عجیب شخص ہے یہ۔۔۔ احمدیوں کو انسان سمجھتا ہے


\"Sadia\"عجیب شخص ہے یہ جنید زبیری بھی۔ ہماری تو سمجھ، برداشت، حیثیت حتیِٰ کہ اوقات سے بھی باہر۔ عجیب باتیں اور بہکی حرکتیں۔ خدا جانے جان کر کرتا ہے یا کوئی مینوفیکچرنگ فالٹ ہے۔ اپنی یہ گستاخیاں اپنے تک ہی رکھے تو بھی ہم صبر کا کڑوا گھونٹ بھر ہی لیں۔ لیکن یہ رکنے کا نام کہاں لیتا ہے۔ اپنی ہی دھن میں چلا جاتا ہے۔ البیلا راہی کہیں کا! لاکھ کہ لو، ہزار سر پیٹ لو۔ لیکن بھینس بین کی آواز کیوں سننے لگی۔ ناگن تو ہے نہیں جو محو رقص ہو جائے۔ اس کو تو بس مطلب ہے رانجھے کی بنسی سے۔

ابھی کچھ ہی دن پہلے کا ذکر ہے جب ایک دوست نے ہمیں انقلابی قسم کا روشن خیال اور معاشرے کا کلنک ٹائپ لکھاری سمجھ کر اپنی دبی اور گھٹی ہوئی آواز میں پاکستانی احمدی کمیونٹی (ارے وہی مرزائی، قادیانی لوگ) کے بارے میں لکھنے کی فرمائش کر ڈالی۔ انوکھے لاڈلے جو ٹھہرے۔ ہمیں دوست یاروں کی عقل و دانش پر اپنے فہم سے زیادہ بھروسہ ہے۔ یقین کامل ہے کہ مہربان کی اس خواہش کو کوئی بھی ملحوظ خاطر میں نہ لائے ہوں گے۔ لیکن جہاں تک ہمارا ذکر ہے تو صاحب گنہگار ضرور ہیں، کافر نہیں۔ جھٹ سے استغفار پڑھا اور حضرت کو ٹکا سا جواب دیا کہ گاجر کے حلوے کے بعد ہمیں اس دنیا میں سب سے عزیز چیز ہماری اپنی ہی جان ہے۔ ایسی کچی گولیاں نہیں کھیل رکھیں۔ جی ہاں۔

’تو لکھ دیجئے نا۔ آپ کون سا پاکستان میں رہتی ہیں۔‘
\’اچھی کہی صاحب، یعنی جو سال چھ ماہی میں لبرٹی مارکیٹ کی ہوا خوری اور کیمپس کے دہی بھلوں کا دیدار نصیب ہو جاتا ہے اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں؟ \’

\’یعنی میں پھر نہ ہی سمجھوں؟\’

’الیکٹرا آپ کا ہوا۔ صحیح پہنچے۔ جی بالکل‘

ایک نہ سو سکھ۔ لہٰذا سکھ کی گنگا اسی انکار سے بہہ نکلی۔ آج تک شانت ہیں اور لفافہ پکڑے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے میں مصروف ہیں۔

\"junaid-zuberi\"لیکن خدا بیڑا غرق کرے اس جنید زبیری کا۔ جان نہ پہچان اور جا دھمکا کینیڈا میں منعقد ہونے والے احمدیہ جماعت کے جلسہ میں۔ لو بتاؤ بھلا۔ سید زادوں کے نام پر کیا خاک پھینکی۔ استغفراللہ، ہمارا تو کہتے ہی وضو ٹوٹ گیا۔ چلو ہو جاتی ہیں مردوں سے غلطیاں۔ لیکن انہی غلطیوں پر پردہ بھی تو انہی مرد بچوں کو ڈالنا ہے۔ تم کہاں کی عورتیں ہو کہ گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے داڑھی نہیں اگا سکتے۔ توبہ کا ڈرامہ کرو، صدقے کے بکرے ذبح کرو، نو سو چوہے پورے کرو اور حج کا قصد کرو۔ یہاں تو جرنیلوں کے دور پار کے احمدی عزیزوں کا گناہ معاف نہیں۔ تم کس کھیت کی مولی ہو بابا؟

لیکن یہ طوفان کیوں تھمنے لگا۔ سنے گا تھوڑا ہی۔ سوشل میڈیا پر نقارہ بلند کرنے لگا۔ جگہ جگہ جا کر بولنے لگا کہ خدا کی رسی پکڑو، نفرتوں کا پھندا نہیں۔ سچ ہے کہ پاگلوں کے سر پر سینگ تو نہیں ہوا کرتے۔

وہ تو خدا سلامت رکھے اس کے رشتےداروں کا جنہوں نے دین اور دنیا کی لاج رکھی اور دل کھول کر لعن طعن کی۔ خاندان کی لاج رکھی۔ خدا رسولﷺ کے واسطے دئے۔ مرحوم نانا اور نانی کی نیک نامی یاد دلائی۔ لیکن صاحب، اس کے سر پر جوں کیوں رینگنے لگی۔ یہ کہاں چپ رہنے والے دن پیدا ہوا تھا۔ چلانے لگا۔

\’جاؤں گا۔ بار بار جاؤں گا۔ ہر اس طبقے کی آواز بنوں گا جو مذہبی اور معاشرتی تعصب کی بھینٹ چڑھا۔ تم جس جس کو کچلو گے میں اس  کو سہلاوں گا۔\’

ہماری طبعیت ذرا کمزور واقع ہوئی ہے۔ رہا نہیں گیا یہ ایمان شکن جواب سن کر۔ سوچا شاید ہماری ہی کوشش سے راہ راست پر آ جائے۔ جھٹ فون گھما ڈالا کہ چندا ذرا سنبھلو۔ اتنی سبک رفتاری مضر صحت ہے۔ لیکن ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد۔ شرمندہ ہونا تو درکنار الٹا چہکنے لگا۔ فخر سے اپنے ربوہ کے دورے کا ذکر سنانے لگا۔

\’ پتا ہے کیا؟ اقلیتی گروپوں کے حقوق کے لیے صرف اکثریتی فرقے کے لوگوں کو ہی اٹھنا ہو گا۔ تم لوگ تو سوئے رہو۔ میں تو چلا بارش کا پہلا قطرہ بننے۔ یہ بات تم لوگ ابھی نہیں، کچھ سال بعد سمجھو گے۔\’

\’ہائے اللہ ، کہیں تم مرزائی تو نہیں؟\’

\’انسان ہوں۔ کافی نہیں؟\’

\’چلو شکر ہے مرزائی تو نہیں ہوئے ۔\’

\’خود سوچو کہ اگر خدا کائنات بنانے پر قادر ہے تو سب کو ایک جیسا بنانے پر بھی۔ لیکن اس نے تو تنوع کا انتخاب کیا۔ قوس قزح چنی۔\’

کتنی بار سر پیٹیں؟ کتنی بار اس گفتگو کو ذہن کی اسکرین سے ڈیلیٹ کریں۔۔ یہ تو ہے کہ بڑھے ہی جا رہا ہے۔ کبھی ہم جنس پرستوں کا علم بلند کر لیتا ہے۔ کبھی گردواروں اور مندروں میں جا دھمکتا ہے۔ شیعہ مجلسوں میں منہ اٹھا کر چلے جاتا ہے۔ جی بالکل، بے خطر آتش نمرود میں۔ یہ آتش عشق ٹھنڈی ہو تو نمرود کی آگ میں جھلسے گا نا۔ لیکن نرگ کی آگ میں تو جلے گا ہی۔ انشاللہ۔

بھیا ہم نے تو جھٹ فون کال کاٹی۔ فوراً سے پیشتر کال لاگ سے بھی ڈیلیٹ کی۔ زندگی کا کیا پتہ؟ کی دم دا بھروسہ یار۔۔۔ جو کسی کو بھنک پڑ گئی تو ہماری قبر پر فاتحہ کون پڑھے گا؟ جنازہ کون پڑھائے گا؟ صاحب ہمیں تو دنیا بھی عزیز ہے اور آخرت بھی۔

خدا اس کے حال پر رحم کرے۔ حفاظت نہ سہی ہدایت ہی دے دے۔ ہمیں تو معاف رکھیے۔ کہ یہ دیوانہ ہماری سوچ، اپروچ اور اوقات کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس جیسے چار چھ اور اکٹھے ہو گئے تو کہیں نفرتوں کا یہ سلسلہ رک ہی نہ جائے۔ ہمارے منہ میں ساتھ چولہوں کی خاک۔

اچھا، یہ کالم پڑھ کر ڈیلیٹ کر دیجئے گا۔ اوکے؟ نعرہ تکبیر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments