جدید خوراک اور صحت کے مسائل


پچھلے دنوں ”ورلڈ فوڈ ڈے“ منایا گیا۔

اس موقع پر پنجاب فوڈ اتھارٹی نے راولپنڈی شہر میں عوامی مقامات پر خوراک اور صحت سے منسلک مفاد عامہ کے کئی پیغامات آویزاں کیے ۔ جن میں سے ایک پیغام سمجھنے والوں کے لئے نشانی کی حیثیت رکھتا تھا۔

”سافٹ ڈرنکس اور انرجی ڈرنکس قاتل ہیں۔ ذہنی و جسمانی عارضوں کا باعث بنتے ہیں۔ پرہیز کیجیئے“
آئیے دیکھتے ہیں کیسے۔
انرجی ڈرنکس کو تین چیزیں مہلک بناتی ہیں۔
1) کیفین و دیگر سٹمولینٹس (CNS Stimulants)
2) شوگر
3) اوپر دیے گئے دونوں اجزا کی ”اوور ڈوز“ ۔

کیفین کیا ہے؟ اس کی اوور ڈوز کے سائڈ ایفیکٹس کیا ہیں؟

شوگر روزانہ ہمیں متوازن خوراک کی شکل میں کتنی چاہیے اور اس کی ”اوورڈوز“ کیسے ہماری صحت کو ردی کر سکتی ہے اس سب پر دفتر کے دفتر تحقیق کے لکھے پڑے ہیں اور انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ وہ آپ سب مجھ سے بہتر سرچ کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ میں یہاں صرف ایک حوالہ لکھے دیتا ہوں۔

این ایچ ایس ڈاٹ یو کے جو برطانیہ بہادر کی سب سے بڑی ہیلتھ ویبسائٹ ہے کے مطابق چند ایک مسائل جو انرجی ڈرنکس اور سافٹ ڈرنکس کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ان میں

ذیابیطیس،
نفسیاتی بیماریاں،
جین میوٹیشن (انسانی جنیاتی وراثتی مادے میں تبدیلیاں ) جو کینسر کا نقطہ آغاز ہے،
جسمانی معذور اورمخبوط الحواس بچوں کی پیدائش،
اسقاط حمل،
عارضہ قلب،
بلڈپریشر،
حرکت قلب کا ابنارمل ہونا
سر فہرست ہیں۔
دیگر معتبر ذرائع سے بھی ان حقائق کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

ایک بڑی اور موٹی سی بات یہ ہے کہ ہم اور آپ اپنے بزرگوں سے یہ سن سن کر کان پکائے بیٹھے ہیں کہ نئی نسل ہماری طرح صحت مند اور مضبوط نہیں ہے۔ ذرا سی ہوا میں خنکی ہوئی اور یہ لگے چھینکنے کہ زکام ہوا۔ جبکہ ہم ان کی عمر میں لکڑ ہضم پتھر ہضم ہوا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔

بات آپ کو بتاؤں وہ کہتے ٹھیک ہیں۔ ان کا جو لائف سٹائل تھا وہ بے تحاشا غیر محسوس جسمانی ورزشوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ کبھی تین تین میل پیدل جا رہے ہیں۔ کبھی چارپائی کی ادوان کس رہے ہیں کبھی ہاون دستے میں کوئی سفوف کوٹ رہے ہیں اور کبھی ہمیں کوٹ رہے ہیں۔

اب آ گئیں مشینیں جدید سے جدید۔ ہر کام بٹن دبانے سے ہو رہا ہے۔ چلنا پھرنا ایسا موقوف ہوا کہ کولہوں کی جان پر بن آئی۔ چوتڑ سنبھالنا خود کو سنبھالنے سے زیادہ مشکل ہو گیا۔

ہمیں تو ڈر ہے کہیں لوگ واش روم بھی بائیک پر نہ جانے لگیں۔

پھراگلے وقتوں کی خوراک سادہ اور صحت بخش ہونے کے ساتھ ساتھ صرف اتنی ہی کیلوریز کی حامل ہوا کرتی تھی جتنی جسم کو ضرورت ہے۔ قدرتی فائیبرز سے بھرپور۔ ہماری طرح نہیں کہ پراسیسڈ فوڈ کھا رہے ہیں اور اسمیں موجود پریزرویٹوز اور دیگر کیمیکلز سے اندرونی اعضا کا بیڑا غرق کیے بیٹھے ہیں۔

امپورٹڈ چاکلیٹس برانڈز میں سے کسی کا بھی صرف ایک لقمہ ایک سالم ڈنر کی کیلوریز کے مقابلے میں کیلوریز رکھتا ہے۔

سٹنگ انرجی ڈرنک کی 500 ملی لیٹر والی بوتل کے اجزا پڑھ لیں۔ اس پر ایک ٹارین (Taurine) لکھا ہوگا۔

باس ٹارس Bos taurus بیل کا سائنٹفک ٹیکسونومک نام ہے اور یہ ٹارین بیل سے حاصل کیا جاتا ہے جس کی زیادہ مقدار خطرناک ذہنی عارضے بائی پولر ڈس آرڈر کا باعث بنتی ہے۔ یاد رہے کہ بائی پولر ڈس آرڈر خود کشی کا ایک بڑا محرک ہے۔

ٹین ایجرز اور نو بالغ افراد بیئر اور الکوحل کی کمی یہی انرجی ڈرنکس پی کر پوری کرتے ہیں اور اپنے تئیں سنجے دت گردانتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں۔ یعنی

” انرجی ڈرنکس پی لیتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ اب جس کا جی چاہے وہ ڈیٹا اٹھا کر دیکھ لے۔“

ایک تہذیب (پنڈی اسلام آباد کی ایک بیکری) کا پیزا لے لیں یا کے ایف سی کا زنگر، ان میں کیلوریز اور گلوکوز کی اتنی بلند ترین مقدار ہے کہ کھاتے ہی جسم میں ”انسولین برسٹ“ ہوتا ہے۔ ہاں ہاں اسی طرح کا برسٹ جو کلاؤڈ برسٹ کے وقت ہوا کرتا ہے۔ انسولین کیا ہے؟

ایک پروٹین ہے اور جسم کا اہم ترین اینا بولک ہارمون ہے۔
باقی یہاں کلینکل پیتھالوجی کی کلاس لگا کر آپ کو بور کرنا مقصود نہیں۔
پس اے میرے دوستو اور سہیلیو!
صحت صرف یہ نہیں کہ آپ بظاہر چل پھر رہے ہیں، کھا پی رہے ہیں، ”سو“ رہے ہیں اور ”نہا“ رہے ہیں۔
بقول مرشد پاک علامہ ضمیر اختر نقوی رح
”آئے ہائے زندہ ہیں۔ آئے ہائے زندہ ہیں۔ ارے چلتی پھرتی میتیں ہیں“
بلکہ صحت یہ بھی ہے کہ آپ کا ذہن کتنا بھرپور کام کر رہا ہے۔

کیا آپ فریش اور خوش باش بھی رہتے ہیں یا میر تقی میر کی طرح ٹک روتے روتے سو جاتے ہیں۔ کیا آپ کی پتلونیں تنگ اور توندیں کشادہ تو نہیں ہورہیں؟

اور جب کسی فلم ڈرامے میں کسی ہیرو ہیروئن کے سٹائلش پہناوے دیکھ کر آپ کو کسی اچھے مہنگے برانڈ سے وہی ڈیزائن اور کپڑے میسر آتے ہیں تو روپیہ بہا کر کیا آپ ان میں جامہ زیب بھی دکھائی دیتے ہیں یا نہیں؟

کہیں سیڑھیاں چڑھنا پڑ جائے یا پیدل چلنا ہو تو آپ کا دل بیٹھ سا تو نہیں جاتا؟ اور آپ گردوپیش موجود لوگوں سے تلخ کلامی تو نہیں کرنے لگتے؟

باقی جیسے جناب کی مرضی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).