جب ایمریٹس ایئر لائن کی پہلی پرواز کراچی کے ہوائی اڈے پر اتری


25 اکتوبر سنہ 1985 کو متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی سے ایک پرواز کراچی کے لیے روانہ ہوئی جس کے لیے پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کا ایک ایئربس اے تھری ہنڈرڈ طیارہ اور عملہ استعمال کیا گیا۔

یہ تاریخی پرواز دنیا کی بہترین فضائی کمپنی بننے والی ایئرلائن الامارات یا ایمریٹس کی پہلی پرواز تھی جس نے دنیا میں ہوائی سفر اور آسائش کے تصور کو یکسر بدل دیا اور اس کام میں اس کی مدد کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے اور اس کے پائلٹس سرفہرست تھے۔

اس پرواز کی روانگی اور منزل کی مناسبت سے ایمریٹس نے اپنی پروازوں کا کال سائن منتخب کیا جو ایمرٹس کا ’ای‘ اور کراچی کا ’کے‘ ہے جو آج بھی مستعمل ہے۔

ایمریٹس کا ورثہ

ایمریٹس خلیج کے خطے میں سب سے پرانی ایئرلائن گلف ایئر سے وجود میں آئی جس کی دلچسپ تاریخ ہے۔

گلف ایئر کی بنیاد ایک برطانوی پائلٹ فریڈی بوزورتھ نے 1940 میں رکھی تھی۔ دس سال بعد بوزورتھ نے گلف ایوی ایشن کمپنی لیمیٹڈ کے نام سے ایئرلائن رجسٹر کروائی جو آج کی گلف ایئر کی جد امجد ہے۔ اس بنیاد پر خلیج کے خطے کی سب سے پرانی ایئرلائن گلف ایئر تھی۔

یہ بھی پڑھیے

ایئربس کا 2021 سے A380 طیارے نہ بنانے کا اعلان

’پاکستانی ایئرلائنز خلیجی کمپنیوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں‘

کراچی سے اسلام آباد کا سفر دبئی سے مہنگا کیوں؟

سنہ 1973 میں بحرین کے امارات جو اب مملکت بن چکی ہے، نے قطر کی ریاست، ابو ظہبی کی امارت اور سلطنت آف عُمان کے ساتھ مل کرگلف ایئر میں برٹش اورسیز ایئرویز کارپویشن کے حصص خریدے اور یکم جنوری سنہ 1974 کو اس نئی ملکیتی کمپنی کے ملکیتی معاہدے پر دستخط کیے گئے۔

اس نئی کمپنی میں ان چاروں ریاستوں کی یکسان یعنی 25 فیصد حصص تھے۔ یوں گلف ایئر ان چار ریاستوں یا ممالک کی فلیگ کیریئر ایئرلائن بن کر ابھری۔

گلف ایئر کا پاکستان سے تنازع

1980 کی دہائی کے ابتدائی برسوں سے ہی گلف ایئر پاکستان انٹرنیشل ایئرلائن کے ساتھ سینگ پھنسا بیٹھی تھی جس کی وجہ مشرق وسطی میں کام کرنے والے پاکستانی تھے۔

چونکہ پاکستان سے بڑی تعداد میں سستی اجرت پر کام کرنے والے مزدور خلیجی ممالک میں آ رہے تھے جنھیں لانے اور لے جانے کا تقریباً سارا کام پی آئی اے کرتی تھی جس میں اس کا مقابلہ گلف ایئر سے تھا۔

دبئی کے موجودہ حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم نے دبئی ایئرپورٹ کے لیے اوپن سکائی پالیسی رکھی جس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی بھی ایئرلائن جتنی مرضی چاہے پروازیں دبئی کے لیے چلا سکتی تھی اور اس کا پورا فائدہ پی آئی اے اٹھاتی تھی۔

چونکہ گلف ایئر کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کے لیے اپنی پروازوں میں اضافہ کرے، اسی لیے اس نے پاکستانی حکومت پر اس مقصد کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا جسے پاکستانی حکومت نے پی آئی اے کے تحفظ کے لیے مسترد کر دیا۔

جب گلف ایئر کی دال پاکستانی حکومت کے ساتھ نہیں گلی تو اس نے دبئی کی حکومت پر اس مقصد کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ اپنی اوپن سکائی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے جس سے دبئی کے حکمرانوں نے انکار کیا اگرچہ ابوظہبی کی حکومت گلف ایئر میں 25 فیصد حصص کی مالک تھی۔

جب یہاں بھی بات نہ بنی تو گلف ایئر نے دبئی کی حکومت کو سبق سکھانے کے لیے دبئی کے لیے اپنی پروازوں کی تعداد میں نمایاں کمی کر دی۔ جہاں گلف ایئر دبئی کے لیے ان دنوں ہفتہ وار 84 پروازیں چلاتی تھی وہیں ان میں نصف سے بھی زیادہ پروازیں بند کر کے ہفتہ وارپروازیں 39 کر دی گئیں۔

اس صورتحال میں دبئی کے حکمرانوں کو اپنے فضائی سفر پر انحصار اور کا اندازہ ہوا اور یہ بات بھی ان کی سمجھ میں آئی کہ وہ کتنی جلدی تنہا کیے جا سکتے ہیں۔

اسی دوران خطے کی ایک اور بڑی ایئرلائن ایران ایئر ملک میں آنے والے اسلامی انقلاب کے نتیجے میں اس ساری دوڑ سے باہر ہونا شروع ہو گئی اور میدان صاف دیکھ کر دبئی کے حکمرانوں نے اپنی ایئرلائن شروع کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔

دبئی نیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن

ان دنوں دبئی ایک ریگزار تھا جہاں چند ہوٹل تھے، کوئی بڑے ٹاور یا شاپنگ مال نہیں تھے نہ ہی آج کی خوابوں کی سرزمین کا عشر عشیر تھا۔

دبئی کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کا دنیا سے رابطہ زیادہ تر فضائی تھا جس پر بیرونی ایئرلائنز کا کنٹرول تھا۔ اسی لیے دبئی کے حکمرانوں نے سنگاپور کے نقشِ قدم پر اوپن سکائی پالیسی اپنائی ہوئی تھی کہ جس کا جی چاہے جتنی مرضی پروازیں دبئی کے لیے چلائے۔

اس لیے دنیا کی اکثر ایئرلائنز مشرق اور مغرب کے درمیان اپنی پروازوں کے لیے دبئی رک کر ایندھن بھرتی تھیں۔

اس مقصد کے لیے دبئی کی حکومت نے برٹش ایئرویز کے ساتھ مل کر 1959 میں دبئی نیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن یعنی دناتا قائم کی۔

اسے بہتر بنانے کے لیے دبئی کے موجودہ حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم نے 1978 میں برٹش ایئرویز سے ایک سینیئر اہلکار کا تبادلہ دبئی کرنے کی درخواست کی اور یہ اہلکار کوئی اور نہیں بلکہ ہوابازی کی دنیا کی کایا پلٹنے والی شخصیت مورس فلینگن تھے۔

دناتا کی صورت میں دبئی کی حکومت کے پاس دنیا کی ایک بہترین ٹریول ایجنسی اور گراؤنڈ ہینڈلنگ ایجنسی اور ایک ایسا نظام تھا جس میں اگر ایک ایئرلائن فٹ کر دی جائے تو کام بن جاتا ہے۔

گلف ایئر کی جانب سے اس اقدام کے نتیجے میں ایک بات واضح تھی کہ فضائی سفر کے بغیر دبئی کا وجود بے معنی ہو گا اور دبئی کے پاس محدود آپشنز تھے یا تو وہ گلف ایئر کی ہٹ دھرمی کے آگے ہتھیار ڈالیں یا اپنی ایئرلائن شروع کریں۔

سر مورس فلینگن

مورس فلینگن ایک برطانوی کاروباری شخصیت تھے اور ایوی ایشن کی دنیا کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔

دناتا سے قبل وہ برٹش ایئرویز، برٹش اوورسیز ایئرویز کارپوریشن اور گلف ایئر میں کام کر چکے تھے۔

مورس فلینگن نے لیورپول یونیورسٹی سے فرانسیسی زبان اور تاریخ میں بی اے کیا اور برطانوی فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔

سنہ 1953 میں سر مورس نے برٹش اوورسیز ایئرویز کارپویشن جو بعد میں برٹش ایئرویز بنی میں ایک زیرتربیت انتظامی معاون کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی جس میں رہتے ہوئے ان کا تبادلہ دبئی کیا گیا۔

مورس نے جلد ہی دبئی کے حکمرانوں کا اعتماد حاصل کیا اور جب گلف ایئر والا بحران پیدا ہوا تو شیخ محمد بن راشد نے مورس کو 1984 میں دس افراد کی ایک ٹیم دی جس نے خاموشی سے ایک ایئرلائن کا بزنس پلان تیار کیا۔

اس ٹیم میں ایمرٹس کے موجودہ صدر ٹم کلارک بھی شامل تھے۔

ٹم کلارک اس موقع کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بزنس پلان ہاتھ سے لکھا گیا تھا جس کے دس نکات تھے اور آج بھی میرے دراز کے نچلے حصے میں موجود ہے۔‘

ایمرٹس کی موجودہ سینیئر انتظامیہ کی اکثریت کی تربیت مورس نے کی حتیٰ کہ ایمریٹس گروپ کے چیئرمین شیخ احمد بن سعید المکتوم بھی شامل ہیں جو موجودہ حکمران کے چچا ہیں۔

اس کام کے لیے انھیں ایک کروڑ ڈالر کا سرمایہ فراہم کیا اور دس افراد کی ایک ٹیم دی۔

سر مورس جن کا سنہ 2015 میں انتقال ہو گیا تھا نے ایک بار اس موقع کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا ’جب مجھ سے پوچھا گیا کہ مجھے کتنے پیسے درکار ہوں گے تو میں نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے دس ملین یعنی ایک کروڑ کا کہا جبکہ دوسرے لوگ 40 اور 50 ملین کی باتیں کر رہے تھے۔ دس ایک مناسب، مکتوم کے مطلب کا نمبر تھا۔‘

مورس کی مدد کے لیے ٹیم میں دبئی کے حکمران خاندان سے نوجوان شیخ احمد بن سعید المکتوم کو شامل کیا گیا جو کہ ایئرلائن کے چیئرمین اور سربراہ بنائے گے اور اب تک ہیں۔

شیخ احمد ان دنوں تازہ تازہ ڈینور یونورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ڈگری لے کر آئے تھے اور مورس کی ایمریٹس سے الوداعی ویڈیو میں انھوں نے مورس کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ پہلے شخص تھے جن کے ساتھ میں نے کام کیا۔ میں نے ابتدائی ایک سال سے زیادہ عرصہ ایک ہی دفتر میں ان کے ساتھ بیٹھ کر کام کیا۔‘

پی آئی اے کا تعلق

اس خطے کی جدید اور بڑی ایئرلائنز میں سے ایک پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن تھی اور مورس دناتا کی نسبت سے پی آئی اے اور پاکستان سے واقف تھے اس لیے انھوں نے کراچی کا رخ کیا۔

پی آئی اے نے اس نئی ایئرلائن کو نہ صرف تکنیکی اور انتظامی مدد فراہم کی جس کی مدد سے ایئرلائن کے تصور سے بنیاد ایک سال میں مکمل ہوئی بلکہ پروازوں کے آغاز کے لیے اپنے دو طیارے بھی لیز پر عملے سمیت فراہم کیے جبکہ دو طیارے دبئی ہی کی رائل ایئر ونگ نے اپنے استعمال شدہ بوئنگ سات سو سات طیارے فراہم کیے۔

اس کے بعد پہلی پرواز کی منصوبہ بندی شروع کی گئی جس کے کپتان فضلِ غنی اور فرسٹ آفیسر اعجاز الحق تھے جنھوں نے ایئربس کے طیارے کو اڑا کر دبئی سے کراچی لے کر جانا تھا۔

اس پرواز کے لیے پی آئی اے نے اپنا ایئربس اے تھری ہنڈرڈ طیارہ دیا جو صرف چھ سال پرانا تھا جو 21 اکتوبر سنہ 1985 کو ایمریٹس کے حوالے کیا گیا۔

