سیاسی کفن چور


ایک سیاسی جماعت کو کس حد تک پختہ نظریاتی شکل کا ہونا چاہیے اور ایک سیاسی رہنما کو کس طرح کی سنجیدگی کا ثبوت دینا چاہیے یہ سوال شاید اب پاکستان کے سیاسی مبصرین کے لئے اہم نہیں رہا۔ اہمیت اس بات کو دی جا رہی ہے کہ فلاں نے فلاں وقت یہ کام کیا تھا اس لئے اب ہمارے لئے ایسا کرنا جائز اور قانونی ہو گیا ہے۔ ہماری گفتگو اور موضوع پر ماحول کا اثر گہرا ہوتا ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی غیر متعلقہ ہوتی جا رہی ہے اس لئے سیاسی مباحث میں اس کا حصہ بھی کم ہو گیا ہے‘ ن لیگ اور تحریک انصاف ہیں جو صوبے کی سیاسی سرگرمیوں کا سرچشمہ ہیں۔

دونوں جماعتیں اور ان کے قائدین جو کچھ کہیں گے اور کریں گے وہ امکانات کا اشارہ ٹھہرے گا۔ قائد اعظم محمد علی جناح‘شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال‘ شہید ملت لیاقت علی خان‘ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح‘ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو‘مادر جمہوریت محترمہ نصرت بھٹو‘دختر مشرق بے نظیر بھٹو، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ یہ وہ نام ہیں جن کے ساتھ سرکاری اور عوامی خطابات لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ یہ خطاب اس بنیاد پر دیے گئے کہ ان شخصیات نے ملک بنانے اسے محفوظ بنانے اور نظام کو مستحکم کرنے کے لئے ایک طویل اور پرخلوص جدوجہد کی۔

اس جدوجہد کے نتیجے میں کچھ کو جان دینا پڑی اور کچھ حالات کی سختی کا شکار ہوئے۔ ان کی جدوجہد کا ایک نکتہ نمایاں تھا کہ انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے سیاسی‘ اخلاقی اور قانونی اقدار پر حرف آتا ہو۔ ان تمام شخصیات کے اقوال ہم اپنی تحریر اور گفتگو میں بطور حوالہ استعمال کرتے ہیں۔ ان کی حیثیت کو تقریباً متفقہ طور پر ہم سب قبول کر چکے ہیں۔ ان کے اخلاص کا ثبوت یہ ہے کہ آج ان کے مخالفین اور ان کے جانشین بھی ان کو عزت سے مخاطب کرتے ہیں۔ مسلم لیگ جب مسلم لیگ نواز بنی تو اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی۔

جمہوریت کے حامی اور کسی حد تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو ٹکر دینے کے لئے پنجاب سے ایسے سیاستدان کو لانچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو بے نظیر بھٹو کی طوفانی پیشقدمی کے سامنے بند باندھ سکے۔ بے نظیر بھٹو قائد عوام کی سیاسی وراثت کو لے کر آئی تھیں۔ سوچا گیا کہ قائد عوام سے بڑا کوئی خطاب نواز شریف کے لئے ڈھونڈا جائے۔ کچھ نے شاید امیر المومنین کی صلاح دی‘ اس پر مذہبی ووٹر کے ردعمل کے خدشے پر ارادہ بدل دیا۔ پھر قائد اعظم بنانے کی بات ہوئی‘ قائد اعظم تو ایک ہی ہو سکتے تھے۔

قائد اعظم ثانی کی ترکیب کسی ارسطو نے ڈھونڈ نکالی۔ اس کے نعرے لگے‘ اپنی لکھوائی کتابوں میں ذکر کیا گیا اور ان مضمون نگاروں نے بار بار قائد اعظم ثانی لکھا جن کا راتب لفافوں میں بند ان تک پہنچایا جاتا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو کئی حوالوں سے پاکستان کی تاریخ میں یاد رکھی جائیں گی۔ رعنا لیاقت علی خان کے بعد وہ پہلی خاتون اول تھیں جو سماجی سطح پر انتہائی متحرک دکھائی دیں‘ بھٹو صاحب وزیر خارجہ بنے‘ صدر بنے اور وزیر اعظم بنے اس دور میں بیگم نصرت بھٹو نے سیاسی مینجمنٹ‘ کارکنوں سے رابطے اور خواتین کو سماجی خدمات سے اوپر اٹھ کر سیاسی کردار ادا کرنے کی ترغیب دینے کا کام کیا۔

بھٹو صاحب کی موت کے بعد انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا۔ قذافی سٹیڈیم میں پولیس نے ان کا سر پھاڑ دیا‘ قید ہوئیں تو اے سی‘ ٹھنڈے پانی اور گھر کے کھانے کا مطالبہ کیا نہ عدالتوں سے ایسی مدد ملی کہ جرم میں سزا کے بعد گھر میں رہنے کی اجازت دیدی جائے۔ساری زندگی سیاست سے سکھ اور آسودگی کی بجائے دکھوں کی فصل کاٹتی رہیں۔ انہیں مادر جمہوریت کا خطاب حکومت پاکستان نے دیا۔ بیگم کلثوم نواز کی ساری زندگی میں ایک سیاسی واقعہ ہے جب وہ پابندی توڑ کر ایک کار میں گھر سے نکلیں اور پولیس کرین نے اس گاڑی کو اٹھا لیا۔

دو تین گھنٹے گاڑی میں بیٹھے رہنے کو کسی لحاظ سے بیگم نصرت بھٹو کی جدوجہد کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بیگم کلثوم کا انتقال ہوا تو اشتہاروں‘ مضامین اور نعروں میں کچھ لوگوں نے انہیں مادر جمہوریت کہنا شروع کر دیا۔ شاید اب بھی کچھ لوگ ایسا کہہ اور لکھ رہے ہیں۔ وہ ایسا کر کے بیگم نصرت بھٹو کو چیلنج کر رہے ہیں۔ بلاول اب تک اس کوشش پر مہر بلب ہیں۔

کراچی میں مزار قائد پر شور شرابہ ہنگامہ اور مزار کے تقدس کو مجروح کرنے کے الزام میں جب کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا گیا تو ان کا باڈی گارڈ شکوراس گرفتاری کی ویڈیو بنانے لگا۔ کیپٹن صفدر مادر ملت زندہ باد کے ہلکے ہلکے نعرے لگا رہے تھے۔ اس موقع پر مادر ملت زندہ باد کہنے کی کوئی منطق سمجھ نہیں آتی تھی۔ کچھ نے کہا کہ وہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی جمہوری جدوجہد کو یاد کر کے علامتی اظہار عقیدت کر رہے ہیں لیکن کیپٹن صفدر کی تعلیم اور عمومی معلومات سے واقف افراد کو خدشہ ہوا کہ شریف خاندان قائد اعظم اور مادر جمہوریت کے بعد اب مادر ملت کے خطاب کو ہتھیانے کی کوشش میں ہے۔

وہی ہوا۔ چار روز قبل یعنی 23اکتوبر 2020ء کو لاہور پریس کلب کے سامنے ایم این اے شائستہ ملک کی قیادت میں لیگی خواتین نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ہمارے ساتھی نے ایک کتبے کی تصویر بنا کر ہمیں بھیج دی۔ کتبے پر مریم نواز کی خوبصورت تصویر کے سامنے مادر ملت زندہ باد لکھا تھا۔یہ کتبہ نمایاں جگہ پر تھا۔ کتبے کا حجم بھی ایسا تھا کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔

دکھ ہوا کہ مسلم لیگ ن تین بار اقتدار میں آئی۔ پنجاب میں تین عشروں سے اہم ترین سیاسی قوت ہے لیکن اس جماعت کے سیانے ابھی تک سیاسی دانشوروں کی کوئی مختصر سی جماعت تک تیار نہ کر سکے‘ کارکنوں کو صرف شریف خاندان اور ان کے گھر معلوم ہیں۔ مسلم لیگ ن جس مسلم لیگ اور مسلم لیگی قائدین کو اپنا رہنما قرار دیتی ہے ان کے کفن چوری کررہی ہے۔ سیاسی اور نظریاتی افلاس نے اس جماعت کی جمہوری حیثیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سیاسی پختگی دکھائی نہیں دیتی اور برے بھلے کی تمیز کب کی رخصت ہو چکی۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).