استاد کی کہانی


دھرتی سے اگا بدن، جب پھر سے دھرتی میں جا ملے، تو مادی دنیا کے قرطاس پر لکھی جانے والی کہانی مکمل ہو جاتی ہے۔ ایک اور کہانی مکمل ہو گئی۔ شخصیات کے احوال و تذکرہ پر مبنی کتاب جب چھپنے جا رہی تھی، تو میں نے اس کا نام ”ادھوری کہانیاں“ اسی لئے رکھا تھا کہ زمیں کے سینے پر جب تک انسان موجود ہو، اس کی کہانی ادھوری رہتی ہے۔ تکمیل تو موت کرتی ہے۔ کچھ سن گن رکھنے والے کہا کرتے ہیں کہ کہانی موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ رہتی ہو گی، تاہم ظاہری حواس سے بعد کی کہانی کو دیکھا، سنا، پڑھا اور محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ سو موت کی نیند، کہانی کے اختتام ہی کا نام ہے۔ انگریز تمثیل نگار کے مطابق دنیا کے سٹیج سے اپنے حصے کا کردار مکمل کر کے اتر جانے کا نام ہے۔ ادھوری کہانیاں کتاب کا ایک اور کردار استاد بلے خاں بھی اپنی کہانی مکمل کر گئے، ان کا کردار بھی تمام ہوا۔ استاد کی کہانی کا آخری پیراگراف دربار موسیٰ پاک شہید کے سائے میں، گزشتہ سوموار کی صبح نو بجے پڑھا گیا۔

دربار حضرت موسیٰ پاک شہید کے پہلو میں محلہ گیلانیاں ہے اور استاد بلے خاں کا خاندان صدیوں سے یہاں مقیم۔ استاد کا تعلق نقارہ بجانے والے خاندان سے تھا۔ نقارہ بر صغیر کا قدیمی ساز ہے۔ نقارے کی کہانی بھی ختم ہونے کو ہے، اب خال ہی کہیں نظر آتا ہے۔ استاد کے پر دادا میاں اللہ ڈیوایا نقارے کے حوالے سے بر صغیر کے بڑے ناموں میں شمار ہوتے تھے۔ یہ فن اس خاندان میں نسل در نسل چلا۔ استاد کے والد خلیفہ رحیم بخش بھی معروف نقارچی تھے۔

رہتے ملتان میں تھے، مگر قریبی ریاست بہاول پور میں ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ریاست کے بیش تر نقارچی خلیفہ صاحب کے شاگرد تھے۔ سن انیس سو ستاون کے ایک حادثے میں خلیفہ رحیم بخش کا بازو کٹ گیا، تو ان کے بڑے بیٹے لعل خاں بہاول پور جا کر نقارے کی تعلیم دیتے رہے۔ بہرحال اس حادثے سے قبل ہی خلیفہ رحیم بخش طبلے کی طرف آ گئے تھے۔ اس زمانے ہی میں نقارہ، شادی بیاہوں کا ساز رہ گیا تھا اور طبلے کی مانگ زیادہ تھی۔ خلیفہ رحیم بخش نے میاں کرم الٰہی قصور والے سے طبلہ سیکھا۔

استاد بتایا کرتے تھے کہ میاں کرم الٰہی، میاں فتح دین کے بھانجے تھے۔ وہ بتاتے کہ فتح دین وہ ہیں، جنہوں نے پنجاب میں طبلہ متعارف کروایا۔ قبل ازیں پنجاب کے لوک گیتوں کے ساتھ پکھاوج پر دھنگ یا ڈھولک بجا کرتی تھی۔ استاد شوکت حسین جو بلے خاں کے نام سے معروف ہوئے، نے طبلہ اپنے والد خلیفہ رحیم بخش سے سیکھا۔

ملتان کے حرم دروازہ سے ڈھلان اتر کر، جو سیدھی سڑک سٹی ریلوے اسٹیشن کی طرف جاتی ہے، اس پر جہاں گل روڈ آن کر ملتی ہے، اسی تراہے پر استاد بلے خاں کی بیٹھک تھی۔ گل روڈ کے عین بالمقابل دکانوں کے اوپر چار پانچ کمرے قوال پارٹیوں کے دفتر ہیں۔ انہی میں سے سڑک کی طرف والا پہلا کمرا، استاد کی بیٹھک تھی، جہاں وہ طبلے کی تعلیم دیا کرتے۔ استاد کو ریڈیو کی ریکارڈنگز میں اور خاص خاص تقریبات میں طبلہ یا ڈھولک بجاتے، تو مدت سے دیکھ رہا تھا، لیکن ان کی بیٹھک پر جانا کوئی سات آٹھ سال قبل، اس وقت ہوا، جب ”خبریں“ کے سماج ایڈیشن کے لئے میں ان کا انٹرویو کرنے گیا۔

