آمنہ مفتی کا کالم ’اڑیں گے پرزے‘: پاکستان اور ویب سیریز


اڑیں گے پرزے
ہمارے بچپن میں پاکپتن میں دو سینما تھے۔ ایک ’صنم‘ اور دوسرا ’نورمحل‘۔ صنم سینما جس سڑک پر تھا وہاں سکول کالج بھی قریب تھے۔ نورمحل شہر کے ایک نیم ویران سے کونے میں تھا۔

خیر سے میں نے ان دونوں سینما گھروں کو کبھی اندر سے نہیں دیکھا۔

کچھ عرصے بعد، صنم سینما ڈھا دیا گیا اور اس کی جگہ ایک پٹرول پمپ اور ’مزار بابا دھکے شاہ‘ بن گئے۔ نورمحل کے بارے میں شنید ہے کہ اس میں کھاد کا سٹور بن چکا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق (جو کہ اب بہت پرانی ہو چکی ہیں)۔

پورے ضلع پاکپتن میں صرف عارف والا میں ایک سینما ہے۔ اس سینما میں خدا جانے کیا دکھاتے ہیں کیوںکہ پاکستان میں تو فلمز بنتی ہی بہت کم ہیں اور ہندوستانی فلموں پر سنا تھا کہ پابندی ہے۔

سینما گھروں کا خیال یوں آیا کہ کسی عزیز کے گھر جانا ہوا جو کچھ عرصہ قبل تک شام کے وقت( پرائم ٹائم) ٹی وی کی سکرین سے نظر بھی ہٹانا گناہ سمجھتی تھیں۔ ان کے گھر میں ٹی وی بے نور پڑا تھا بالکل نور محل اور صنم سینما کی طرح۔ دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا کہ وہ اب فقط ’ویب سیریز‘ دیکھتی ہیں۔

آمنہ مفتی کے دیگر کالم

تقریر سے تقریر تک: آمنہ مفتی کا کالم

ایک کھوئی ہوئی کتاب!

ناگورنو قرہباخ میں جنگ کے شعلے

میاں صاحب کے لیے تالیاں!

لاہور کے نواح میں ایک گاؤں ’ٹھیٹر پنڈ‘ کے نام سے موجود ہے جہاں اب تھیٹر نہیں لگتا۔ کتنے ہی ایسے تھیٹرز ہیں جہاں برسوں سے کسی صاحب ذوق نے قدم نہیں رکھا اور تھیٹر کے نام پر وہاں جو کچھ ہوتا ہے اس پر بول کے لفظ کیا کھونا؟

میرے گھر میں، لکڑی کی کیبنٹ والا ریڈیو اور چمڑے کے کیس والا ٹرانزسٹر بھی رکھا ہے لیکن ان سے آخری بار کوئی پروگرام کب نشر ہوا یاد نہیں۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے، انسان کی حسِ لطیف، اس کی دانش، تفریح کے نئے نئے دروازے کھول رہی ہے لیکن کیا پچھلے دروازے بند ہو رہے ہیں؟

داستان، کہانی، ناول شاعری، فلم، ڈرامہ بات تو وہی ہے۔ کہانی تو وہی ہے بدلی ہے تو بس تکنیک۔ نہ دنیا سے ناول رخصت ہوا ہے، نہ شاعری، نہ فلم، نہ تھیئٹر، نہ ریڈیو، نہ ٹی وی۔ یہ زوال بس ہمارے ہاں آیا۔

اگر پوچھا جائے کیوں تو جواب نہیں بن پڑے گا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں قلفی کی ریڑھی سے لے کر ٹرک تک ہماری حس لطیف کے گواہ ہیں وہاں یہ فلم، تھیٹر، ریڈیو اور اب لگتا ہے کہ کیبل ٹی وی بھی رخصت ہونے والے ہیں۔ایسا کیوں ہوا؟

کہانی لمبی ہے، میں صرف ویب سیریز کی بات کروں گی جس کا جادو آج سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ گو پاکستان میں شو بز اور ادب کی کئی اصناف اپنی موت آپ مر گئیں لیکن، شاعری اور ٹی وی ڈرامہ، خود رو بیلوں کی طرح پھلا پھولا۔

آج ہر طرف سے ایک ہی آواز آ رہی ہے کہ پاکستان کی ’ویب سیریز‘ کہاں ہیں؟ دو ایک ویب سیریز کو پاکستانی ویب سیریز کہا اور سمجھا بھی جا رہا ہے لیکن میرے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ یہ ویب سیریز، پاکستانی اداکاروں، ڈرامہ نگاروں اور ہدایت کاروں کو لے کر بنائی گئی زی فائیو کی ویب سیریز ہیں۔ ان کا کانٹینٹ یا کہانی زی فائیو ہی کی ٹیم چنتی ہے۔ اس طرح ہم اب بھی ’اصلی تے وڈی‘ پاکستانی ویب سیریز نہیں دیکھ پائے۔

بطور میڈیا اور خاص کر فلم کی استاد کے مجھے اندازہ ہے کہ ہم کن کن شعبوں میں کمزور ہیں اور اس کی کیا وجوہات ہیں لیکن کیا ہمارے پروڈیوسرز جو ویب سیریز کی اس دنیا میں جانے کو اتاولے ہیں وہ ان کمزوریوں کو دور کرنے اور ایک مضبوط انٹر ٹینمنٹ انڈسٹری قائم کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں؟

جواب نفی میں ہے۔ ہمارے پروڈیوسرز کو بنا بنایا مال چاہیے۔ تیار، کم قیمت ادیب، اداکار، ڈائریکٹر، میک اپ آرٹسٹ اور ایک ایسی صنعت، جس میں منافع اور عزت پروڈیوسر کی جیب میں جائے جبکہ محنت،دکھ، تکلیف، ٹیلنٹ کے نصیب میں ہو۔

پاکستانی فلمی صنعت کی تباہی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وی سی آر بھی تھا لیکن اسی دور میں ڈرامہ روز افزوں ترقی کرتا گیا۔ اگر غور کریں تو وجوہات وہی تھیں جن کے باعث آج ہم معیاری ویب سیریز نہیں بنا پا رہے۔

جب تک پروڈیوسرز سنجیدگی سے ادارے اور اکیڈمیاں یا تو خود نہیں بنائیں گے اور یا پہلے سے موجود اداروں کے ساتھ اشتراک نہیں کریں گے بات نہیں بنے گی۔

سالہاسال سے ہمیں بغیر ٹکا دھیلا لگائے ٹیلنٹ حاصل کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ گو پاکستان میں اب بھی ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن اس ٹیلنٹ کو تراشے بغیر اب دنیا کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔

برس کے برس جس طرح ادب کے نوبل انعام پر پاکستانی ادیب با جماعت روتے ہیں اسی طرح ہر چھٹے چھہ ماہی، ایک نئی ویب سیریز دیکھ کے بھی پاکستانی ڈرامہ نگار ’پھوڑی‘ بچھا لیتے ہیں۔ کاش ہمارے پروڈیوسرز اس دکھ کو سمجھ سکتے۔

اور ہاں چلتے چلتے یہ بھی بتا دوں کہ جس سڑک پہ ’صنم سینما‘ ہوا کرتا تھا اس پہ پچھلے دنوں ’سری نگر روڈ‘ کا نیا پھٹا لگا دیا گیا تھا۔

پسِ نوشت: اس پھٹے کا پاکستان کا ویب سیریز کی دنیا میں قدم نہ جما سکنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو ایسا سمجھے گا اس کی اپنی سمجھ کا فتور ہو گا۔ مصنف کا ذمہ توش پوش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp