واقعہ معراج ایک نیا تناظر


لفظ آسمان جس کو عربی میں سماء کہتے ہیں اس کا لغوی مطلب ہے چرخی جیسا گھومنے والا۔ دوسرا لفظ فلک استعمال ہوتا ہے اس کا مطلب بھی گول یا مدار یعنی گھومنے والا ہے۔ اس سے مراد نظام شمسی بھی ہے اور گیلیکسی بھی۔

واقعہ معراج میں ہم یہ دیکھتے ہیں سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختلف صرف مسلمانوں کی طرف سفر کیا اور مختلف انبیاء کرام علیہم السلام اجمعین سے ملاقات فرمائی۔

جدید فزکس کا نظریہ متوازی کائنات ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مختلف متوازی کائناتیں موجود ہیں جو ایک ساتھ چل رہی ہیں۔ اور ہم ان کائناتوں کے درمیان سفر بھی کر سکتے ہیں اس کے لئے ہمیں ورم ہول کی ضرورت ہے۔ متوازی کائناتوں کا اپنا الگ الگ سپیس ٹائم پیراڈائم ہوتا ہے یہ عین ممکن ہے کہ کوئی کائنات ہم سے کئی ہزار سال پیچھے ہو اور کوئی کائنات ہم سے کئی ہزار سال آگے ہو۔ اس کے علاوہ بلیک ہول ایک بہت دلچسپ چیز ہے جس کے اندر وقت کا کوئی تصور نہیں یعنی اس کے اندر وقت بالکل ختم ہو جاتا ہے۔

جدید زمانی و مکانی تناظر میں واقعہ معراج کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ سرکار ﷺ نے مختلف کائنات طویل کہکشاں کا سفر کیا۔ لفظ فلک اور آسمان کا مطلب بھی یہی ہے۔ ہمارے وقت کے مطابق جو انبیاء کرام یہاں سے پردہ فرما چکے تھے ان کے ساتھ معراج کے موقع پر ملاقات فرمانا اس لئے عین ممکن ہے کیونکہ وہ دوسری کائنات کے ایک الگ اسپیس ٹائم پیراڈائم میں موجود ہیں۔

اسٹیفن ہاکنگ کا یہ کہنا ہے کہ ہم ماضی کا سفر بھی کر سکتے ہیں اور ماضی میں ہونے والے کسی واقعے کو تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ گویا ہم وقت کو پیچھے بھی لے کر جا سکتے ہیں۔ آئن سٹائن کے وقت کے تصور کے مطابق سپیس ٹائم کی ایک پیچیدہ مستطیل بنتی ہے جس کو ہم ترچھا یعنی 45 ڈگری پر بھی کاٹ سکتے ہیں۔ یہ بات ویسے کالم میں سمجھا ممکن نہیں اس کے لیے ایک ڈائگرام اور اینیمیشن کی ضرورت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ہی وقت میں ماضی حال مستقبل کو کو اکٹھا دیکھ سکتے ہیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ پوری آف ریلیٹیوٹی کو کو معراج کے تناظر میں بیان کیا جاتا ہے جو کہ بالکل غلط ہے اس دوری سے واقعہ معراج کی نفی ہوتی ہے۔ واقعہ معراج ریلٹیوٹی کا بالکل الٹ تھا۔ سر یہ لٹی کے مطابق زمین پر وقت وقت ویسا ہی رہے گا جبکہ خلا میں سفر کرنے سے وقت کم گزرے گا۔ جبکہ واقعہ معراج کی صورت میں زمین پر بہت قلیل وقت گزرا اور خلا میں بہت زیادہ وقت گزرا۔ یعنی کائناتوں کے درمیان سفر ہوتا رہا اور وہ کافی زیادہ وقت تھا مگر زمین پر چند لمحے ہی بسر ہوئے۔

یہ بنیادی طور پر روشنی کی رفتار ظرب روشنی کی رفتار ہے یعنی ڈبل رفتار۔

سائنس کے مطابق اگر روشنی کی رفتار سے دوگنا سفر کیا جائے تو وقت پیچھے چل پڑتا ہے۔ صرف اسی صورت میں میں اس وقت کی تشریح کی جا سکتی ہے جو معراج کے سفر میں گزرا۔

معراج میں حضور پاک ﷺ کی سواری براق تھا براق، برق کی جمع ہے یعنی بجلی ضرب بجلی۔ روشنی ضرب روشنی۔

مختصر بات یہ ہے کہ کائناتوں کے درمیان سفر کرنے کے لئے لئے اور وقت کو روکنے کے لیے یا اس میں آگے جانے کے لیے ہمیں صرف اور صرف انرجی کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس کوئی حل بھی موجود نہیں مگر کائنات کا خالق و مالک جو کہ تمام تر طاقت و قوت کا منبع ہے اس کے لیے ایسا کرنا کیونکر مشکل ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).