سحر اقبال: کووڈ کے خوفزدہ کر دینے والے ماحول میں امید کی ایک کرن پیدا کرنے والی خاتون کاشتکار


’کووڈ 19 کے دنوں میں جب شروع شروع میں لاک ڈاؤن لگا تو بطور ایک خاتون کاشتکار میری سب سے بڑی ترجیح یہ تھی کہ میں اپنے کسانوں سے، جن میں سے اکثریت خواتین ہی کی ہے، مکمل طریقے سے ایس او پیز پر عمل درآمد بھی کرواؤں اور اس بات کا بھی دھیان رکھوں کہ کوئی بے روزگار نہ ہو جائے۔ یہ سب بہت مشکل تھا کیونکہ نہ تو زیادہ لوگوں کو کھیت میں ایک ساتھ بھیج سکتے تھے اور نہ ہی ہمیں یہ منظور تھا کہ ان کی اجرت میں کمی واقع ہو۔ یہ سب مشکل ضرور تھا لیکن ناممکن نہیں۔‘

یہ کہنا ہے صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن کی ایک خاتون کاشتکار سحر اقبال کا۔ سحر اقبال کو صرف دو الفاظ ’خاتون کاشتکار‘ سے متعارف کروانا بھی شاید ان کی صلاحیتوں کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی ہے۔ وہ ایک کمیونٹی ڈویلپر ہیں، کارپوریٹ بزنس وومن ہیں، انگلش لٹریچر کی طالبہ ہیں، پبلک ریلیشنگ آفیسر ہیں، انفلوئنسر ہیں، سرکاری ملازمہ ہیں، صحافی ہیں، ماں اور بیوی ہیں۔ وہ یہ سبھی رول ایک ساتھ بخوبی نبھا رہی ہیں اور نبھاتی رہی ہیں۔

بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ میری پہچان کمیونٹی ڈویلپر کے طور پر ہی کی جائے۔ میری خواہش ہے کہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں خواتین اپنے زرعی فارم خود سنبھالیں اور جب بھی ایسا ہو گا تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

بی بی سی کی 100 خواتین کی فہرست میں کون کون شامل ہے؟

غذائیت کا پاور ہاؤس جڑ والی سبزیاں

BBCShe#: بلوچستان کی نڈر خواتین

سعودی خواتین کونسل میں خواتین کہاں ہیں؟

وہ کہتی ہیں کہ خواتین کام تو ہمیشہ سے ہی کر رہی ہیں لیکن اب اُن کے چارج سنبھالنے کا وقت آ گیا ہے۔ ’ہمارے علاقے میں لوگوں کو خواتین سے آرڈر لینے کی عادت نہیں تھی، صرف آرڈر دینے کی عادت تھی۔ میں اس وقت کا انتظار کر رہی ہوں کہ جب وہ یہ قبول کر لیں کہ ہاں ایک عورت بھی انتظام سنبھال سکتی ہے۔ اور اس کی سوچ اور خیالات کو اتنی ہی پذیرائی ملے جو مردوں کے خیالات کو ملتی ہے۔ اگر میں اس میں سے تھوڑا بھی حاصل کر پائی تو میں سمجھوں گی کہ یہ میری ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔‘

جب پاکستان میں کورونا کی وجہ سے ایس او پیز سخت کیے گئے تو ان دنوں سحر اقبال کے گاؤں میں چاول کی فصل لگ رہی تھی جس کے لیے کسانوں کی ایک بڑی تعداد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ قطار اندر قطار ایک دوسرے کے پیچھے اس فصل کے پودے لگائیں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ یہاں پر کس طرح سماجی دوری اور ایس او پیز پر عملدرآمد کیا جائے؟

سحر کہتی ہیں ’کیونکہ چاول کی فصل لگاتے ہوئے حبس اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ آپ اس دوران ماسک نہیں پہن سکتے اور نہ ہی یہ صحت کے لیے اچھا ہے تو ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک ایکڑ میں پانچ خواتین سماجی دوری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کام کریں گی اور کام بھی روٹیشن میں کروایا کہ سب کو کام ملے اور لیبر بھی ناراض نہ ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ وہ وقت تھا جب کمیونٹی کو ہماری ضرورت تھی اور ہم نے یہی سوچا کہ کسی نہ کسی طرح سبھی کو کچھ نہ کچھ روزگار ملتا رہے اور ساتھ ایس او پیز کا بھی خیال رکھا جائے۔ ہم نے ان کی روزانہ اجرت کو گھنٹوں کے حساب سے بھی نہیں کیا کیونکہ روٹیشن میں انھیں پھر بہت کم ملتا۔ نہ ان کی روزانہ اجرت کٹی اور نہ ہی ان کا کام بند ہوا۔ ہماری دیکھا دیکھی کئی دوسرے کاشکاروں نے بھی اسے ایک ماڈل کے طور پر اپنایا۔‘

کووڈ سے کیا سیکھا؟

سحر کے مطابق کووڈ ایک بڑا اور بالکل نیا چیلنج تھا۔ ’میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ ہم نے کس طرح کسانوں کو کووڈ کے ماحول میں کام کرنے کے متعلق بتایا اور سمجھایا۔ ڈسٹنٹ لرننگ کے متعلق پہلے خود سیکھا اور پھر ان کو تعلیم دی۔ جب پنجاب میں لاک ڈاؤن ہوا تو دفاتر بند ہو گئے تو میری کمیونٹی کے بہت سے لوگ جو شہروں میں روزگار کرتے تھے وہ بھی بے روزگار ہو گئے اور واپس چلے آئے۔ ان کو کھانے پینے کے لالے پڑ گئے تھے۔

’ہمارے علاقے کے لوگوں کی ایک اچھی عادت ہے کہ وہ بھیک نہیں لیتے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں کوئی کام دیں تو ہم وہ کر دیں گے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ کوئی اس طرح کا کام کرتے ہیں جس سے ان کا مالی فائدہ بھی اور ان کی تربیت بھی ہو جائے۔ سماجی دوری بھی رہے اور تربیت بھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس وقت مکئی کی فصل لگی ہوئی تھی اور ہم نے سوچا یہ اچھا موقع ہے۔ ہم نے انھیں سائلیج بنانے کی تربیت دینے شروع کر دی۔ ’آپ کو پتہ ہے نہ سائیلج فصل کا وہ حصہ ہوتا ہے جو بچ جاتا اور اسے عموماً جلا دیا جاتا ہے تاکہ اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔ لیکن اس کے جلانے سے بہت دھواں اور سموگ پیدا ہوتی ہے جو سردیوں میں آلودگی کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے۔‘

’ہم نے انٹرنیٹ لگا کر روزانہ پانچ چھ لوگوں کو اس کو استعمال کرنے کی تربیت دینی شروع کر دی کہ مشینیں کس طرح چلانی ہیں، اس کو نرم کس طرح کرنا ہے اور ٹرانسپورٹیشن کس طرح کرنی ہے۔‘

’ہماری کمیونٹی میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حکومتی لاک ڈاؤن کے علاوہ ہم نے خود ایک سخت لاک ڈاؤن لگایا ہوا تھا۔ اگر راشن آ رہا ہے تو ایک ہی شخص جائے گا، راشن لے کر آئے گا، پہلے نہائے گا اور پھر سب میں اسے تقسیم کرے گا۔ اس سے کسانوں میں فرسٹریشن کا ایک نیا لیول شروع ہو گیا کیونکہ انھیں اس کی عادت ہی نہیں تھی۔‘

’انھیں یہ سمجھانا بھی بہت مشکل تھا کہ اگر فصل لگ رہی ہے تو ایک ایکڑ میں پانچ سے زیادہ لوگ نہ جائیں۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا کیونکہ لوگوں کو فصل لگتے ہوئے دور رہنے کی عادت نہیں تھی، وہ کام کرنا چاہتے تھے لیکن ایس او پیز کی وجہ سے ہم پانچ سے زیادہ افراد ایک ایکڑ کی فصل میں لانے کے لیے تیار نہیں تھے۔‘

کووڈ اور فوڈ سکیورٹی

ایک اور چیز جس کا احساس سحر کو کووڈ کے دوران ہوا وہ تھا فوڈ سکیورٹی کا۔

پاکستان میں کووڈ کے دوران لوگوں کو خوراک تو کسی نہ کسی طرح ملتی رہی لیکن اس دوران دوسری اشیا مہنگی ہو گئیں۔ ’خوراک پیدا کرنے کے لیے کھاد چاہیے ہوتی تھی اور کیونکہ ٹرانسپورٹ بند تھی اس لیے اس کے ریٹ پر بھی فرق پڑا۔ جو چیز ہمیں 18 روپے میں ملتی تھی وہ ہمیں 22 روپے میں ملنے لگی۔ لیکن شکر ہے کہ ہماے ہاں اتنی ابتر حالت نہیں ہوئی جتنی کئی دوسرے ممالک میں ہوئی ہے۔ تاہم یہ ضرور سمجھ آیا کہ فوڈ سکیورٹی کتنی اہم ہے۔‘

انگلش لٹریچر سے سیلائن واٹر تک

سحر اقبال ساہیوال میں پیدا ہوئیں اور وہیں پڑھیں، پھر لاہور منتقل ہو گئیں اور کنیئرڈ کالج سے انگلش لٹریچر میں گریجویشن کی۔ تھوڑا عرصہ صحافت کی اور اس کے بعد پبلک ریلیشنز سیکٹر میں آ گئیں اور ایک فرم کے لیے کنسلٹنٹ کے طور پر کام کیا۔ پھر ان کی شادی ہوئی اور وہ پاکپتن آ گئیں۔ بقول ان کے ’یہاں سے میری اپنی کہانی ختم ہوئی اور ایک نئی کہانی نے جنم لے لیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ گاؤں میں میرے پاس صرف چادر، چار دیواری تھی اور ایک طرح کا ڈپریشن تھا۔

’سمجھ نہیں آتی تھی ایسا کیا کروں کہ یہاں کا کلچر بھی متاثر نہ ہو، سب کا فائدہ بھی ہو اور میں بھی مصروف ہو جاؤں۔ میرا مقصد یہ تھا کہ پڑھ لکھ کر فارغ بیٹھے رہنے سے جتنی بھی منفی توانائی میرے اندر پیدا ہو رہی ہے میں اسے تعلیم کی طاقت کے ساتھ مثبت توانائی بنا دوں اور کمیونٹی کے لیے کچھ کروں۔‘

’جب خاندان میں زمین کی تقسیم ہوئی اور میرے شوہر کے حصے میں جو زمین آئی وہ کھارے پانی کی ایک بنجر زمین تھی۔ ہم نے اسے تھوڑا بہت آباد کیا لیکن اس کی بہت بری حالت تھی۔ تو وہاں پہ ہم نے اللہ کا نام لے کر کام شروع کیا، میرے شوہر کی تعلیم بھی بہت مختلف تھی۔ وہ آسٹریلیا سے ہیلتھ کیئر میں ماسٹرز کر کے آئے تھے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’لیکن ہم دونوں کا عزم ایک ہی تھا اور یہ ہمارے لیے ایک نیا پراجیکٹ تھا۔ آن لائن ریسرچز شروع کیں اور آہستہ آہستہ سمجھ آنا شروع ہوا کہ واٹر لوگڈ یا کھارے پانی سے بھری ہوئی زمین کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔ ہم نے اس میں جپسم ڈالا۔ آپ کو بتاؤں کہ سات سال پہلے ہمارے پاس اس علاقے میں پی ایچ میٹر نہیں ہوتا تھا، مجھے یاد آیا کہ ایف ایس سی کے دوران ہم لوگوں نے جو لٹمس پیپر سے تجربے کیے تھے انھیں ہی یہاں بروئے کار لا کے اس کی پی ایچ معلوم کی جائے۔ ہمیں یہ نہیں پتہ تھا کہ ہم نے معلوم کیا کرنا ہے، یہ زمین ایسیڈک ہے یا بیسک۔ ہم نے پی ایچ پیپر ڈھونڈا اور مٹی کا نمونہ لے کے اسے پانی میں ملایا۔‘

اس کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ سحر اسے یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں میرے شوہر ہر ایکڑ سے مٹی کا نمونہ لے کے آتے اور میں ایک ایک ایک کی ریڈنگ لکھتی کہ یہ زیاہ ایسڈک ہے، یہ زیادہ بیسک ہے یا یہ نیوٹرل ہے۔

’اسی حساب سے آن لائن ریسرچ کر کے ہم نے اس واٹر لاگڈ زمین میں جپسم ڈالنا شروع کیا، اور بہت سی دیگر سیلائن ٹریٹمنٹ کرنا شروع کیں۔ اب سات سال کے بعد وہ زمین اتنی زرخیز ہو گئی ہے کہ ہم اس پر آلو اگا رہے ہیں۔ آج کل آلوؤں کا موسم بھی ہے، اور وہ آلو کمرشل طور پر استعمال ہوتے ہیں، پیپسی کی کمپنی جو ’لیز‘ چپس بھی بناتی ہے ہم سے آلو خریدتی ہے۔ مقامی چپس کی کمپنیاں بھی ہم سے ہی آلو خریدتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جو بھی زمینداری کرتا ہے اسے پتہ کہ آلو بہت زیادہ زرخیز زمین پر ہی اگتے ہیں، وہ کسی سیلائن زمین پر نہیں اگتے۔ تو ان آلوؤں کے پیچھے ایک پوری کہانی ہے، ایک پوری جدوجہد ہے۔ اس طرح ایک بنجر زمین کو زرخیز زمین میں بدلنے میں کل پانچ سال لگے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پہلے ہم بزرگوں کے پرانے طریقے کو استعمال کر رہے تھے کہ ’کلر‘ کو ختم کرنے کے لیے کلر مار گھاس لگائیں جو کہ سیلائن کو کھا لیتی ہے لیکن اس میں دس سے پندرہ سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ہم اتنا زیادہ انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ تو اس طرح اس دس پندرہ سال کے لمبے عرصے کو کم کرنے کے لیے ہم نے تحقیق کرنا شروع کی، کامیاب زمینداروں سے بات کرنا شروع کی۔ مجھے یاد ہے کہ سردیوں کا موسم تھا اور اس دوران نہروں میں سے پھل نکلتی ہے۔ ہم نے وہ پھل خرید کر ڈالنا شروع کی تاکہ زمین اور زرخیز ہو۔‘

کمیونٹی ڈویلپمنٹ: اپنی بجلی، اپنی گیس

سحر کہتی ہیں جس علاقے میں ہم رہتے ہیں یہاں بجلی بہت کم ہی آتی ہے اور گیس تو ہے ہی نہیں۔ اس طرح ’میرے کے لیے ایسے ہی تھا جیسے زندگی بہت پیچھے چلی گئی ہو۔ نہ بجلی، نہ گیس اور کچے مکان۔‘

’سو ہم نے وہاں اپنا گھر بنانے کے ساتھ ساتھ کمیونٹی ڈویلپمنٹ بھی شروع کی اور کمیونٹی کے لوگوں کے کچے اور خستہ مکانوں کو بھی پکا کرانا شروع کیا۔ مکانوں کے بعد ہم نے سوچا کہ یہاں تو گیس آ ہی نہیں سکتی تو ہم نے بائیو گیس پلانٹ پر ریسرچ کرنی شروع کر دی۔ ہمارے پاس جانور تو تھے ہی، ہم نے سوچا کہ انھیں استعمال کرتے ہیں۔‘

’ان کا فضلہ تو ہم کھاد کے طور پر استعمال کر ہی رہے تھے۔ سوچا کہ کیوں نہ اس سے گیس پیدا کی جائے اور جو اس سے سلری پیدا ہو گی وہ ہم اپنی ہی زمینوں پر استعمال کر لیں گے۔ اس کے لیے پھر لوگوں کو شروع ہی سے تیار کرنا شروع کیا۔‘

مزید پڑھیے

تھرپارکر کی خواتین ڈمپر ڈرائیورز

’ایک مرد کے ہاتھوں عورت کو پٹتے دیکھنا عام سی بات ہے‘

’پاک فوج اوکاڑہ فارمز کی ملکیت کے دعوے سے دستبردار‘

’لوگوں کو اوپلوں کو جلا کر کھانا بنانا تو قبول تھا لیکن بھینسوں کے فضلے سے بنی گیس سے کھانا پکانے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پلید ہے۔ اس طرح پہلے ان کو تیار کیا۔‘

’ہم یہ سارا کام بطور ایک کمیونٹی کے کرتے ہیں۔ ہر ایک کو کچھ نہ کچھ حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ جیسے بائیو گیس میں ہم نے لوگوں کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں سے گائے بھینسوں کا فضلہ اکٹھا کریں اور جہاں گیس بن رہی ہے وہاں لے کر آئیں۔ ان میں ذمہ داری کا ایک عنصر ہے۔ پھر ہم نے بجلی کے لیے علاقے میں سولر پینل بھی لگائے اور اس طرح آس پاس کے 13، 14 گھروں کو پہلے اور پھر زمینوں کے ساتھ پھیلے ہوئے تقریباً پچاس گھروں کو بعد میں بجلی پہنچائی۔ لوگ اب خوش ہیں۔‘

’ملچر‘ کلچر

’میں اور میرے شوہر فصلوں کی باقیات کو جلانے کے بہت خلاف ہیں کیونکہ اس سے بہت سموگ اور آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ ہم نے اس کا متبادل ڈھونڈنے کے لیے دوبارہ تحقیق شروع کی۔ پھر وہی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ۔ جو سب سے سستا اور آسان حل ہمیں ملا وہ یہ تھا کہ فصل کی باقیات کو مٹی کے ساتھ شامل کر کے اسے ایک آرگینک مادہ بنائیں اور پھر استعمال کریں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ہم نے وہ ملچر اپنی زمین پر پھیرنا شروع کیا اور دوسرے کسانوں کو بھی اس کی تعلیم دینی شروع کی۔ ملچر نے مٹی کے ساتھ مل کر کھاد کا کام کیا اور یہ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ ایک گورنمنٹ آفیسر نے اسے دیکھا اور ہم سے ماڈل ڈیزائن لیا۔ اب اس وقت پنجاب حکومت کسانوں کو سبسڈی دے رہی ہے کہ وہ ملچر خریدیں اور فصلوں کی باقیات کو جلانا بند کر دیں۔‘

خواتین ورکرز اور کارپوریٹ فارمنگ

سحر اقبال کے فارم پر مستقل ملازمین کی تعداد 14 ہے جن میں سات خواتین اور سات مرد ہیں۔ ان کے گھر بھی سحر کے گھر کے ساتھ ساتھ ہی بنے ہوئے ہیں۔ باقی ورکرز ان کے کھیتوں پر سیزن کے حساب سے بلائے جاتے ہیں۔ ’جب میں نے کھیتوں میں جانا شروع کیا تو اس کی وجہ سے دوسری خواتین نے بھی وہاں آنا شروع کیا جو کہ ایک خوش آئند بات تھی۔ میں چاہتی تھی کہ اس فیلڈ میں جو کہ مکمل طور پر ’میل ڈومینیٹڈ‘ ہے خواتین بھی آئیں۔

’میں اپنے علاقے میں کارپوریٹ فارمنگ کا تصور لے کر آئی ہوں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آلو کی فصل کی پکنگ ہوتی ہے تو خواتین کو ایک خاص طرح کی ٹریننگ دی جاتی ہے کہ گریڈر پر کس طرح بیٹھنا ہے، آلوؤں کو کس طرح پِک کرنا ہے اور آلوؤں کی وہ کوالٹی پک کرنی ہے جو کارپوریٹ سائیڈ کو چاہیے۔

’اس کا سب سے زیادہ فائدہ ان خواتین کو یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی ٹریننگ سے گزرنے کے بعد ان کی کمائی عام فارم ورکروں سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ بہت سے زمیندار ہم سے ناراض بھی ہیں کہ ہماری وجہ سے ان کی لیبر خراب ہو رہی ہے۔ آلوؤں کی ورائٹیاں ہمیں پیپسی کی طرف سے ملتی ہیں اور وہی ہمیں بتاتے ہیں کہ اس سال ہم نے کون سے فصل کو کتنے فیصد لگانا ہے۔‘‘

سحر کہتی ہیں کیونکہ ہمارے ورکرز خوش ہیں اس لیے ہماری فصلیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر آلو ہی کو لے لیں سحر کے مطابق ہر سال آرام سے یہ فصل 120 ٹن تک نکل آتی ہے۔ ’ہماری پروڈکشن اس لیے بھی ماشااللہ تھوڑی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ہم نت نئی ٹیکنیکس استعمال کرتے رہتے ہیں جیسا کہ ڈرپ اریگیشن کی تکنیک وغیرہ۔‘

اسی طرح سحر کیٹل فارمنگ کو بھی کارپوریٹ فارمنگ کی طرف لے گئی ہیں اور نیسلے اور دوسری بڑی کمپنیاں ان سے دودھ حاصل کر رہی ہیں۔ ’کیونکہ میری خواتین ورکرز تربیت یافتہ ہیں اس لیے وہ وہاں بھی بہت اچھے طریقے سے مینیج کر لیتی ہیں۔‘

گورنمنٹ سرونٹ: کیا جاب آڑے آتی ہے؟

سحر کہتی کہ ایسا بالکل نہیں ہوتا بلکہ جاب کرنے کی وجہ سے میرا، محکمے کا اور کسانوں کا، سب کا فائدہ ہو رہا ہے۔

’میں پنجاب حکومت کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے محکمے میں تعلقاتِ عامہ کے شعبے سے وابستہ ہوں اور میں روزانہ جاب پر جاتی ہوں۔ میں نے یہ جاب شادی کے تین سال بعد شروع کی تھی۔ شروع شروع میں گاؤں میں میرے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا تھا تو میں ریڈیو ہی سنتی رہتی تھی۔ جب میں نے پی آر ڈیپارٹمنٹ میں نوکری شروع کی تو میں نے دیکھا کہ ریڈیو کو صحیح طریقے سے استمال نہیں کیا جا رہا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’حکومت کی بہت ساری مہم کا کسانوں کو پتہ ہی نہیں چلتا، بہت ساری رعایتیں ملتی تھیں اور انھیں پتہ ہی نہیں چلتا تھا کیونکہ ہمارے پاس آگاہی کے ذرائع ہی نہیں ہوتے۔ اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مجھے ایسے ہی شعبے میں نوکری ملی۔ ایک میٹنگ میں مجھے کہا گیا کہ کوئی پروپوزل دیں تو میں نے کہا کہ ہم ریڈیو کو اس طرح استعمال نہیں کر رہے جس طرح اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں نے اس کا ذمہ اپنے سر لیا اور پورے پنجاب کی میپنگ کی کہ کون سا ریڈیو سٹیشن کہاں ہے، اور ان سے انفارمیشن لی۔ اور اس کے بعد ہم نے دور دراز کے علاقوں میں وہ کیمپیئنز شروع کیں جن کی وہاں کے لوگوں کو ضرورت تھی۔ اس طرح کسانوں کو پنجاب حکومت کی ان سبسڈیز کے متعلق پتہ چلا جن کا پہلے انہیں علم تک نہیں تھا۔‘

سرٹیفائیڈ فارم، یہ کیا چیز ہے؟

سحر کے فارم اور اس پر کام کرنے والی خواتین کی شہرت جلد ہی دور دراز تک پھیل گئی اور رائٹرز نیوز ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں انھیں سنہ 2019 میں ’انفلوئنسر آف دی ایئر‘ کا خطاب دیا۔ اس کے بعد دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں نے بھی ان کے کام کو سراہا اور ان پر دستاویزی فلمیں بنائیں۔ اسی سال انھیں آسٹریلیا میں ہونے والے ایک پروگرام ’وومن ٹرینڈنگ گلوبلی‘ کے لیے منتخب کیا گیا اور انھوں نے اس میں شرکت کی۔

سحر کہتی ہیں کہ اس پروگرام نے میری فارمنگ کی سوچ کو بھی بالکل بدل کے رکھ دیا اور مجھے لگا کہ ہر کاشتکار، خصوصاً خواتین کاشتکاروں کو اس طرح کے پروگراموں میں حصہ لینا چاہیے۔

’آسٹریلیا میں ہونے والے پروگرام میں پاکستان سے میں واحد خاتون تھی جو سیلیکٹ ہوئی تھی۔ مجھے وہاں جا کر معلوم ہوا کہ فارم کو سرٹیفائی کروانے سے اس کی پروڈکشن ویلیو کو کیا فرق پڑے گا۔ اور تھرڈ پارٹی سے سرٹیفائی کروانے کا مطلب کیا ہے؟

اس سے پہلے تو گمان میں بھی نہیں تھا کہ فارم بھی سرٹیفائی ہوتے ہیں۔ وہاں سے آ کے میں نے اپنے شوہر سے اس کے متعلق بات کی تو انھوں نے کہا کیوں نہ پیپسی، جس کو ہم سپلائی کر رہے تھے، ان سے ہی سرٹیفیکیشن کے متعلق بات کریں۔ انھوں نے ہی ہمارے فارم کی تھرڈ پارٹی سرٹیفیکیشن کروائی۔

’ہمارا فارم ہمارے علاقے میں پہلا فارم ہے جو سرٹیفائیڈ ہے اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ میں اس ساری پروڈکشن میں کیا ویلیو اڈیشن کر رہی ہوں اور میری ساتھی خواتین کیا ویلیو ایڈیشن کر رہی ہیں۔

’ہر فصل کے دوران ہمارے پاس 200 سے 300 کے قریب لوگ آتے ہیں۔ ویسے تو کووڈ سے پہلے ہمارے مستقل 14 ورکر تھے لیکن اب کووڈ کے بعد وہ بھی دگنے ہو چکے ہیں۔ جب آپ مکئی لگا رہے ہوتے ہوں تو یہ کام خواتین کرتی ہیں، چاول کی فصل خواتین لگاتی ہیں، اس میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔ 90 فیصد خواتین ہوتی ہیں اور باقی 10 فیصد ان کے رشتہ دار مرد۔‘

باس کون ہے؟

’زمینوں پر اب بھی باس میرے شوہر ہی ہیں لیکن ان کی باس میں ہوں۔ ویسے خواتین میری بات ہی زیادہ مانتی ہیں اور میرے شوہر نے بھی جب ان سے کوئی کام کروانا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ ’فیر میں باجی نوں دساں تسی تد ای کم کرو گے (تو میں باجی کو بتاؤں تو پھر تب ہی تم کام کرو گے)‘۔ کسانوں کے مسئلے حل ہونے کے لیے آخر کار میرے پاس ہی آتے ہیں۔‘

اور کیا کرنا ہے؟

سحر کہتی ہیں کہ فارمنگ سے تھوڑے بہت پیسے تو سبھی بنا رہے ہیں لیکن ان کا اہم مقصد کمیونٹی کی ترقی ہے، خواتین کو با اختیار بنانا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اگر خواتین با اختیار ہیں، اگر ان کے پاس اتنا علم یا آگہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کی طرف لے کر جائیں تو سمجھیں چیزیں بدل رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ صحت مند کمیونٹی میں ہی کاشتکار کا فائدہ ہے اور اگر کمیونٹی خوش ہے تو پیداوار پر بھی اس کا اثر پڑے گا اور وہ بھی اچھی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp