مخلوط ڈانس باعث ندامت یا لڑکیوں کی سپلائی؟


گزشتہ ماہ لوک ورثہ اسلام آباد میں جشن آزادی گلگت بلتستان کے سلسلے میں منعقدہ ایک ثقافتی شو میں شینا میوزک پر مرد و خواتین کے \"safdar-ali-safdar\"مخلوط ڈانس کی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا اپ لوڈ ہوتے ہی دو متحرک گروپس کے درمیان الفاظ کی ایک جنگ شروع ہوئی۔

اس جنگ میں بظاہر تو دونوں اطراف کے فیس بکی مجاہدین صف اول میں دکھائی دے رہے تھے، مگر نمائندگی دو مختلف قسم کے مائنڈ سیٹس کی ہورہی تھی۔ ایک طرف قدامت پسند تو دوسری طرف لبرل طبقہ مورچہ زن تھا۔ دونوں اپنے اپنے دلائل کے ذریعے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی جدوجہد میں مصروف دکھائی دے رہے تھے ۔ ان مجاہدین کی جانب سے اس مخلوط ڈانس کے پیچھے مختلف لوگوں، علاقوں، اداروں حتیٰ کہ مذاہب اور فرقوں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا، مگر کوئی کسی کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب نہیں رہا۔

ثقافتی شو کے مہمان خصوصی گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن تھے جبکہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان اور دیگر حکومتی ذمہ دران بھی سفید ٹوپی کے اوپر شانٹی لگا کر پہن کرمہمانوں کی نشستوں پر براجمان تھے۔ تاہم جب سوشل میڈیا پر مخلوط ڈانس کی یہ خبر جنگل کے آگ کی مانند ہرطرف پھیل گئی تو وزیراعلیٰ نے یہ کہہ کر خود کو بری الذمہ قراردیا کہ وہ تو مخلوط ڈانس سے قبل ہی محفل سے رخصت ہو گئے تھے، لہذا بعد کی صورتحال کا انہیں کوئی علم نہیں۔

وزیراعلیٰ کے اس دلیل کی گواہی وہ لوگ ہی بہتر اندازمیں دے سکتے ہیں جو اس محفل میں شروع سے آخر تک موجود تھے۔ باوجود اس کے بہت سارے ناقدین کی جانب سے یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ وزیراعلیٰ کو مخلوط ڈانس کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام کی توہین کے مرتکب افراد اور ثقافتی شوکے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

 بہرحال ابھی یہ ایشو زیربحث ہی تھا کہ اچانک ملک کے ایک موقر انگریزی اخبار (ڈیلی ٹائمز) کی ایک سنسنی خیز خبر پر سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ گئی۔ خبر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام آباد میں ایک گینگ سیاسی شخصیات اور بڑے بڑے کاروباری حضرات کے لئے گلگت بلتستان کی لڑکیاں سپلائی کرکے کروڑوں روپے کما رہا ہے۔ یہ گینگ گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے غریب اور کمزورمعاشی حالت کے حامل گھرانوں کی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں معاونت اور اسکالرشپس دلوانے کی لالچ میں اسلام آباد بلواتا ہے اور وہاں پر انہیں مذکورہ افراد کے ہاتھ اونے پونے داموں فروخت کر کے ماہانہ بنیادوں پر پیسے کما رہا ہے۔

خبر میں رپورٹر نے انکشاف کیا ہے کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی /کونسل کے بعض اہم ممبران بھی اس گینگ کا حصہ ہیں۔  ڈیلی ٹائمز کی اس خبر نے گلگت بلتستان کے لوگوں میں اس قدر تشویش پھیلا دی کہ ہرطرف سے اس گھناﺅنے دھندے کی بھرپور مذمت اور سخت قسم کا ردعمل سامنے آیا۔ جس میں گلگت بلتستان قانون سازاسمبلی کے ممبران کو آڑھے ہاتھوں لیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا پر دوطرح کے مطالبات بھی سامنے آئے ۔

 پہلے مطالبے میں اخبار اور رپورٹر سے اس خبرکی تصدیق کے طورپر کچھ شواہد سامنے لانے اور اس گھناﺅنے دھندے میں ملوث عوامی نمائندوں کے نام افشا کرنے پر زوردیا گیا۔ جبکہ دوسرے مطالبے میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن سے واقعہ کا نوٹس لیکر تحقیقات کرانے پر اصرار کیا گیا ۔

