اسلحہ لائسنس



انگریز جب ہندوستان آیا تو کروڑوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے کئی کلاسیکل طریقے اپنائے۔ بنگال کے بعد انگریز کو مسلح مزاحمت سے واسطہ موجودہ پاکستان کے علاقے میں پڑا۔ موجودہ کے پی کے اور بلوچستان میں چند وار لارڈز بنائے گئے اور انہیں علاقے پر حکومت کے عوض عوام کو غلام بنانے کا اختیار سونپ دیا گیا۔ ان وار لارڈز کا معاشی مفاد جب انگریز سے وابستہ ہوا تو لاکھوں شہریوں کی خواہشات اور زندگیوں کو کچل کر ایک استحصالی نظام وضع کیا گیا۔

پنجاب اور سندھ میں وار لارڈز بنانا مناسب نہ لگا تو ایک ارسٹو کریسی وضع کی گئی اور عوام سے اسلحہ واپس لے لیا گیا۔ اب صرف چند لوگ ڈپٹی کمشنر کی مرضی سے اسلحہ رکھ سکتے تھے اور بدمعاشی بھی کر سکتے تھے۔ پنجاب اور سندھ میں شریکوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوڑ شروع ہوئی اور انگریز کے زیادہ سے زیادہ وفادار اپنے آپ کو ثابت کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔

بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد بیوروکریسی نے اپنے آپ کو کالے انگریز سمجھ کر وہی نظام رکھنے کی کوشش کی۔ پنجاب اور سندھ میں لاقانونیت کی بڑی وجہ عام آدمی کے لیے اسلحے کا حصول ناممکن ہونا ہے۔ چند سیاسی پارٹیوں کے وفاداروں کو لائسنس جاری کیے جاتے ہیں تاکہ عام آدمی پر ایک بدمعاش طبقہ مسلط کیا جائے

معاملہ سیدھا سا ہے کہ الیکشن میں ایک سیاستدان دس سے بیس کروڑ لگاتا ہے اور ہار جیت کا تناسب پچاس فیصد ہوتا ہے۔ اب سیاست میں کارٹلز بن گئے ہیں جو دو یا تین امیدواروں کو ڈونیٹ کرتے ہیں کسی بھی امیدوار کے جیتنے پر وہ ان کا پیسہ پورا کروانے کا پابند ہوتا ہے۔ رہا ایک عام آدمی وہ اس طبقے سے سوال کرتے ڈرتا ہے کہ ایک صحیح سلامت گلی یا روڈ کو دوبارہ کیوں بنا رہے ہو۔ کیونکہ اگر اس کے گھر حملہ ہوتا ہے تو اس کے گھر یا اس کے محلے میں کوئی اسلحہ موجود نہیں۔

عمران خان کو اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے امریکہ کی طرح اسلحہ رکھنے کا حق کافی چیزیں تبدیل کر دے گا اب وقت ہے کولونیل دور سے باہر نکلنے کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).