپنی جگہ اہمیت ہے اور اس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ذرا حال ہی میں برطانوی پاسپورٹ کا رنگ تبدیل کرنے کی ساری کہانی پر غور کریں۔ بریگزٹ کے ریفرنڈم کے بعد برطانوی حکومت نے اعلان کیا کہ پاسپورٹ کا رنگ تبدیل کر کے نیلا کیا جا رہا ہے جو کہ اس کا اصلی رنگ ہوتا تھا۔ اصل میں یورپی یونین کا کوئی ایسا قانون نہیں جس کے تحت اس کو برگنڈی یا گہرے سرخ رنگ کا رہنا لازمی ہو۔

برطانوی پاسپورٹ کا رنگ 1988 میں تبدیل کیا گیا تھا تاکہ یہ دوسرے رکن ملکوں کی طرح کا ہو جائے۔

پاسپورٹ کو قوم کا آئینہ دار بنانے کے لیے اس کے صفحوں پر قومی یادگاروں، عمارتوں، مشہور و معروف شہریوں اور قدرتی عجائبات کے عکس چھاپے جانے لگے ہیں۔

جب تک نئے سادہ نیلے رنگ کے پاسپورٹ اس سال کے آخر تک متعارف نہیں کروائے جاتے جب تک پاسپورٹ کے اندرونی صفحات پر مشہور مجسمہ ساز اینتھونی گروملے کے مجسمے ‘اینجل آف نارتھ’، مشہور پینٹر جان کونسٹیل اور ریاضی دان اور پہلی کمپیوٹر پروگرامر اڈا لولیس کے فن پاروں کے عکس رہیں گے۔ شیکسپیئر کی تصویر ہر صفحے پر واٹر مارک رہی گی۔

جاپان کے پاسپورٹ کو مشہور جاپانی فن کار کیٹس سیکا ہوکوسائی کے 24 فن پاروں سے مزین کیا گیا ہے۔ امریکہ نے اپنے پاسپورٹ کو سنہ 2007 میں از سر نو ڈیزائن کیا تھا جس پر امریکی قومی ترانے اور ماونٹ رش مور پر بنائے گیے چار امریکی صدور کے مجسموں کے عکس کندہ ہیں۔

تاہم کبھی کبھار بڑی احتیاط سے بنائے گئے عکس کوئی ایسا پیغام یا تاثر بھی دیتے ہیں جو دینا مقصود نہیں ہوتا۔ امریکی خواتین کو پاسپورٹ رکھنے کا حق حاصل ہوئے ایک صدی ہو گئی جس سے پہلے وہ اپنے شوہروں کے علاوہ ملک سے باہر سفر نہیں کر سکتیں تھیں۔ موجودہ امریکی پاسپورٹ پر سرکردہ امریکیوں کے جو تیرہ اقوال درج ہیں ان میں صرف ایک خاتون کا ہے۔ جو ایک افریقی النسل سکالر اینا جولیا کوپر کا ہے۔

اگرچہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاسپورٹ میں یہ سب چیزیں قوم پرستی کے جذبے اور قوم کی فنی صلاحیتوں کو ممتاز کرنے کے لیے کی جاتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس کا اصل مقصد پاسپورٹ کو محفوظ بنانا ہے تاکہ اس کی نقل نہ بنائی جا سکیں۔ کسی پاسپورٹ کا ڈیزائن جتنا زیادہ پیچیدہ ہو گا اس کی نقل بنانا اتنا ہی زیادہ مشکل ہوگا۔ جدید پاسپورٹ میں جو لوازمات ہوتے ہیں وہ صرف اور صرف سکیورٹی خدشات کے پیش نظر شامل ہوتے ہیں۔ مثلاً سنہ 2015 میں جاری ہونے والے کینیڈا کے نئے پاسپورٹ کو دیکھیں۔ اگر اس پاسپورٹ کے صفحوں پر ‘یو وی’ لائٹ یا بالائے بنفشی شعاعیں ڈالی جائیں تو ان کے اوپر کے حصے میں بنائی ایک عام سی تصویر کا آسمان روشن ہو جائے گا جیسے آتش بازی ہو رہی ہو اور ایک قوس قزح نمو دار ہو جائے گی۔

صدی کے اختتام پر بہت سے ملکوں کے پاسپورٹس میں بائیو میٹرک چپ بھی لگائی جانے لگی اور پاسپورٹس کی جلد پر ایک نشان کا اضافہ ہو گیا۔

تائیوان کے نئے ڈیزائن شدہ پاسپورٹ پر حکومت نے ریچھ اور چائے کے پودوں کے نقوش نہ بنانے کے فیصلہ کیا۔ نئے اور پرانے ڈیزائن میں زیادہ فرق نہیں ہے لیکن اس میں اہم ترین الفاظ جمہوریہ چین حذف کر دیے گئے، سورج کے نشان پر دائرہ ڈال دیا گیا ہے اور اس کے اوپر بڑے موٹے لفظوں میں تائیوان لکھ دیا گیا ہے۔

یہ ناروے کے 2014 میں جاری ہونے والے نئے ڈیزائن کے پاسپورٹ کا مقابلہ نہیں کرتا جو کہ نیو ڈیزائن سٹوڈیو نے بنایا ہے۔ اس میں ناروے کے خوبصورت قدرتی مناظر کے عکس ہیں اور اس کے تین رنگ سفید، فیروزی اور سرخ ہیں جو کہ ایک روائتی مگر عصر حاضر کا پاسپورٹ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے اندرونی صفحات پر الٹرا وائلٹ شعاعیں ڈالنے سے اس پر ناردرن لائٹس جھلملانے لگتی ہیں۔

ملتا جلتا مگر مختلف

قطع نظر اس کے کہ پاسپورٹ کتنی مختلف قوموں کی ترجمانی کرتے ہیں لیکن مختلف ملکوں کے پاسپورٹ میں ایک طرح کی یگانگت بھی پائی جاتی ہے چاہے یہ چین، امریکہ، آسٹریلیا یا ایران کے پاسپورٹ ہوں۔

اس طرح سے پاسپورٹ کا سادہ ڈیزائن اس کا مقصد پورا نہیں کرتا جو کہ ہر قوم کی انفرادیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ اقوام عالم میں ممتاز ہونے کی شدید خواہش کی بھی غمازی کرتا ہے۔

پاسپورٹ کی ایک تاریخ ہے لیکن تیزی سے آگی بڑھتی ہوئی دنیا میں جہاں اس دستاویز میں شامل ٹیکنالوجی بدل رہی ہے وہیں اس کی علامتی حیثیت میں بھی تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ پاسپورٹ ہمشیہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف معنی رکھتا تھا۔ خوش قسمت افراد میں یہ ملکیت اور تعلق کے احساس کی تسکین کا باعث رہا ہے۔

ان کے لیے یہ بیرونی دنیا کے دروازے کی کنجی رہا ہے جو مہم جوئی اور فضائی سفر کے لیے ضروری ہے۔ لیکن سمندر کی لہروں کے رحم و کرم پر تارکین وطن کے لیے پاسپورٹ چین کی زندگی گزارنے کی ضمانت ہے۔ سلگتے ہوئے بین الاقوامی تنازعات اور کشیدگی میں بعض ملکوں کے پاسپورٹ دنیا کے وسیع حصوں کے دورازے کھول دیتے ہیں اور حالیہ عالمی وبا کی وجہ سے بین الاقوامی سفر اب اکثر لوگوں کے لیے اتنا آسان نہیں رہا۔

اس طرح سے کووڈ 19 نے اس چھوٹی سے چمکتی ہوئی دستاویز کی اہمیت اور افادیت کو نئے معنی دیئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp