پی آئی اے کا مزیدار ناشتہ اور قبولیت دعا


اب یہ تو ہمارے لئے معمول کی بات تھی کہ جب ہم فیصل آباد سے اپنی موٹر پارٹس کی دکان کے لئے خریداری کرنے کراچی میں بندر روڈ ( اب ایم اے جناح روڈ ) پلازا سکوائر کی گلیوں میں واقع ہول سیل مارکیٹ جاتے۔ تو مختلف شہروں سے آئے دکانداروں سے ملاقات ہو جاتی۔ ساٹھ کی دہائی میں اکثر دکاندار انہی گلیوں میں اوپر فلیٹوں میں رہائش پذیر تھے۔ دوپہر دو گھنٹہ دکانیں بند کر کھانا گھر جا کھاتے۔ اور اکثر کوئی نہ کوئی ان دوسرے شہروں سے چار پانچ دکانداروں کو دعوت دیتا اور یوں دوستیاں بھی بنتیں اور گپ شپ بھی چلتی۔ کچھ رشتہ داریاں بھی بنیں۔ کبھی چھٹی والے روز کسی سیر سپاٹا کا پروگرام بھی بن جاتا۔ ہم نے کالج ٹور کے ساتھ پہلی مرتبہ انیس سو اٹھاون میں کراچی کی سیر کی تھی۔ بعد میں انہی دوستوں کی نوازش رہی۔ عمروں کا فرق اس میں حائل نہ ہوتا۔

انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے چند ماہ بعد ایسا اتفاق ہوا کہ ہم وہاں گئے تو ہمارے ہمسائے مولوی صاحب بھی تھے سرگودھا سے غفور پراچہ بھی اور لاہور سے عبدالرحمان بھی ایک دوست کوئٹہ کے بھی۔ اتفاقاً ہمارا چاروں کا ہفتہ کے روز پی آئی اے کی نائٹ کوچ سے لاہور واپس جا کر اپنے شہروں میں جانے کا پروگرام دوپہر کھانا شیخ اکرم صاحب کے ہاں کھاتے بنا۔ شیخ اکرم صاحب کے بڑے بھائی شیخ انور صاحب بھی جو پاکستان نیوی میں تھے موجود تھے۔

فرمایا کیوں نہ آپ سب اتوار کا پروگرام بنائیں میں آپ کو اتوار دوپہر اپنا بحری جنگی جہاز اندر سے پھرا سکتا ہوں۔ ہمیں اور کیا چاہیے تھا۔ وہ شاید جہانگیر یا عالمگیر نامی جہاز (جو اکہتر کی جنگ میں دشمن کے تارپیڈو سے ضائع ہو گیا تھا) پر مامور تھے۔ اکرم صاحب اور ایک اور دکاندار کراچی کے بھی لاہور ہمارے ہمراہ ہی جانے پر تیار ہو گئے تھے۔

اگلی دوپہر نیوی کے ڈاک یارڈ میں لنگر انداز پاکستان کے اس مایۂ ناز چند ماہ قبل کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے جنگی بحری جہاز کے تقریباً ہر شعبے کی جہاں تک اجازت تھی انور صاحب کی رہنمائی اور کمینٹری کے ساتھ دیکھنا ہم سب کے لئے ایک حیران کن دلچسپ اور اب تک یادگار واقعہ ہے۔

پی آئی اے کی نائٹ کوچ آج کل کی ”بجٹ فلائٹس“ کی طرح رات کے وقت کم کرایہ اور وقت کی بچت کے فوائد ہم درمیانہ درجہ کے کاروباری افراد کے لئے تحفہ تھا۔ لاہور سے رات نو بجے کراچی کے لئے نکلتی اور گیارہ بجے کے قریب واپس روانہ ہوتی یک طرفہ کرایہ ”آج کل کی ایک کلو چینی۔“ یعنی مبلغ ایک صد روپیہ تھا مگر رستے میں جہاز چڑھتے اوراترتے وقت ایک ایک ٹافی یا گولی کے علاوہ سادہ پانی کبھی مل جاتا۔ باقاعدہ پرواز کا کراچی لاہور یا کراچی لائل پور (بعد میں فیصل آباد) ایک سو انتالیس روپے لگتے (انیس سو تریسٹھ جون کے آخری ہفتہ جب بڑے بھائی کو شکاگو جاتے چھوڑنے ساتھ گیا تو خصوصی ڈیل لائل پور کراچی لائلپور واپسی ایک سو اکیانوے روپے کی ملی تھی) جس میں وقت کے لحاظ سے مزیدار کھانا یا ناشتہ اور چائے بسکٹ بھی پیش کیے جاتے۔ ٹکٹ عموماً ایک دن قبل بھی مل جاتا جو پی آئی اے کے دفتر جا کر خود لانا پڑتا۔ ٹریول ایجنٹ کا زمانہ ابھی اتنا معروف نہ تھا۔

کوئی ایک گھنٹہ دیر سے چلنے والی پرواز اڑی تو اپنے پہلے ہوائی سفر کا ذکر شروع ہو گیا۔ بتایا کہ لائل پور ہوائی اڈہ انیس سو باسٹھ میں صرف ایک رن وے بنا آپریشنل کر دیا گیا تھا۔ دو تین ماہ بعد ہم نے بھی محض ہوائی جہاز کی سیر کے لئے ملتان جانے کی ٹھانی۔ کہ نصف گھنٹہ کی پرواز کوئی گیارہ بجے دن ملتان پہنچتی اور تین بجے بعد دوپہر ملتان سے شاہین ایکسپریس فیصل آباد کے لئے گزرتی۔ مبلغ چھبیس روپے کے ٹکٹ میں پی آئی اے دفتر سے لے ائر پورٹ تک بس بھی شامل تھی۔ نکلنے کو تیار تھے کہ بھائی کے دوست چوہدری نور محمد ٹرانسپورٹر نے ہدایت فرمائی کہ بھائی جہاز میں سوار ہونے سے پہلے واش روم کا استعمال تسلی سے کر لینا۔ نصف گھنٹہ کی فلائٹ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ وقت اس میں گزر جائے اور جہاز کی سیر حسرت بن جائے۔ یہ نصیحت ہماری پہلی پرواز کی یاد اب تک تازہ رکھے ہوئے ہے۔

مولوی صاحب کہ کچھ بھوک محسوس کر رہے تھے بولے کہ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ کہ ایک گھنٹہ لیٹ ہونے کے با وجود نہ چائے نہ بسکٹ صرف ایک ٹافی۔ خدا کرے انہیں عقل آ جائے کوئی مزے کا ناشتہ مل جائے۔ نصف سے کچھ زائد سفر گزر چکا اور سب گپ شب میں مصروف تھے کہ پائلٹ نے پہلے انگریزی اور بعد میں اردو میں اعلان کیا توجہ سے سن کر دوستوں کو چپ کرایا اور کہا ”مولوی صاحب۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ دعا قبول ہوئی۔ اور اب شاید پی آئی اے والے ناشتہ بھی آپ کو کروا ہی دیں۔“ کیسے؟ ”عرض کیا کہ جناب اعلان ہوا ہے کہ لاہور کا موسم تیز آندھی اور طوفانی بارش کے باعث بہت خراب ہے لہذا پرواز ملتان ائر پورٹ پر اتر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اب کچھ گھنٹے وہاں گزاریں گے تو ناشتہ تو ملے گا نا۔

تھوڑی دیر بعد ہم ملتان ائر پورٹ پر اتر ٹرمینل بلڈنگ کی سب روشنیاں بند دیکھ رہے تھے۔ کہ دن میں شاید ایک آدھی پرواز آتی جاتی۔ ہدایت ہوئی کہ باہر لان وغیرہ میں انتظار فرمائیے کہ کسی انتظامیہ کے بندے سے رابطہ ہو۔ اب زمانہ خال خال لینڈ لائن کے فون کا۔ ادھر دن کی تھکاوٹ اور نیند۔ گھاس والے لان پہ جا بسیرا کیا اور وہاں کہ ملتان تھا۔ اور

۔ چہار چیز است تحفۂ ملتان
گرد گرما گدا و گورستان
اور ہمیں یوں لگ رہا تھا
ملتان شہر کا حبس ہے اور مچھر ہیں دوستو۔
گھاس میں بھی کنکر اور پتھر ہیں دوستو

بیٹھنے سے اونگھتے گرتے۔ لیٹتے تو گھاس کے کنکر کی چھبن اور، مچھر کے ڈنک میں امتیاز مشکل۔ رن وے پہ لیٹے تو گرم۔ اور تپش اور حبس۔ اور کوئی ہوا کا جھونکا تو گرد پسینہ بھرے جسم سے چمٹتی۔

بس۔ مچھر لڑے ہوئے ہیں اور کنکر چھبے ہوئے ہیں
مقتل کا کھچ رہا ہے منظر تری گلی میں۔

کی حالت میں مولوی صاحب کو متوقع ناشتہ کی لذت یاد دلاتے اور ہاتھوں سے مچھر مارتے اپنے ہی جسموں پر دھپ چھپ کرتے کوئی تین چار گھنٹے گزرے کہ پی آئی اے کا عملہ آنا شروع ہوا۔ ٹرمینل کی بلڈنگ کھلی۔ واش روم میں جا کر اپنے مچھر کٹے اور کنکر چبھے سوجے جسم دیکھتے منہ ہاتھ دھوتے باہر نکلے تو تو دو کوچز باہر آ چکی تھیں اور گھنٹہ بھر بعد ہم ملتان کے گلڈ ہوٹل میں انواع و اقسام کا انڈا پراٹھا ٹوسٹ جام مکھن پھل جوس چائے سیریل وغیرہ سے بھر پور ناشتہ کرتے مولوی صاحب سے پوچھتے بھی جاتے۔ مل گیا نا ناشتہ؟ اورپھر ان کی دعا کی قبولیت کا شکریہ بھی۔ اور مچھروں کی سوئیوں کی تکلیف کو پی آئی اے کی اس باکمال پرواز کے بعد لاجواب لوگوں کے پیش کردہ اشتہا انگیز ناشتہ سے پیٹ بھرنے کی راحت میں تبدیل کرتے کراچی سے سوار ہونے کے کوئی بارہ گھنٹہ بعد لاہور ائر پورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).