امریکہ انتخابات 2020: نائب صدارتی امیدوار کمالا ہیرس سمیت خواتین سیاستدانوں کو کیا برداشت کرنا پڑتا ہے


Kamala Harris
کمالا ہیرس امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹس کی جانب سے نائب صدر کے عہدے کے لیے نامزد کی گئی ہیں
سنیٹر کمالا ہیرس کے امریکی صدارتی انتخابات میں نائب صدر کی امیدوار کے طور پر شامل ہونے سے موجودہ انتخابی معرکے میں صنفی بحث سے بچنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس انتخابی دوڑ میں خواتین امیدواروں کے لیے قواعدہ مختلف ہیں۔

رٹجرز یونیورسٹی کے شعبہ برائے امریکی خواتین اور سیاست کے ڈائریکٹر ڈیبی والش تجزیہ کرتے ہیں کہ کیسے کمالا ہیرس کی بطور نائب صدر نامزدگی نے سیاست میں خواتین کو دہائیوں سے درپیش مسائل کو اجاگر کیا ہے اور اب ان کے لیے حالات کیسے بدل رہے ہیں۔

غصہ میں آنے کا فن

سیاست میں حصہ لینے والی خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رویے میں تحکمانہ تائید کرنے اور غصہ کرنے کے فرق کو بخوبی جان لیں۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ صنفی تعصبات خواتین سیاستدانوں کو ایسے مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں جہاں ان کے مرد ہم منصبوں کو زیادہ پراعتماد سمجھا جاتا ہے۔

اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کو صنفی تعصبات کے ساتھ ساتھ نسلی تعصب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ میں ‘عضیلی سیاہ فام خاتون ‘ کا استعارہ یا جملہ ایک قدیم قدامت پسند فقرہ ہے۔ اس استعارے کا استعمال انیسویں صدی میں شروع ہوا تھا جو سیاہ فام خواتین کو غیر انسانی، نامعقول اور بے ادب کے طور پر بیان کرتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’مسٹر نائب صدر، میں بات کر رہی ہوں۔۔۔ پہلے مجھے میری بات ختم کرنے دیں‘

امریکی انتخابات میں حصہ لینے والی انڈین اور پاکستانی خواتین

کیا امریکہ اب بھی ’سپر پاور‘ ہے؟

تجزیہ کار ڈیبی والش وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘خواتین پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ صدر یا نائب صدر کے عہدے کے لیے موزوں نہیں ہیں کیونکہ وہ اتنی مضبوط یا سخت نہیں ہیں لیکن ایک ہی وقت میں، آپ طاقت کو غصے کی طرح دیکھے بغیر کس طرح پیش کرتے ہیں؟ ‘

ان کے خیال میں امریکی نائب صدر کی امیدوار کمالا ہیرس نے نائب صدارتی مباحثے کو اچھے انداز میں پیش کیا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس مباحثے کے دوران کچھ ایسے مواقعے آئے تھے جہاں انھیں خود کو روکنا پڑا حالانکہ مباحثے کے دوران مداخلت پر ان کا شائشتہ انداز میں ردعمل ‘شاندار’ تھا اور ان میں اس خاتون کی جھلک تھی جسے بات کاٹے جانے کا تجربہ رہا ہو۔

کیا وہ رہنمائی کرنے کے لیے موزوں ہیں؟

کمالا ہیرس

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بے شک ووٹروں کے لیے صنف معنی نہیں رکھتی مگر خاتون سیاستدان کو مرد امیدواروں کے مقابلے میں خود کو انتخابی مہم کے دوران ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ان میں رہنما بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ عوام جہاں مردوں کی اہلیت کو فرض کر لیتے ہیں وہاں خواتین سیاستدانوں کو یہ دکھانی پڑتی ہے۔

اکانومسٹ اور یو گو پولز نے اگست میں کہا تھا کہ موجودہ نائب صدر کو کمالا ہیرس کے مقابلے میں معمولی برتری حاصل ہے۔ ایک چوتھائی امریکی ووٹرز نے کہا تھا کہ وہ کمالا ہیرس کے بطور نائب صدر کے غیر یقینی کا شکار ہیں جبکہ 14 فیصد امریکی ووٹرز نے ایسے ہی خیالات کا اظہار موجودہ امریکی نائب صدر مائیک پینس کے بارے میں کیا تھا۔

نائب صدر کی مباحثے کے بعد زیادہ تر ووٹرز کے خیال میں کمالا ہیرس یہ انتخاب جیت جائیں گی، لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ بطور صدر کون بہتر ہو سکتا ہے تو پولز کے نتائج مختلف تھے۔

یوگو پولز کے مطابق 56 فیصد امریکیوں کا کہنا تھا کہ اگر صدر ٹرمپ کام جاری نہیں رکھ سکتے تو مائیک پینس ان کی جگہ امریکی صدر بن سکتے ہیں۔ جبکہ پچاس فیصد امریکی شہریوں کے خیال میں کمالا ہیرس اس عہدے کے لیے مناسب ہیں۔

آزاد ووٹرز کے بلاک سے 53 فیصد نے مائیک پینس کی صلاحیتوں پر اعتماد کیا جبکہ 44 فیصد ووٹرز کا اعتماد کمالا ہیرس کو حاصل ہوا۔

جبکہ سروے میں شریک چند جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ موجودہ نائب صدر مائیک پینس ، پہلی مرتبہ سینیٹر بننے والی کمالا پیرس کے مقابلے میں امریکی صدر بننے کے زیادہ اہل ہیں۔تاہم سیاست میں خواتین کی حمایت کرنے والے ایک طویل عرصے سے اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ خواتین سیاستدانوں کو اپنے مرد ہم منصبوں سے زیادہ اپنی صلاحیت کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔

‘مومالا’ یعنی سوتیلی ماں ہونا

جب انھوں نے بطور ڈیموکریٹک امیدوار نائب صدارتی انتخاب میں اپنی نامزدگی کو قبول کیا تھا تو کمالا ہیریس نے کہا تھا کہ نائب صدر کا لقب بہت اچھا ہوگا، ‘لیکن’مومالا’ کا لقب میری لیے زیادہ اہم ہے۔’

واضح رہے کہ ‘مومالا’ کی اصطلاح ایسی خاتون کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے سوتیلے بچوں کا خیال رکھے۔

انھوں نے امریکی عوام کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے ( ان کے دو سوتیلے بچے ہیں) وہ اکثر اپنی خاندانی زندگی اور اس کی اقدار کا ذکر کرتی ہیں۔ کس طرح ان کی اکیلی والدہ نے ان کی پرورش کی اور ان کی مشترکہ خاندان کے نکات ان کی بطور نائب صدارتی امیدوار کی تقریر کا خاصا تھے۔

ڈیبی والش کہتی ہیں کہ سیاست میں مردوں کے لیے اپنے خاندان کے بارے میں بات کرنا ہمیشہ سے ایک خاص اہمیت کا حامل رہا ہے، لیکن اب حال ہی میں خواتین نے بھی اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے اس تجربات کاسہارا لینا شروع کر دیا ہے۔

ڈیبی کہتی ہیں کہ یہ ‘خواتین کے لیے ایک پہیلی’ کی مانند ہے، اگر ان کے بچے نہیں ہیں یا وہ اس بارے میں بات نہیں کرتیں کہ انھوں نے ان کی تربیت کیسے کی تو بھی سوالات اٹھتے ہیں اور اگر وہ اس متعلق بات کرتیں ہیں اور ان کے بچے چھوٹے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ان کا خیال کون رکھے گا۔

Sarah Palin

اس کے برعکس جب مرد سیاستدان اپنے خاندان کے متعلق بات کرتا ہے تو اسے ایک 'گھر گرہستی والے مرد' کے طور پر دیکھنے میں مدد ملتی ہے لیکن کوئی اس کے فیصلوں اور ترجیحات کہ متعلق سوال نہیں کرتا یا یہ نہیں پوچھتا کہ اس کے بچوں کا خیال کون رکھے گا۔

اس ضمن میں سمجھنے کے لیے ہمیں سنہ 2008 کے نائب صدارتی انتخابات کو دیکھنا ہو گا جب سارہ پیلن بطور انتخابی امیدوار میدان میں تھی کہ کس طرح ان کے خاندانی امور کی بحث کو اچھالا گیا تھا۔

اس وقت کی آلاسکا کی گورنر سارہ پیلن کی بطور والدہ ترجیحات پر میڈیا اور چند ڈیموکریٹس نے تنقید کی تھی۔ اس وقت سارہ پیلن کے پانچ بچے تھے جن میں ایک بچہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار بھی تھا۔ اس وقت ناقدین نے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی سیاست کو گھر والوں پر ترجیح دیتے ہوئے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو نظر انداز کر رہی ہیں۔

یہ روائیتی خیالات اب تبدیل ہو رہے ہیں اور اب تو خواتین سیاستدان اپنی ماں کی حیثیت کو بھی نہیں چھپاتی ہیں۔

ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ کی خاتون جج ایمی کونی بریٹ کی نامزدگی کے موقع پر ریبپلکنز نے ان کا سات بچوں کی ماں ہونا بطور تجربہ بیان کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ وہ بہتر انصاف کر سکیں گی۔

ڈیبی والش کا کہنا ہے کہ کمالا ہیرس کی صورتحال کچھ مختلف ہے کیونکہ وہ دو بڑے بچوں کی سوتیلی ماں ہیں۔ اور یقیناً امریکی ووٹرز اپنے امیدواروں کو اپنی ذاتی زندگیوں کے ساتھ انسان کے طور پر بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

‘لہذا میرے خیال میں وہ وہی کر رہی ہیں جو لوگوں کے لیے معمول کی بات ہے۔’

Sarah Palin in 2008

مرد ان سے یا ان کے بارے میں کیسے بات کرتے ہیں؟

فحش، قدیمی، بدتمیز، شیطان یہ وہ الفاظ ہیں امریکی صدر ٹرمپ نے کمالا ہیرس کے لیے استعمال کیے ہیں جب سے وہ ٹرمپ کے صدارتی حریف جو بائیڈن کی قریبی ساتھی کے طور پر سامنے آئی ہیں۔

ان کے انتخابی حریف مائیک پینس نے ان کی توہین نہیں کی ہے ، لیکن ہم نے ان کی مباحثے کی کارکردگی سے تھوڑا سا سیکھا ہے۔

جب بات انتخابی مباحثے کے دوران ٹوکنے یا گفتگو میں مداخلت کرنے کی ہو تو یہ حقیقت ہے کہ مسٹر پینس ان کے خلاف اس تکنیک کا استعمال کرسکتے ہیں جو اختلافات کو اجاگر کرتی ہے۔

ڈیبی والش کا کہنا ہے کہ ‘وہ اس انداز سے کرتے ہیں کہ وہ آپ کو شائشہ سے نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر کوئی خاتون ایسا کرتی تو ، طرح طرح کی باتیں کرتے ، اس بارے میں ایک طویل بحث چھڑ جاتی کہ انھیں چپ نہیں کروایا جا سکتا۔’

اب حالات کیسے بدل رہے ہیں؟

ڈیبی والش کہتی ہیں کہ سنہ 2018 سے جب خواتین سیاستدانوں کی انتخاب لڑنے کی تعداد میں اضافہ ہوا ، تو خواتین امیدوار کھرے پن کے ساتھ زیادہ پرسکون ہو گئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘اب وہ زیادہ سوچ بیچار نہیں کرتیں کہ میں یہ سب کیسے انجام دوں گی، مگر اب وہ کوشش کرتی ہیں کہ وہ جو ہیں اسی طرح کام کریں، ہم نے دیکھا ہے کہ اب بہت سی خواتین ان موضوعات پر بات کر رہی ہیں جنھیں پہلے ان سے دور رہنے کا کہا جاتا تھا۔’

ان موضوعات میں اپنے بچوں کا ذکر کرنا، بے گھر ہونے کے تجربے یا اپنی مالی مسائل پر بات کرنا شامل ہے۔

سنہ 2017 میں سابق وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے بھی خواتین سیاستدانوں سے کہا تھا کہ وہ ‘کسی کے نسلی یا صنفی امتیاز کو اپنا مسئلہ نہ بننے دیں۔’

انھوں نے کے پی ایم جی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘یہ وہ بات ہے جو ہمیں خواتین سیاستدانوں کو کہنی چاہیے کہ جب آپ کسی میٹنگ میں جائیں اور کوئی آپ کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے تو اسے ایسا نہ کرنے دیں، اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں۔’

Condoleezza Rice

کونڈو لیزا رائس کا اس موقع پر مزید کہنا تھا کہ ' اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو واقعی کسی ایسی چیز سے محروم رکھا گیا ہے جس کی آپ حق دار ہیں تو اسے حاصل کرنے کے بہت سے طریقے ہیں اور آپ کو وہ تمام طریقے اپنانے چاہیے۔'

ڈیبی والش کا کہنا ہے کہ گیرالڈائن فیرارو سے سارہ پلین اور ہیلری کلنٹن تک ہر امیدوار ماضی کا حصہ ہے۔ اب جب امریکی نائب صدر کے لیے ایک سیاہ فام انڈین خاتون کی نامزدگی سامنے آئی ہیں تو ‘یہ دنیا میں بڑی تبدیلی ہے۔’

وہ کہتی ہیں کہ ‘جب خواتین کمالا ہیرس جیسی خواتین کو نائب صدر کی نامزدگی اور ممکنہ نائب صدر کے طور پر دیکھتی ہیں تو وہ اس حساب کتاب کو بدل دیتی ہی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کیا کر سکتی ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp