کوئٹہ سفرنامہ: ہنہ جھیل، اڑک اور ولی تنگی ڈیم


کوہ مردار پر ہائیکنگ نے زندگی کی خوبصورت یادوں میں اضافہ کیا۔ ہفتہ کا دن ہم نے گھر پر ہی گزارا۔ اتوار شام کو چچی نے کہا ہنہ جھیل چلتے ہیں جو کوئٹہ شہر میں ہی ایک سیاحتی مقام ہے۔ برف سے ڈھکی ہنہ جھیل کی انٹرنیٹ پر تصاویر میرے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث بنیں۔ اس لیے ہنہ جھیل جانے کے لیے تیار ہونے کا احساس کافی اچھا تھا۔ عصر کے وقت ہم ہنہ جھیل کے لیے روانہ ہوئے۔ اور اگلے پندرہ بیس منٹس میں ہم ہنہ جھیل پہنچ گئے۔ ہنہ داخل ہوتے ہی رش نے یہ احساس دلایا کہ یہ کوئی بڑا سیاحتی مقام ہے کیونکہ کرونا ایس او پیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لوگ خوب موج مستی میں مصروف تھے۔

ہنہ کو دیکھ کر پہلا احساس یہ ہوا کہ پانی کی قلت نے اس جھیل کی خوبصورتی کو مانند کر دیا ہے۔ آدھی سے زیادہ جھیل خشک تھی۔ ہم سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے جھیل کی طرف چل دیے۔ جغرافیائی لحاظ سے ہنہ جھیل موزوں ترین مقام پر ہے۔ اسے 1894 میں کوئٹہ کے قریب اڑک وادی میں انگریز نے ایک بڑے پانی کے ذخیرے کے طور پر تعمیر کروایا۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے کوئٹہ شہر کی خوبصورتی میں ایک بہترین اضافہ ثابت ہوئی۔ دو پہاڑوں کے بیچ ہنہ جھیل کا پل اور اس پر پیدل سفر کرتے ہوئے یہ احساس بہت خوبصورت تھا جیسے انسان نے گہرائیوں اور پہاڑوں کی ناہموار سطح کو شکست دے دی ہو۔

49 فٹ گہری اور 818 ایکڑ پر محیط خوبصورت جھیل اپنے اندر انسان کی سو سال سے زیادہ یادیں اپنے اندر دفن کیے ہوئے تھی۔ محبت کرنے والے کئی لوگوں نے یہاں عہد وفا نبھانے کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی ہوں گی۔ عین ممکن ہے ہنہ جھیل نے کسی کے آنسوں اپنے اندر ہی چھپا لیے ہیں۔ کئی راز اپنے سینے میں دفن کیے ہنہ جھیل سیاحوں کو خوشگوار احساس دلا رہی تھی۔

ہنہ جھیل پر پہلا وزٹ اچھا رہا بچوں کے ساتھ جھولے کے مزے لینے کے ساتھ ہم نے کشتی پر بھی ہنہ کی سیر کی۔ پانی اور اونچائی سے میرے فوبیا ہمیشہ رہے ہیں لیکن کشتی پر بیٹھتے ہوئے مجھے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا جیسے ہنہ جھیل نے یقین دلایا ہو کہ کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد میں ہنہ پر چار بار مختلف لوگوں کے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی چچا اور ان کی فیملی کے ساتھ گیا۔ ابو کے کزن مسرور اور میر عالی کی فیملی کوئٹہ آئی تو ان کے ساتھ ولی تنگی جانا ہوا جہاں جانے کے لیے ایف سی کا مخصوص پاس لازمی درکار ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کی سمجھ آج تک نہیں آئی کہ آس پاس کی عوام کو کیوں ضرورت ہوتی ہے حالانکہ ولی تنگی ایک عام سیاحتی مقام ہے۔ مسرور جو پیشہ سے وکیل ہے اور اس کے سسرالی پختون فیملی سے ہیں انہوں نے چچا کو ولی تنگی پر باربی کیو کی دعوت دی، میں اور میرا چھوٹا بھائی بھی ساتھ چل دیے۔

ولی تنگی اڑک میں ایک اچھا سیاحتی مقام ہے۔ جھرنوں کی صورت میں کم مگر مسلسل ٹھنڈے پانی کا بہاو خوبصورت نظارہ پیش کرتا ہے۔ مگر سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے جو گندگی میں نے ولی تنگی دیکھی وہ انتظامیہ اور حکومت کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ سوائے پتھروں پر ندی کی صورت بہتے ٹھنڈے پانی اور مسرور کے سسر کے بنائے باربی کیو کے مجھے کسی چیز نے ولی تنگی پر متاثر نا کیا۔ حالانکہ ولی تنگی میں میں چاہتا تھا کہ جلدی سے واپس گھر کی راہ لی جائے مگر خواتین سیاحتی مقامات پر سورج ڈھلنے سے پہلے واپسی کی راہ مشکل ہی لیتی تھے۔

ولی تنگی سے واپسی پر اڑک وادی کی آبشار پر کچھ دیر رکنے کے بعد ہنہ جھیل کی طرف چل دیے۔ یہ میرا ہنہ پر دوسرا وزٹ تھا۔ تیسرے وزٹ میں چچا کے دفتر کے دوستوں کے ساتھ ایک سابق میجر صاحب کا ریسٹ ہاؤس بک کروایا اور وہاں دوپہر میں کرکٹ کھیلنے کے بعد باربی کیو کیا۔ کرکٹ جو شاید میں نے زندگی میں آدھ درجن بار سے بھی کم کھیلی ہوگی کھیل کہ مزہ آیا اور میں نے آٹھ سکور پہ ناٹ آؤٹ اپنی اننگز ڈکلیئر کی تاکہ ہماری ٹیم کا جانباز پلیئر سکور بہتر کر سکے۔ آرمی کے بنائے ہیلی پیڈ کو ہم نے بطور گراؤنڈ استعمال کیا اور جھاڑیوں اور پتھروں کی حدوں سے باؤنڈریاں طے کیں۔

چچا کے ایک کولیگ اور ہماری ٹیم کے کپتان نے کرکٹ کے دوران چٹکلے اور قومی عادت کہ ہارتے ہوئے تھوڑی بہت بے ایمانی نے کرکٹ کا مزہ دوبالا کر دیا اور وہ دن یادگار بنا دیا۔ دل تو بچہ ہے کی طرح ہم سب بھی دنیا کے تمام جھنجھٹ سے دور بچوں کی طرح کھیل رہے تھے۔ شام کو باربی کیو کیا جس کو بنانے والا اپنی تعریفیں کرتا نہیں تھک رہا تھا۔ چچا کے ایک کولیگ نے پروفیشنل باربی کیو بنانے والا بلایا تھا۔ جس نے ملائی بوٹی اور کباب بنائے۔ ملائی بوٹی تو انتہائی بے ذائقہ تھی البتہ کباب بہت اچھے لگے سب کو ہی۔ رات ہوتے ہی ہم نے ہنہ کو تیسری بار الوداع کیا۔ رات کی تاریکی میں ہنہ جھیل جیسے ہم سے بات نا کرنا چاہتی ہو یا پھر اس نے خود کو رات کی کالی چادر میں چھپا لیا ہو۔

ہنہ جھیل اپنے اندر بے انتہاء خوبصورت ہے۔ اس میں بہتا پانی خوبصورت شاعری کی طرح ایک ربط میں بہتے ہوئے سیاحوں سے باتیں کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ مصنوعی طور پر تعمیر کی گئی یہ جھیل کوئٹہ شہر اور پاکستان کے لوگوں کے لیے بہترین سیاحتی مقام ہے۔ اس کے ساتھ ولی تنگی ڈیم بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ مگر ہنہ جھیل آنے والے ہر سیاح سے انتظامی و حکومتی عدم توجہ کی شکایت کرتی ہے۔ وہ اپنے حسن پر اس لیے فخر محسوس نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے اردگرد پڑی پلاسٹک کی سبز و سفید بوتلوں سے اس کی خوبصورتی مانند پڑ گئی ہے۔ یہی حال ولی تنگی ڈیم اڑک کا ہے۔ انتظامی غفلت اور عدم توجہ نے ان خوبصورت سیاحتی مقامات کو اپنی نا اہلی سے آلودہ کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).