اسی اثنا میں عوام الناس کی تشویش کو کم کرنے کے لئے صوبائی حکومت کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر باور کرویا کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اس خبرکا سختی سے نوٹس لیکر تحقیقات کروائے گی ۔ تاہم اگلے روز ہی ترجمان نے اطلاع دی کہ ڈیلی ٹائمز کی وہ خبر سراسر جھوٹ پر مبنی تھی جس پر رپورٹر نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ممبران اسمبلی سے معافی مانگی ہے۔ اس دوران وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی جانب سے بھی یہ بیان سامنے آیا کہ ڈیلی ٹائمز نے جھوٹ پر مبنی خبر شائع کر کے گلگت بلتستان کے تشخص کو برباد کرنے کی کوشش کی ہے، جس کا سختی سے نوٹس لے کر تحقیقات کروائی جائیں گی۔

ساتھ ہی ساتھ انہوں نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ اخبار کے صحافی نے جھوٹی خبرکی اشاعت پر معافی مانگ لی ہے۔ جس کے ردعمل میں نہ صرف متعلقہ صحافی نے معافی مانگنے کی خبروں کی تردید کی بلکہ یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ چند روز میں اس خبرکی فالو اپ سٹوری بھی فائل کرنے والے ہیں۔ صحافی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ خبرکی اشاعت کے بعد حکومتی ذمہ داران اور ماتحت افسران کی جانب سے ان پر دباﺅ ڈالا جارہا ہے اور طرح طرح کی آفرز اور دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔

اگلے روز ڈیلی ٹائمز میں اسی صحافی کے نام سے ایک فالو اپ سٹوری بھی شائع کی گئی جس میں بتایا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان ڈیلی ٹائمز کی خبر کو جھوٹ پر مبنی قراردی کر اور معافی مانگنے کا شوشا چھوڑ کر اپنے ساتھیوں کی عزت بچانے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ خبر میں نہ تو کوئی جھوٹ کا عنصر ہے اور نہ ہی رپورٹر نے کوئی معافی مانگی ہے ۔ انہوں نے اپنی فالو اپ سٹوری میں شالیمار پولیس اسٹیشن میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی ایک چودہ سالہ لڑکی کے اغوا ہونے سے متعلق درج شدہ ایف آئی آر نمبر اور مبینہ ملزمان کے ناموں تک کا ذکر کیا تھا۔

جواب میں حکومتی ترجمان فیض اللہ فراق نے اس خبرکو بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر حسب سابق رپورٹر سے اس گینگ میں ممبران اسمبلی اور بیوروکریٹس کے ملوث ہونے سے متعلق ثبوت پیش کرنے پر زور دیا۔ دریں اثنا وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی جانب سے اسپیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی فدا محمد ناشاد صاحب کی سربراہی میں اس خبرکی تحقیقات کی غرض سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔

یہ تھی گلگت بلتستان کی بیٹیوں کی ایک مبینہ گینگ کے ہاتھوں اسلام آباد میں عصمت دری کے حوالے سے اخبار ڈیلی ٹائمز کی خبر اور گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے ردعمل کی کہانی۔ اب اس میں سچائی اور جھوٹ کا پتہ اس وقت تک نہیں چل سکتا ہے جب تک کہ اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پرنہیں آتی۔

اہم سوال یہ ہے کہ اگر ڈیلی ٹائمزکے رپورٹر اپنی خبر سے متعلق شواہد اور ثبوت حکومتی کمیٹی کے سپرد کرنے میں کامیاب ہوئے تو اس صورت میں کیا ہوگا؟ کیا کمیٹی اس گھناﺅنے گینگ میں ملوث ناموں کو منظر عام پر لانے کی جرات کرسکے گی؟ اگر ان ناپاک محرکات کو بے نقاب کیا جاسکا تو ان کے لئے کیا سزا ہوگی؟ اگر تحقیقات کے بعد وہ خبرجھوٹ پر مبنی نکلی تو متعلقہ صحافی کو کیا سزا ہو گی؟  سوال یہ بھی ہے کہ کیا گلگت بلتستان کے عوام کے لئے ثقافت کے نام پر مخلوط ناچ زیادہ باعث ندامت ہے یا تعلیمی معاونت کے نام پر قوم کی بیٹیوں کی عصمت دری؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments