شاہ دولے کے چوہے


شاہ دولے کے چوہوں کی کہانی سے آپ لوگ واقف ہوں گے، لہٰذا مزید اس کی تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنا کہنا ہے کہ یہ لوگ وقت اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ قد و قامت اور جسامت میں تو بڑھتے جاتے ہیں، مگر ان کی سوچ محدود رہتی ہے۔ صرف وہ بولتے ہیں جو کہا جاتا ہے اور وہی کچھ کرتے ہیں جو کرنے کا کہا جاتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے ہم بھی ویسے ہی ہیں۔ کیوں کہ ہمیں ایسا بنا دیا گیا ہے۔ ہماری سوچ کو زبر دستی محدود کر دیا گیا ہے۔

اور اگر اس سوچ سے زیادہ سوچنا شروع کر دیں، تو بے بنیاد الزامات، مار پیٹ یا پھر تھانے کچہری کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ سکول کے زمانے سے مطالعہ پاکستان کے ذریعے یہ دماغ میں ٹھونس دیا گیا کہ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا۔ بس پھر کیا تھا آج تک وہی چل رہا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ہم نے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جو سلوک روا رکھا، اس سے بانی پاکستان کی عزت اور احترام کا اندازہ آپ خود کر لیں۔ لیکن ہمیں یہ سب کچھ کہنے کی اجازت نہیں، بس احترام ہم پر لازم ہے۔

اور یہ شرط بھی بعض لوگوں پر لاگو ہوتی ہے اور کچھ کو استثنا حاصل ہے۔ اب میں اس بحث میں نہیں جاتا کہ کیپٹن (ر) صفدر کو کیوں گرفتار کیا گیا۔ جب کہ اسی مزار پر یکم مئی، 2017ء کو موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے دھواں دھار تقریر کی تھی اور پجاریوں نے نعرے بازی بھی کی۔ مگر اس وقت کسی کو مزار قائد کا تقدس یاد نہیں آیا تھا اور تو اور اسی مزار پر غیر اخلاقی سرگرمیوں کی خبریں شائع ہو چکی ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ اس معاملے میں ہماری عدالتیں بھی مذہبی عقائد، سیاسی وابستگی یا اداروں کے ساتھ روابط کی بنیاد پر سلوک کرتی ہیں۔

معاشرے میں مذہبی تعصب اور عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ کراچی کے ایک ادارے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں ایک سیمینار کو صرف اس وجہ سے منسوخ کر دیا گیا کہ وہاں پر ماہر معاشیات ڈاکٹر عاطف میاں نے طلبا کے ساتھ معیشت کے موضوع پر بات کرنا تھی۔ اس سے قبل وفاقی حکومت عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کی رکنیت سے صرف اس بنیاد پر علیحدہ کرچکی ہے، کیوں کہ ان کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔ گزشتہ دنوں میں گوجرانوالہ کے غیر سرکاری تعلیمی ادارے کی دیوار پر کچھ طلبا نے پاکستان کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام کی تصویر پر کالے رنگ کا سپرے کر دیا، کیوں کہ ان کی تصویر ٹیپو سلطان اور علامہ اقبال کی تصاویر کے ساتھ آویزاں کی گئی تھی۔

دنیا بھر میں غیر معمولی کارکردگی یا اعلی خدمات دینے والی شخصیات کا ادب کیا جاتا ہے بلکہ باقاعدہ مجسمے بنائے جاتے ہیں اور چوراہوں اور اہم مقامات پر نصب کیے جاتے ہیں تا کہ نئی نسل یاد رکھے۔ بانی پاکستان کا احترام سب پر لازم ہے اور اس سے متعلق کوئی دوسری رائے نہیں کہ جن لوگوں نے ملک و قوم کے لئے اعلی خدمات سرانجام دی ہیں، بغیر رنگ و نسل و مذہب ان کا احترام کیا جائے، مگر دُہرا معیار مناسب نہیں۔ انتشار اس وقت پھیلتا ہے یا عوام بد ظن ہوتے ہیں۔ جب عدالتیں یا ادارے مذہب، رنگ و نسل اور سیاسی وابستگیوں کے علاوہ اداروں کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر تفریق کی جاتی ہے۔

ایسی کئی مثالیں موجود ہیں مگر یہاں ایک حد سے زیادہ بولنے یا لکھنے کی اجازت نہیں۔ سوچنے پر تو پابندی عائد نہیں کی جا سکتی مگر سر عام اظہار پر ضرور پابندیاں عائد ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بین الاقوامی سطح پر واویلا کرنا جائز ہے مگر پاکستان میں رنگ و نسل، علاقے یا مذہب کی بنیاد پر ہونے والی زیادتی، معصوم لڑکیوں کا اغوا، تبدیلی مذہب، غیر منصفانہ تقسیم اور تفریق پر بات کی جائے تو غداری اور ملک دشمنی جیسے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔

یہاں چرچ اور اقلیتی بستیوں کو جلا دیا جاتا ہے اور آئے دن ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو زبردستی اغوا اور جبری مذہب تبدیل کروا کر نکاح کرائے جاتے ہیں مگر سینیٹر انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں جبری تبدیلی مذہب کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ دوسری جانب عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے انہی کے حق میں ہوتے ہیں۔ جہاں دوسرے مذہب سے وابستگی کا لفظ طعنہ اور تضحیک کے طور پر استعمال کیا جائے اور بقول بلاول بھٹو زرداری ”مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).