اگلے تین سال تک یہ طیارہ ایمریٹس کے پاس رہا اور اس کے ساتھ ساتھ پی آئی اے نے اپنا بالکل نیا طیارہ بوئنگ سیون تھری سیون تھری ہنڈرڈ جو اس نے 25 اکتوبر 1985 میں حاصل کیا تھا ایمریٹس کے حوالے کیا یہ بھی دو سال تک ایمریٹس کے زیرِ استعمال رہا۔

سر مورس نے اس بارے میں کہا ’ہم نے پی آئی اے سے دو طیارے لیز پر حاصل کیے اور تین یا چار سال کی مدت میں منافع کما کر ہم اپنے طیارے خریدنے کی پوزیشن میں آچکے تھے۔‘

پہلی پرواز

سر مورس فلینگن کی اہلیہ لیڈی اوڈری فلینگن کہتی ہیں ’ایک دن مورس پرانے انٹرکانٹیننٹل میں جا رہے تھے جو کریک یعنی کھاڑی کے کنارے پر واقع تھا کہ انھیں ہوٹل کی ریسپشن پر بلایا گیا۔ شیخ محمد بن راشد فون پر تھے۔‘

اوڈری کہتی ہیں کہ شیخ نے کہا ’آپ نے کیا کہا تھا کہ اس ایئرلائن کو شروع کرنے کے لیے کون سی تاریخ مناسب رہے گی؟‘

اس کے جواب میں مورس نے کہا ’اکتوبر کی 25 تاریخ جس سے موسم سرما کے شیڈول کی ابتدا ہوتی ہے۔‘

شیخ محمد نے اس پر کہا کہ ہم اسی تاریخ پر آگے بڑھ رہے ہیں یعنی پچیس تاریخ کو ایئرلائن شروع کی جائے گی۔

25 اکتوبر سنہ 1985 کو وہ دن آیا جب دبئی کے شاہی خاندان کے افراد، صحافی اور مسافر دبئی کے ہوائی اڈے پر ایمریٹس کی پہلی پرواز پر سفر کرنے کے لیے پہنچ۔

دبئی کے ہوائی اڈے کے رن وے پر ایمریٹس کے چاروں طیارے ایمرٹس کے شہرہ آفاق رنگوں والی ٹیل کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان میں سے افتتاحی پرواز کے لیے ایئربس اے تھری ہنڈرڈ کو تیار کیا گیا تھا جو پاکستانی رجسٹریشن میں ہی تھا۔

اس پرواز کی تیاری کے لیے ایمریٹس کے فضائی میزبانوں کی تربیت کا کام کراچی میں واقع پی آئی اے کی اکیڈمی میں کیا گیا۔

اس پرواز پر ایمریٹس گروپ کے موجودہ سربراہ احمد بن سعید المکتوم، مورس فلینگن اور چند دوسرے خلیجی رئیس موجود تھے۔

پرواز پر مسافروں کے لیے پی آئی اے ہی کی مدد سے تیار کیا گیا پاکستانی کھانا پیش کیا گیا۔ پرواز کراچی کے پرانے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچی جو موجودہ ہوائی اڈے ہی کا پرانا حصہ ہے اور اب بھی موجود ہے۔

اور پی آئی اے کے عملے نے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور پھولوں کے ہار پہنائے۔

پاکستان سے اکثریتی بین الاقوامی پروازیں کراچی سے جاتی تھیں جہاں پر حکومتِ پاکستان نے اوپن سکائی پالیسی اپنا رکھی تھی جس کا ایمریٹس نے خوب فائدہ اٹھایا اور ایک ایسا وقت بھی تھا کہ ایمریٹس روزانہ صرف کراچی کے لیے سات پروازیں چلاتی تھی جبکہ دو سے چار پروازیں ایمریٹس گروپ ہی کی ایئرلائن فلائی دبئی کی تھیں۔

14 جولائی سنہ1998 میں ایمرٹس نے کراچی کے بعد پشاور جبکہ اگلے ہی سال اسلام آباد اور لاہور کے لیے پروازوں کا آغاز کیا۔

سنہ 2013 میں ایمرٹس نے سیالکوٹ کے لیے پروازیں شروع کیں اور 2015 میں ملتان کے لیے پروازیں شروع کیں مگر 2018 کے اختتام تک یہ بند کر دی گئیں۔

ان دنوں ایمریٹس پاکستان کے لیے 53 پروازیں چلاتی ہے جس سے ملک کے پانچ شہر دبئی اور دنیا کے دوسرے ممالک سے منسلک ہوتے ہیں۔ اور ایمریٹس کے ساتھ اسی کی کمپنی فلائی دبئی اور متحدہ عرب امارات کی ایئرلائنز اتحاد اور ایئر اریبیا بھی پاکستان کے لیے پروازیں چلاتے ہیں۔

پی آئی اے کی بدقسمتی

گلف کے خطے کے لیے مورس فلینگن مسیحا بن کر آیا جس نے اس خطے اور ہوا بازی کی دنیا ہی بدل کر رک دی۔ جہاں ایمریٹس نے گلف کی اجارہ داری کو توڑا وہیں اس کے سابق حصے داروں میں سے قطر، ابو ظہبی اور عمان نے اپنی اپنی ایئرلائنز شروع کیں اور یوں گلف ایئر ان کے سامنے سمٹتے سمٹتے ایک بہت ہی چھوٹی ایئرلائن بن گئی۔

مگر سب سے زیادہ بدقسمتی پی آئی اے کے حصے میں آئی اور پی آئی اے کے برے دنوں کا آغاز ایمریٹس کے اچھے دنوں کے ساتھ ہی ہو گیا۔

1985 کے بعد سے پی آئی اے کے حالات واضح طور پر بگڑتے گئے اورحالت یہاں تک پہنچ گئی کراچی جہاں کی ٹریفک کے لیے گلف ایئر کے ساتھ سارا تنازع کھڑا ہوا تھا وہ پی آئی اے اور گلف دونوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔

جہاں ایمریٹس کی روزانہ سات پروازیں چلتی تھیں وہیں پی آئی اے کی بمشکل ایک پرواز روازنہ چلتی تھی وہ بھی ایمریٹس کی ایک پرواز کے نصف مسافروں کے تعداد کے برابر۔

مسلم لیگ ن کی حکومت خاص طور پر ایمریٹس پر بے انتہا مہربان رہی جس نے بغیر اپنی ایئرلائن اور پاکستانی انڈسٹری کے تحفظ کے معاہدے کیے اور اپنے دوسرے دورِ حکومت میں ایمریٹس کو پشاور، لاہور اور اسلام آباد تک رسائی دی جبکہ دوسرے دورِ حکومت میں ملتان اور سیالکوٹ بھی پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا۔

اب حالت یہ ہے کہ دبئی پاکستان کی کسی بھی ایئرلائن کا منافع بخش یا پسندیدہ روٹ نہیں ہے اور بہت ہیکم تعداد میں پروازیں پاکستان سے دبئی کے لیے چلائی جاتی ہیں اور اس روٹ پر مکمل اجارہ داری ایمریٹس گروپ کی ہے۔ صرف ایمریٹس ان 35 سالوں میں پاکستان سے 28 ملین یعنی دو کروڑ 80 لاکھ مسافر لے جا چکی ہے۔

یوں پی آئی اے کی مدد سے اور اس کے وسائل اور تجربے سے شروع کی جانے والی ایمریٹس نے اس کی اچھائیاں اپنائیں، انہیں بہتر انداز میں تجدید کے ساتھ پیش کیا اور بلآخر اسے اسی کے میدان میں شکست دی۔

پی آئی اے دن بدن دگرگوں ہوتی گئی اور بجائے سیکھنے اور تجدید اور اصلاحات پر عمل کرنے کے بحرانوں کا شکار ہتی رہی۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایمریٹس نے جس انتظامیہ کے ساتھ ایئرلائن شروع کی تھی وہ لوگ آج بھی ایئرلائن چلا رہے ہیں۔

ٹم کلارک جو ابتدائی دس افراد کی ٹیم میں شامل تھے اب ایئرلائن کے صدر ہیں، شیخ احمد بن سعید المکتوم اب بھی ایئرلائن کے سربراہ اور گروپ کے چیئرمین ہیں۔ اس دوران پی آئی اے کے درجنوں کی تعداد میں سربراہ آئے اور گئے اور ان سب کے ساتھ پالیسی بدلتی رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp