میں ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور بی بی کا بیٹا ہوں


حالیہ گلگت بلتستان کے انتخابی دورے کے موقع پر ایک جلسے میں بلال بھٹو زرداری نے یہ الفاظ ایک بار پھر دہرائے ہیں کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور بی بی کا بیٹا ہے، وہ کوئی کھلاڑی نہیں ہیں کہ یو ٹرن لے گا۔ بلاول نے یو ٹرن تو نہیں لیا ہے لیکن یوں ٹرن لیا ہے اور وہ یوں کہ آصف علی زرداری کی دریا دلی سمجھے یا ان کی سیاسی دور اندیشی کہ بلاول کو صرف بلاول زرداری نہیں بنایا بلکہ بلاول بھٹو زرداری کے مشترکہ ناموں سے سیاسی میدان میں متعارف کروایا۔

لیکن ہم نے جب بھی بلاول کو خود کو متعارف کرواتے دیکھا ہے تو وہ خود کو صرف بھٹو خاندان سے جوڑتا ہے، لیکن اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو بلاول کا ددھیال بھی ایک سیاسی گھرانا ہے۔ حاکم علی زرداری اپنے وقت کے ایک اچھے پروگریسیو اور ترقی پسند سیاست داں تھے، نیپ کی سیاست ہو یا پھر اے۔ این۔ پی کے ساتھ وابستگی ہو یا پھر اس کے بعد سندھ کا صوبائی سیاست ہو وہ ایک اچھے سیاست داں کے روپ میں نظر آئے، میرے خیال سے اپنے سیاسی کیرئیر میں ان پر کسی کرداری تہمت کا داغ دھبہ لگا اور نہ کسی سازشی یا کج سیاسی ہتھکنڈوں کے مرتکب رہے، نہ کسی آمر کے کاسہ لیسی کی اور نہ سیاسی خوشامد گری کے زینے پر چڑھ کر اپنے قد کاٹھ کو اونچا کیا۔

اگر وہ چاہتے تو وہ بھی سندھ کے دیگر سیاسی وڈیروں کی طرح وہ سب کچھ کر سکتے تھے جو ان کے دیکھا دیکھی انھوں نے کیا، لیکن وہ کسی سے اس سلسلے میں مرعوب نہیں ہوئے اور وہی کیا جو اس کو پسند تھا۔ اسی طرح ان کے اکلوتے صاحب زادے سابقہ صدر پاکستان موجودہ پیپلز پارٹی کا کو چیئرمین بی بی کا شوہر اور بلاول، بختاور اور آصفہ کا والد محترم جناب آصف علی زرداری جس پر لاکھ الزامات سہی لیکن کیا وہ الزامات ان پر کسی عدالت میں ثابت ہوئے یا کسی عدالت سے سزایافتہ ہے اگر ان پر کوئی جرم ثابت ہوتا یا ان کو کسی عدالت سے سزا ملتی تو وہ پاکستان کے سپریم کمانڈر یا صدر مملکت بنتے؟

ان کو گارڈ آف آنر نہیں ملتا ان کو بیرونی سفراء اپنے اسناد اور وزراء اپنے اعتماد پیش نہ کرتے۔ وہ اگر بے اعتماد ہوتے تو بے نظیر جیسی با اعتماد عورت اور بلاول کی والدہ ماجدہ ان سے شادی نہیں کرتی۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو لاکھ بڑا لیڈر سہی، قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں، بقول سابقہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس نسیم حسن شاہ جوڈیشل قتل ہی سہی پر عدالت سے ثابت تو ہے، ان کے کردار پر ایک جھوٹا ہی سہی داغ تو ہے، وگرنا خالص الزام پر زرداری کو کیوں مجرم گردانا جائے۔

اب بلاول بھٹو زرداری اور ان کی سیاسی تربیت کرنے والوں اور سیاسی تقریریں لکھنے والوں کو ذرا بلاول کی ددھیال کے سیاسی گھرانے کی طرف بھی توجہ مبذول کرانی چاہیے، زرداری نے تو دونوں بہنوں عذرا پیچوہو اور ادی فریال تالپور کو پیپلز پارٹی میں ایک اہم رول دیا ہے اور اپنے ساتھ اپنے خاندان کو جوڑے رکھا ہے۔ اگر بلاول سمجھتے ہیں کہ ان کا نانا ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی ماں محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں وزیر اعظم رہے ہیں تو ان کے والد محترم بھی تو اسی ملک کے صدر رہے ہیں اور پاورفل صدر رہے ہیں اور ان کا دادا بھی ایک منجھے ہوئے سیاست داں رہے ہیں اور پھر ان کا نام بھی تو ان کے پردادا کے نام ہر رکھا گیا ہے۔

اب یہ بلاول کی احساس کمتری ہے یا سیاسی داؤپیچ، لیکن خاندانی پس منظر ایک ایسی چیز ہے کہ وہ پیچھا نہیں چھوڑ تھی، وہ کہیں نہ کہیں ضرور اپنی جھلک دکھاتی ہے اور پھر خاندانی پس منظر برا بھی نہ ہو، تو پھر اس پر چپ رہنا اور دوسرے یا متوازی کو گلے لگانا ایک بہت بڑے تضاد کو ہوا دیتی ہے، ہوا سے کسی کے آنکھوں میں دھول، مٹی تو گھرایا جاسکتا ہے پر حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا، اور حقیقت یا کڑوا سچ یہ ہے، کہ اب لوگ یہ اپنے جوان قائد بلاول بھٹو کے منہ سے سننا چاہتے ہیں کہ وہ یہ ضرور کہتے رہیں، کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہے کیونکہ وہ ان کا نواسہ ہے اور یہ بھی کہتا رہے کہ بی بی کا بیٹا ہوں کیونکہ وہ تو ہے، بالکل اسی طرح سے اب آنے والے جلسوں یا پریس کانفرسز میں یہ بھی بولنا شروع کریں کہ وہ حاکم علی زرداری کا پوتا ہے جو کہ ہے وہ کسی آمر کی کاسہ لیسی کیوں کریں وہ اصولوں پر سودے بازی کیونکر کریں اور ساتھ ساتھ دھڑلے سے بولیں کہ وہ آصف علی زرداری مرد آہن کا بیٹا ہے اور جو کہ ہے، وہ نہ جیلوں سے ڈرتا ہے اور نہ جھوٹے مقدموں سے۔ امید ہے بلاول بھٹو زرداری اپنے جیالے اور جانثار عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).