پی ڈی ایم کا کوئٹہ جلسہ: کوئٹہ جلسے میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی شرکت، مریم نواز توجہ کا مرکز


جب سینیچر کی شب جب ایک نجی ٹی وی چینل پر کوئٹہ شہر میں موبائل فون سروس کی بندش کی خبر چلی تو حکام کی جانب سے فوری تردید سامنے لیکن اتوار کی صبح ایسا ہی ہوا اور شہر میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی۔

ایسا اس لیے ہوا کیونکہ کوئٹہ کے ایوب سٹیڈیم میں گیارہ جماعتی حزبِ مخالف اتحاد پی ڈی ایم کا تیسرا جلسہ منعقد ہونے والا تھا۔

اس جلسے میں سب کی توجہ کا مرکز مریم نواز بنی رہیں جنھوں نے روایتی بلوچی کشیدہ کاری سے مزین لباس زیب تن کررکھا تھا اور انھوں نے اپنے خطاب کے دوران بلوچستان سے مبینہ گمشدگیوں کی شدید مذمت کی۔ انھوں نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات بھی کی۔

جلسے کے بعد سامنے آنے والی ایک ٹویٹ میں انھوں نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کی تصاویر پوسٹ کیں اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ ہمیں یہ زخم جلد بھرنے ہوں گے اس سے پہلے کہ زیادہ دیر ہو جائے۔

مریم کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے بھی انھیں روایتی پشتون کشیدہ کاری سے مزین ایک قیمتی جوڑا تحفہ میں دیا اور اپنی رہائشگاہ پر ایک تقریب سے خطاب کے موقع پر انھیں شال بھی پہنائی۔

یہ بھی پڑھیے

ڈھول کی تھاپ اور سیاسی ترانوں کی گونج میں حزبِ اختلاف کا حکومت مخالف جلسہ

’جو عوام کے ووٹوں کو بوٹوں کے نیچے روندتا ہے ہم اسے سلام نہیں کرتے‘

’عوام کی شرکت شاید قیادت کی توقع سے زیادہ رہی‘

پنجاب اور فوج: ایک لوّ سٹوری

جو شکایات پی ڈی ایم کی جانب سے گوجرانوالہ کے جلسے کے حوالے سے کی گئی تھیں وہ اس مرتبہ تو نہیں کی گئیں لیکن بہت سارے ایسے عوامل ضرور تھے جن کو پی ڈی ایم کی جانب سے جلسے کو ناکام بنانے کی کوشش قرار دیا گیا۔

کوئٹہ میں گذشتہ 30 سال سے جلسوں کی کوریج کرنے والے اے ایف پی سے وابستہ سینیئر فوٹو جرنلسٹ بنارس خان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی شرکت کے حوالے سے یہ کوئٹہ کی تاریخ کے بڑے جلسوں میں سے تھا۔

مریم

کوئٹہ کا جلسہ پی ڈی ایم کے کراچی اور گوجرانولہ کے جلسوں سے کئی حوالوں سے مختلف بھی تھا۔ دیگر دو شہروں کے مقابلے میں کوئٹہ کا جلسہ اس حوالے سے منفرد تھا کہ اس میں لوگوں کے بیٹھنے کے لیے جلسہ گاہ میں کرسیاں نہیں لگائی گئی تھیں۔

جمعیت علما اسلام سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی مولانا کمال الدین کے مطابق چونکہ لوگوں کی بڑی تعداد میں جلسہ میں شرکت متوقع تھی جس کی وجہ سے جلسے میں کرسیاں نہیں لگائی گئیں۔

جلسہ گاہ میں عام لوگوں کے بیٹھنے کے لیے جو جگہ مختص تھی نہ صرف وہ بھر گئی تھی بلکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جلسہ گاہ سے باہر بھی موجود تھی۔

جلسے کا مجموعی دورانیہ نو گھنٹوں پر مشتمل تھا جبکہ شام کے وقت خنکی میں بھی اضافہ ہوا مگر اس سب کے باوجود لوگ آخری مقرر کے خطاب تک بیٹھے رہے۔

تاہم پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما عبد الرحیم زیارتوال نے انٹرنیٹ سروس کی بندش کو جلسہ عام کو ناکام بنانے کی ایک کوشش قرار دیا گیا۔

مریم

اس کے علاوہ سٹیج سے جلسہ عام کے منتظمین کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ مختلف علاقوں سے آنے والے لوگوں کو سکیورٹی کی صورتحال خراب ہونے کے نام پر روکا جا رہا ہے۔

جمیعت العلما اسلام کے مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری کو یہاں تک کہنا پڑا کہ اگر لوگوں کو نہیں چھوڑا گیا تو وہ ان ہی مقامات پر دھرنا دیں گے جہاں ان کو روکا گیا ہے اور جلسہ ختم ہونے کے بعد جلسے میں شریک لوگ پورے شہر کو بند کر دیں گے۔

یاد رہے کہ جلسے سے تین روز قبل نیکٹا کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ کوئٹہ اور پشاور میں دہشت گردی کا خطرہ ہے۔

نیکٹا کے اس تھریٹ الرٹ کے علاوہ بعض دیگر واقعات کے پیش نظر بلوچستان حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم پر جلسے کو منسوخ یا ملتوی کرنے کے لیے زوردیا جاتا رہا۔

تاہم اس سب کے باوجود جلسہ عام میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

ڈیپ سٹیٹ کا چرچا

کوئٹہ کے جلسے عام میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی جانب سے پاکستان کو ڈیپ اسٹیٹ کی مثال کے طور پرپیش کرنے کا بھی چرچا رہا۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا کہ فوجی مداخلت کی وجہ سے پاکستان کو ڈیپ اسٹیٹ کے مثال کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔

انہوں نے ہیلری کلنٹن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسی ریاستوں میں جو لوگ فوجی اور جاسوسی اداروں کو پسند نہیںہوتے انہیںراستے سے ہٹانے کیلئے گرفتارکیا جاسکتا ہے یا قتل کیا جاسکتا ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ لوگ ہمارے ملک کو ڈیپ اسٹیٹ کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

میں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی شرکت

کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسہ عام کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں لاپتہ افراد کے لواحقین بھی موجود تھے۔

انھوں نے سٹیج پر نہ صرف مریم نواز سے ملاقات کی بلکہ پی ڈی ایم کے دیگر رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو یہ تک کہنا پڑا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’کیا کسی اور ملک میں لوگوں کو بڑی تعداد میں لاپتہ کرنے کی ایسی کوئی مثالیں ملتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp