ہنی مون پلس مائنس


ہر دور میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اچھے یا برے مگر وقت کا پہیہ نہیں رکتا۔ جب ہماری شادی ہوئی ان دنوں بھٹو صاحب کی سزا پر عمل درآمد کا وقت تھا۔ شادی سے صرف پانچ روز پہلے یہ مرحلہ گزرا تھا اس لیے ہر کوئی ماحول کی سوگواری، فضا کی پژمردگی اور دلوں کی افسردگی کا اندازہ کر سکتا ہے لہذا ہم نے چھٹی کے ایام گھر میں ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔

چند ہفتوں بعد ہماری ملاقات ایک دوست سے ہوئی کہ جن کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ اتفاق سے ان کی شادی ہماری شادی کے اگلے روز ہوئی تھی۔ انہوں نے سیر و تفریح کے لئے نکلنے کا مشورہ دیا۔ طے پایا کہ دو روز بعد ہم مری جانے کے لئے روانہ ہوں گے۔ اس دوران انہوں نے رہائش کا بھی انتظام کر لیا اور یوں ہم عازم ہنی مون ہوئے۔

ہماری رہائش کشمیر پوائنٹ پر واقع ایک ریسٹ ہاؤس میں تھی۔ اچھا محل وقوع بہترین ہاؤس کیپنگ کے علاوہ تازہ اور لذیذ کھانے کی وجہ سے ریسٹ ہاؤس اپنا گھر لگنے لگا۔ مگر گھر سے متعلقہ مصروفیات سے آزاد، مہمانوں سے ملنے یا کسی کے ہاں مدعو ہونے کے لئے وقت نکالنے کی پابندی سے بے نیاز اور بنا کسی دخل اندازی کے مرضی سے سوئیں، جاگیں یا باہر گھومیں مکمل آزادی، پرائیویسی اور ذمہ داریوں سے مبرا ماحول میں زندگی کے ایک نئے فیز کی ابتدا کرنے کو ہی شاید ہنی مون کا نام دیا گیا ہے۔

مگر ایسا کیوں کہا جاتا ہے جبکہ اس سے نہ تو ہنی کا تعلق ہے اور نہ ہی مون کا کوئی واسطہ اور نہ ہی ایسے میں کسی کے پاس اس فالتو سوچ بچار کے لئے وقت ہوتا ہے۔ گرمیوں کے دنوں میں مری میں کچھ وقت گزر جائے تو ہر حال میں اچھا ہی لگتا ہے۔ ہم ناشتہ کرنے کے بعد کسی ایک سمت میں نکل جاتے اور دوپہر کے کھانے تک ریسٹ ہاؤس واپس پہنچتے۔ کھانے کے بعد اپنے کمروں میں جا کر آرام کرتے۔ شام کی چائے پر پھر اکٹھے ہوتے اور رات کے کھانے تک ریسٹ ہاؤس میں ہی وقت گزارتے۔ کھانے کے بعد واک کے لئے نکلتے مگر خنکی اور اندھیرا جلد واپسی کا سبب بنتا۔ مال روڈ پر رونق ہوتی تھی مگر گہما گہمی اور روشنیوں کی چکا چوند سے اجتناب کرتے۔

دن کے وقت ہم سیر کے لیے ہر روز کسی نئی سمت میں نکل جاتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گرمیوں میں مری کا درجہ حرارت نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ سر شام خنکی آ گھیرتی ہے اور آپ مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہلکا پھلکا سردیوں کا پہناوا پہن لیں اور اگر بارش ہو جائے تو باقاعدہ سرد موسم کا سماں ہوتا ہے۔ مری میں بارش سے قبل بادل چھا جانے کا تکلف نہیں کرتے بلکہ سیدھا زمین تک در آتے اور سڑک پر چلتے آپ کے ہم رکاب ہو جاتے ہیں دھند کی آمیزش سے آپ کے سامنے یوں رقصاں ہوتے ہیں کہ چند قدم آگے سے زیادہ آپ کی نظر بندی کا اہتمام کرتے ہوئے آپ کو خود میں سمو لیتے ہیں۔ مری کی اونچائی تقریباً ساڑھے سات ہزار فٹ ہے جو کچھ زیادہ نہیں مگر ایام گرما گزارنے کے لئے ایک پر کشش مقام ہے اسی لئے تاج برطانیہ کی حکمرانی میں یہ پنجاب گورنمنٹ کا سمر ہیڈ کوارٹر ہوا کرتا تھا جو کہ 1876 تک رہا اور بعد میں شملہ شفٹ ہو گیا۔

مری کی مال روڈ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور سیاحوں کے لئے کشش کا باعث بھی۔ 1853 میں مری کی ڈیویلپمنٹ شروع ہوئی تو سب سے پہلے اس سڑک کو بنایا گیا۔ کاروبار کا بڑا مرکز ہونے کے علاوہ یہاں ریستوران اور ہوٹل بھی واقع ہیں۔ سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سوغات یہیں سے مل جاتی ہے۔ عام طور پر لوگ پنڈی پوائنٹ، کشمیر پوائنٹ اور مال روڈ پر ہی جاتے ہیں مگر آبادی سے نکل کر گلیات میں اچھا پر فضا ماحول ملتا ہے۔ ان پوائنٹس پر یا گھڑیال کی طرف ایسی جگہیں ہیں جہاں سے دور پہاڑ اور درمیان کی سر سبز وادیاں مسحور کن نظارہ پیش کرتے ہیں۔

ایک اور اچھی جگہ کلفڈن کا ایریا ہے جہاں بہت کم لوگ جاتے ہیں۔ خاص طور پر کلفڈن روڈ پر واقع مسیحی قبرستان ایک دفعہ تو دیکھا جانا چاہیے۔ میں نصف صدی پہلے وہاں گیا تھا اس وقت تک وہاں بہت اچھی مینٹیننس تھی۔ صاف ستھرا وسیع قبرستان جس کی لمبائی کے رخ درمیان میں خوبصورت سیڑھیاں نیچے اترتی ہیں جہاں ایک اور اسی سائز کا قبرستان اور اس کے نیچے ایک اور۔ اسی طرح سات مختلف لیولز/ٹیریسیز پر مشتمل یہ قبرستان ایک وزٹنگ پلیس کی حیثیت رکھتا ہے ہتھ رکشہ کا ذکر کیے بغیر مری کا ذکر ادھورا لگے گا۔

جی ہاں اس رکشہ کو انسان کھینچتے تھے۔ یہ پالکی کی ایڈوانس شکل تھی۔ فرق یہ کہ پالکی کو کندھوں پر اٹھایا جاتا جب کہ رکشہ میں پہیوں کا استعمال کرتے ہوئے مشقت میں قدرے کمی آ گئی مگر مری کے اونچے نیچے راستوں پر اسے چلانا بھی محال تھا۔ یہ دو لوگوں کے بیٹھنے کی سیٹ پر مشتمل ہوتا جس کے نیچے دو پہیے اور آگے دو بانس لگے ہوتے۔ بانسوں کے آگے کے سرے ایک متوازی ہینڈل کے ساتھ جڑے ہوتے۔ سیٹ کے پیچھے بھی لکڑی کا ایک متوازی ہینڈل لگا ہوتا۔

اس رکشہ کو کھینچنے کے لئے پانچ لوگ درکار ہوتے۔ دو آگے اور تین پیچھے۔ چڑھائی پر آگے سے کھینچا جاتا اور پیچھے سے دھکا لگایا جاتا۔ ڈھلوان پر پیچھے سے کھینچا جاتا اور آگے سے بھی کنٹرول میں رکھا جاتا۔ رکشہ اچھا سجا ہوا ہوتا اور عام طور پر نو بیاہتا جوڑے اس سواری سے لطف اندوز ہوتے۔ میں نے پہلی دفعہ یہ سواری دیکھی تو اچھا نہ لگا کہ ایک انسان کو اس جیسے پانچ لوگ کھینچ رہے ہوں۔ ساٹھ کی دہائی کے اوائل تک یہ سواری موجود رہی۔ کئی دفعہ زیادہ ڈھلوان کے سبب کھینچنے والے قابو نہ رکھ سکے اور جان لیوا حادثات ہوئے جس کی وجہ سے اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔

مری میں قیام کے دوران ہی ایک روز نتھیا گلی کا پروگرام بنا۔ اونچائی کے اعتبار سے نتھیا گلی مری سے صرف 400 فٹ زیادہ ہے مگر سرد تر مقام۔ مری کی نسبت پر سکون اور نظارے حسین تر۔

نتھیا گلی سے واپسی پر گھر والوں سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ جنرل ہیڈ کوارٹرز سے لیٹر آیا ہے کہ میں دو روز بعد ٹرانزٹ کیمپ کراچی رپورٹ کروں اس لئے اگلے روز راولپنڈی واپس آ گئے۔ دراصل میری نائجیرین آرمی میں سیکانڈمنٹ کا پروسیجر کچھ عرصہ سے چل رہا تھا اور یہ فائنل کال تھی۔ ہماری روانگی میں صرف چوبیس گھنٹے تھے اس لئے تیاری میں مصروف ہو گئے۔

اگلے روز ہم شام سے پہلے کراچی پہنچے۔ ٹرانزٹ کیمپ میں ضروری کارروائی کرنے کے بعد ہوٹل پہنچے جہاں ہم پی آئی اے کے مہمان تھے۔ اگلی صبح نائجیریا ائرویز سے ہماری لاگوس کے لئے فلائٹ تھی۔ صبح ائرپورٹ پہنچے چیک ان کاؤنٹر پر بھیڑ تھی۔ فلائٹ کینسل ہو چکی تھی اور مسافروں کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا تھا۔ انتظار کرنے کا کہا گیا اور ہم بیٹھ گئے۔ فلائٹ کیوں کینسل ہوئی کوئی نہ جانتا تھا بس جتنے منہ اتنی باتیں۔

دو ڈھائی گھنٹے کے انتظار کے بعد معلوم ہوا کہ ہم ڈی سی 10 جہاز پر سفر کرنے والے تھے اور ماضی میں ہونے والے حادثات کے سبب تمام دنیا میں یہ جہاز اس روز سے گراؤنڈ کر دیے گئے تھے اور ہمارے لئے متبادل فلائٹ کا انتظام کیا گیا جو پانچ روز بعد تھی۔ ہمیں بیچ لگژری ہوٹل میں ڈراپ کر دیا گیا جہاں ہم تین روز کے لئے نائجیریا ائرویز کے مہمان تھے اور دو روز ایجپٹ ایر کے۔ اب ہماری فلائٹ قاہرہ تک تھی پھر وہاں سے لاگوس کے لئے اگلی فلائٹ پر سوار ہونا تھا۔

ہمیں بھی منزل پر پہنچنے کی جلدی نہ تھی بلکہ اس کو ہنی مون کا تسلسل ہی سمجھا جس میں ایک دن کا خلل آ گیا تھا۔ ان دنوں کراچی میں اواری ٹاور اور شیریٹن وغیرہ ابھی نہیں بنے تھے اور بیچ لگژری اور انٹر کانٹینینٹل ( موجودہ پی سی) ہی نامور ہوٹل ہوا کرتے تھے۔ نائجیریا جانے والے ہم سات افسر تھے ایک کرنل، ایک لیفٹیننٹ کرنل اور پانچ کپتان۔ کھانے پر تقریباً سب سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ ان میں سے دو کو میں پہلے سے جانتا تھا۔

کیپٹن عظمت بٹر ہم سے ایک سال جونیئر رازی ہال میں ہوتے تھے اور کیپٹن عبدالکریم بھی دوستوں میں سے تھے۔ سوائے عظمت بٹر کے سب فیمیلیز کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ کیپٹن عبدالکریم کی بھی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہماری بیگمات پہلی بار کراچی آئیں تھیں اس لیے ہر روز ہم کسی تفریح گاہ پر پہنچ جاتے۔ تفریح سے زیادہ دھیان ہماری بیگمات کو باورچی خانے میں استعمال کی چیزوں کا تھا جسے وقت کی کمی کے باعث نہیں خرید سکے تھے لہذا توا چمٹا اور ہاون دستہ وغیرہ بھی خرید لئے گئے۔ کراچی کا قیام بھر پور رہا جہاں سمندر، تفریح گاہیں، بازار اور موسم سے خوب لطف اندوز ہوتے رہے حتی کہ ہمارا قاہرہ کے لئے روانگی کا وقت آ پہنچا۔

قاہرہ کی فلائٹ تقریباً چھ گھنٹے کی تھی جو خوشگوار رہی۔ آن بورڈ سروس اور ایجپٹ ایر کی مہمان نوازی انتہائی متاثر کن تھی سچ کہوں تو اس سے بہتر تجربہ پھر کبھی کسی اور ایر لائن میں نہ ہوا۔ ہمیں کراچی سے ہی معلوم تھا کہ قاہرہ سے لاگوس کے لئے فلائٹ تقریباً 36 گھنٹے بعد شیڈولڈ تھی لہذا ہمیں بے تابی سے قاہرہ پہنچنے کا انتظار تھا۔ نصاب کی ایک کتاب میں اہرام مصر کے بارہ میں پڑھ رکھا تھا جب سے انہیں دیکھنے کی تمنا تھی مگر کبھی یقین نہیں ہوا کہ دیکھ پاؤں گا۔ قاہرہ پہنچنے پر ہمیں جہاں ٹھہرایا گیا وہ ہوٹل ائرپورٹ کی عمارت کے اندر ہی تھا۔ ہمارے انچارج کرنل صاحب نے شہر جانے کا پروگرام بنایا اور کہا کہ فریش ہو کر آ جائیں۔ کچھ دیر بعد ہم پھر اکٹھے ہو گئے۔ شہر جانے کے لئے پرمٹ ملے اور ہم کوسٹر میں بیٹھ کر روانہ ہوئے۔

دریائے نیل کے دونوں اطراف پھیلا ہوا قاہرہ تقریباً ایک ہزار سال پرانا گنجان آباد اور دلچسپ شہر ہے۔ کچھ دیر بعد ہماری گاڑی ایک بارونق جگہ پر رکی۔ یہ شہر کے وسط میں واقع تحریر سکوائر ہے جس کے ایک کونے پر ایک پر شکوہ عمارت میں شاندار عجائب گھر ہے۔ عمارت کی وسعت اس کو مزید پر کشش بناتی ہے۔ اس کشادہ عمارت کے دونوں فلورز میں رکھے گئے نوادرات ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ یہ نوادرات تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پرانے ہیں جس میں اس زمانے کے حکمرانوں کے بتوں سے لے کر کھانے کی اشیاء تک اور ذاتی استعمال کی چیزوں سے لے کر تابوتوں تک ہر چیز دیکھنے کو ملتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک علیحدہ کمرے میں فراعنہ کی ممیز بھی رکھی گئی ہیں جس کا علیحدہ سے ٹکٹ مقرر ہے۔ تین ممیز میں سے ایک ریمسیس دوئم، دوسری سیٹی اول کی جو کہ ریمسیس دوئم کا باپ تھا اور تیسری ممی اس زمانے کی ایک ملکہ کی ہے جس کا نام ہیٹشپیٹ تھا۔ حنوط شدہ انسانی جسم جن کے ہاتھ سینے پر بندھے کپڑے کی پٹیوں میں لپٹے ہوئے صدیوں سے نشان عبرت بنے پڑے تھے اور تا قیامت پڑے رہیں گے جو آج کے اور آنے والے زمانے کے متکبر لوگوں کے لئے درس عبرت بھی ہے اور اللہ کی پکڑ کا عین الیقین ہونے کا ثبوت بھی۔

عجائب گھر سے نکلنے کے بعد گاڑی خوبصورت راستے سے ہوتی ہوئی ایک پل تک پہنچی جس پر سے گزر کر ہم نے دریائے نیل کو عبور کیا اور اب ہم گزا کی طرف جا رہے تھے جہاں پر اہرام واقع ہیں۔ اہرام کو دیکھنے کے لئے سب ہی پر جوش تھے۔ کچھ دیر میں ہم وہاں پہنچ گئے۔ اہرام کا شمار تو آثار قدیمہ میں ہوتا ہے مگر آج بھی یہ روز اول کی طرح اسی شان و شوکت، تمکنت اور تفاخر کے ساتھ کھڑے ہیں جیسے صدیوں پہلے تھے۔ تین اہرام جو زیادہ بڑے ہیں وہاں سیاحوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔

اپنی اونچائی کی وجہ سے 3800 سال تک ان کا شمار دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں ہوتا رہا۔ بڑا ہرم جو خوفو بادشاہ نے بنوایا تھا کی اونچائی 581 فٹ ہے۔ دوسرا ہرم اس کے بیٹے خافرے کا ہے جو 560 فٹ اونچا ہے۔ اس کے اندر جانے کے لئے دو راستے ہیں۔ راستہ تاریک اور کم اونچائی کا ہے۔ ٹارچ کی مدد سے جھک کر ہم ڈھلوان سرنگ میں چلتے ہوئے ایسی جگہ پہنچے جہاں سے آگے کا راستہ چڑھائی والا تھا جو آگے ایک چیمبر میں کھلتا ہے جہاں بادشاہ کی تدفین کی جگہ ہے۔ اہرام کی تعمیر کا سوچ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ساڑھے چار ہزار سال پہلے کے محدود وسائل کے ساتھ اتنا بلند و بالا سٹرکچر تعمیر کرنا کتنا دشوار کام تھا جب کہ تعمیر میں استعمال ہونے والے قد آدم پتھر 500 میل دور اسوان سے لاے گئے تھے۔

اہرام کی جاذببیت اور اس ماحول میں محویت سیاحوں پر ایک سحر طاری کر دیتی ہے کہ دیکھنے والا ہزاروں سال پرانی تہذیب میں پہنچ جاتا ہے۔ شاید اسی قسم کے جذبات سے مغلوب ہو کر مصر کے سابق صدر عبدالجمال ناصر نے کہا تھا کہ ہمیں فراعنہ کی اولاد ہونے میں فخر ہے اور اس بیان سے عالم اسلام میں کھلبلی مچ گئی تھی۔

اہرام کے قرب میں ہی ابولہول واقع ہے۔ یہ ایک انسانی شکل اور شیر کے دھڑ والا عظیم الجثہ مجسمہ ہے جو کہ 240 فٹ لمبا اور 60 فٹ اونچا ہے۔ رات کے وقت یہاں ایک دلچسپ شو کا اہتمام ہوتا ہے جس میں آواز اور روشنیوں کی مدد سے پرانی تہذیب کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔

اگلے روز ہم لاگوس کے لئے روانہ ہوئے جو کہ ان دنوں نائجیریا کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ یہ پانچ گھنٹے کی فلائٹ تھی۔ ایجپٹ ائر کی روایتی مہمان نوازی سے محظوظ ہوتے رہے۔ لاگوس ائر پورٹ تین مہینے پہلے ہی نیا بنا تھا، جدید ترین سہولتوں سے آراستہ اور انتہائی متاثر کن۔ اس کا نام سابق مقتول فوجی حکمران جو کہ عوام میں بہت مقبول تھا، کے نام پر مرطلہ محمد انٹر نیشنل ائرپورٹ رکھا گیا تھا۔ ضروری کارروائی کے بعد ہم ائرپورٹ سے باہر نکلے جہاں ایک افسر بمع ٹرانسپورٹ کے ہمیں لینے کے لئے موجود تھا۔

ہم گاڑی میں بیٹھے ایک ہوٹل میں پہنچے جہاں ہمیں قیام کرنا تھا۔ اس ہوٹل میں ہمارا قیام مہینہ بھر رہا۔ اس دوران ہماری ڈاکومینٹیشن ہوئی، بنک اکاؤنٹ کھلوایا اور آخری ایک ہفتہ تو پوسٹنگ کے انتظار میں گزرا۔ لاگوس میں قیام کا دورانیہ خوشگوار رہا۔ ڈاکومینٹیشن کے لئے دو گھنٹے کے لئے کچھ مصروفیت ہوتی باقی وقت سیر و تفریح یا شاپنگ میں گزر جاتا۔ اسی دوران ڈاکٹر شاہد عباس سے بھی ملاقات ہوئی جو نشتر میں ہم سے ایک کلاس جونئر تھے۔ ان سے مل کر انتہائی خوشی ہوئی۔ نشتر والوں کا آپس میں رشتہ ہی ایسا ہے، خاص طور پر دیار غیر میں اگر دو نشترین مل جائیں تو وہاں کی مٹی میں بھی اپنے دیس کی مہک محسوس ہونے لگتی ہے۔

ہم سب کو پوسٹنگ کا بے تابی سے انتظار تھا اور پھر یہ طلسم بھی ٹوٹا اور سب موومنٹ آرڈر اور ایر ٹکٹ لئے لاگوس سے روانہ ہوئے۔ میری پوسٹنگ پلیٹو سٹیٹ کے دارالحکومت جاس میں ہوئی تھی۔ جاس چار ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ایک خوبصورت شہر ہے جہاں موسم سال بھر خوشگوار رہتا نہ گرمی کا احساس اور نہ بھاری بھرکم پہناووں کی ضرورت۔ پورے ملک میں اسے تفریحی مقام کی حیثیت حاصل تھی۔

یونٹ میں جائننگ دی تو انہوں نے ہر طرح سے خیال رکھا البتہ فیملی اکوموڈیشن فی الوقت میسر نہیں تھی اس لئے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اور ہم نے اس کو بھی ہنی مون کا تسلسل ہی سمجھا۔ شہر کے ہجوم سے ذرا ہٹ کے پلیٹو ہوٹل قدرے بلند مقام پر واقع تھا۔ ایک عمارت کی بجائے کھلی جگہ پر بنے ہوئے کمرے اور ہر کمرے کے درمیان کچھ فاصلہ تھا۔ درمیان میں راستے اس طرح بنے ہوئے تھے کہ ہر کمرے تک گاڑی پہنچ سکے۔ ہوٹل کی نئی فرنشنگ ہونے والی تھی اور نمونے کے طور پر ایک کمرہ تیار کیا گیا تھا جس میں انہوں نے غیر ملکی مہمان ہونے کے ناتے ہمیں ٹھہرایا۔ ناشتہ کمرے میں منگوا لیتے اور دونوں وقت کا کھانا ہوٹل کے بڑے ڈائنگ ہال میں بوفے ہوتا تھا۔ یہاں ہمارا قیام ڈھائی مہینے رہا جو کہ ہمہ وقت تفریح تھی۔ البتہ مائنس پوائنٹ یہ تھا کہ صبح آٹھ بجے مجھے لینے گاڑی پہنچ جاتی تھی اور دو بجے واپس ڈراپ کر جاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).