بوسیدہ سی بد رنگ دری کا فرش، طبلوں کی کچھ جوڑیاں، کچھ نئے پرانے ڈھولک، لکڑی کا ایک شکستہ سا بنچ اور دو میل خوردہ گاؤ تکیے۔ یہ استاد کی بیٹھک کا کل اثاثہ تھا۔ سڑک کی طرف والی کھڑکی رکشوں، موٹر سائیکلوں اور دوسری ٹریفک کے شور کے ساتھ ساتھ گرد و غبار کی کمرے تک ترسیل بحسن و خوبی کرتی تھی۔ یہ تب کی بات ہے جب یہ بیٹھک بھی اپنی کہانی پوری کر چکنے کے قریب تھی۔ گلوکار حضرات یو ایس بی اور موبائل فونوں میں اپنے گانوں کے ساؤنڈ ٹریک جیب میں لئے گھومتے تھے۔ جہاں پرفارمنس ہوئی ساؤنڈ والے کو ٹریک دیا اور گا کر سٹیج سے نیچے اتر آئے۔ شادی بیاہوں پر مجرے جاری ہیں، مگر بائی جی کے ساتھ اب سازندے نہیں ہوتے، گیتوں کی ریکارڈنگ پر پرفارمنس ہوتی ہے، سو سازندوں کی بے کاری کا موسم شروع ہو گیا تھا، تو استاد کے پاس بھلا کون طبلہ سیکھنے آتا۔

استاد ریڈیو کے بڑے شکر گزار تھے۔ ملتان میں انیس سو ستر کو ریڈیو کھلا اور دوسرے ہی برس استاد ریڈیو کے شعبہ موسیقی سے منسلک ہو گئے۔ وہ کہتے تھے کہ ”شہر میں ریڈیو آیا تو ہمیں عزت کی روٹی نصیب ہوئی۔ اس سے پہلے تو کوٹھوں پر طبلہ بجایا کرتا تھا۔ جونہی ریڈیو سے وابستہ ہوا، مجروں میں بجانا چھوڑ دیا“۔ استاد اب کئی برسوں سے گوشہ نشیں تھے۔ ریڈیو سے پینشن پاتے اور صبر و شکر کے دن گزارتے۔ استاد نے بڑے وقار کے ساتھ زندگی کے دن گزارے۔

استاد بڑی وجیہہ شخصیت کے مالک تھے۔ جب ہم نے ان کو دیکھا تو زوال شروع ہو چکا تھا، تاہم سرخ و سپید رنگت اور نک سک سے درست اعضائے جسمانی کو دیکھ کر ایک نظر میں اندازہ ہو جاتا کہ جوانی میں استاد کیسی آتش بد اماں وجاہت کے مالک رہے ہوں گے۔ استاد صغیر احمد اس امر کی گواہی دیتے ہیں۔ تاہم پے در پے صدمات نے استاد کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔ اہلیہ، دو جوان بیٹے اور دو ہی بیٹیاں استاد نے اپنے ہاتھ سے سپرد خاک کیے۔ ان صدمات نے استاد کو وقت سے پہلے مضمحل کر دیا۔

استاد سے آخری ملاقات، ان کی وفات سے کوئی ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ قبل ہوئی۔ بیماری اور صدمات کی وجہ سے وہ خاصے کم زور ہو چکے تھے۔ موسیقی پر ایک مضمون کے سلسلے میں استاد صغیر احمد کے پاس گیا، تو انہوں نے فون کر کے استاد کو بھی بلوا لیا۔ استاد وضع دار آدمی تھے، پھر استاد صغیر سے پچپن برس کا تعلق، وہ بیماری میں بھی جیسے تیسے آ گئے۔ رکشے سے اتر کر وہ ہماری جانب بڑھے، تو استاد صغیر نے ان کو قدرے جھکی کمر کے ساتھ چلتے دیکھ کر بھاری دل سے کہا، ”آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ جوانی میں بلے خاں کیسا شکیل تھا“۔

اب تو عالم یہ تھا کہ سفید چھوٹی چھوٹی داڑھی، جیسے شیو بڑھا ہوا ہو۔ سر کے بال بھی سپید۔ عمر تو بہتر ہی برس تھی، مگر ماس ہڈیوں کو چھوڑنے لگا تھا۔ استاد تکلیف میں تھے، ان کی یادیں گڈ مڈ ہو رہی تھیں، پھر بھی جو ان سے پوچھا، انہوں نے کوشش کر کے بتایا۔ استاد نے کھانا ہمارے ساتھ کھایا۔ بعد کو چائے آئی، تو استاد نے کپ اٹھایا مگر ہاتھ سرکشی پر اترا ہوا تھا۔ خوب سنبھال سنبھال کر کپ کو منہ کی طرف لائے لیکن لبوں سے لگنے سے پہلے ہی ہاتھ کپ کی چائے گریبان پر انڈیلنے لگا۔ استاد کو پتا نہ چلا۔ میں نے کہا استاد جی، چائے قمیص پر گر رہی ہے۔ تب استاد نے جلدی سے کپ ہٹایا۔

دل ملول سا ہو گیا۔ میں نے سوچا اس کائنات کی چوتھی جہت، یہ وقت کیا ظالم شے ہے۔ یہی ہاتھ اور انگلیاں کبھی استاد کی ایسی تابع فرمان تھیں کہ طبلے پر چلتیں تو استاد طافو جیسے لیجنڈ اٹھ کر نذر پیش کرتے۔ گلوکار اپنی ریکارڈنگز میں تبرک کے طور پر استاد کو ڈھولک پر بیٹھنے کی درخواست کرتے۔ آج وقت نے اسی ہاتھ کو ایسا نا فرمان بنا دیا کہ وہ چائے کا کپ درست مقام تک نہیں پہنچا پاتا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ بی بی پاک دامن کے قبرستان میں آسودہ استاد پر، اپنی رحمتوں کو سایہ فگن رکھے۔ ہر کمال کو زوال ہے اور ہر کہانی کا اختتام۔ رہے گا تو بس اللہ کا نام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).