ثبات: ’ہمارے معاشرے کو ایسی مثبت کہانی کی بہت ضرورت ہے‘ ڈرامے کے آخری قسط نشر ہونے پر صارفین کا ردعمل


زندگی پہیلی ہے، زندگی فسانہ ہے

گیت گائے کوئی بھی ساتھ گنگنانا ہے

گذشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر فیس بک سٹیٹس ہو یا انسٹاگرام پوسٹس، اس گیت کے بول بارہا شیئر کیے جاتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ تھی پاکستان کے نجی ٹیلی وژن ’ہم ٹی وی‘ پر چلنے والا ڈرامہ سیریل ’ثبات‘ جس کی آخری قسط اتوار کی رات نشر ہوئی ہے۔

اس ڈرامے کے ’اچانک اختتام‘ پر جہاں شائقین کچھ حیران ہوئے ہیں وہیں وہ اس ڈرامے کی کہانی اور کرداروں سے مطمئن اور خوش بھی نظر آ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’کبھی کبھی فینٹسی بھی اچھی لگتی ہے‘

کیا پاکستانی ٹی وی ڈرامہ فحش اور غیراخلاقی ہو گیا ہے؟

کیا ترکی کے ڈراموں سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو کوئی خطرہ ہے؟

ڈرامے کی مقبولیت کی وجہ

اگر سوشل میڈیا صارفین کے ردعمل کو دیکھا جائے تو اس ڈرامہ کے مداحوں کو جو بات سب سے زیادہ پسند ائی وہ یہ ہے کہ آج کل ڈارموں کی مقبولیت کو بڑھانے کے لیے جس بے جا سنسنی اور پاکستانی میں رائج ثقافت اور روایات سے ہٹ کر مناظر اور خیالات کو فروغ دیا جا رہا، ثبات میں ایسا کچھ بھی نہیں دکھایا گیا۔

اس ڈرامے کی مقبولیت کی یوں تو کئی وجوہات ہیں مگر ان میں سرِفہرست لیلی زبیری، سیمی راحیل اور احمد علی جیسے اداکاروں کی پرفارمنس اور ماورا حسین، سارہ خان اور عثمان مختار جیسے نوجوان اداکاروں کے مضبوط کردار ہیں۔

اگر آپ نے یہ ڈرامہ نہیں دیکھا تو ہم آپ کو بتاتے چلتے ہیں کہ اس کی کہانی خواتین کے مضبوط کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔

ایک طرف سیمی راحیل جیسے متوسط طبقے کی خاتون مشکل وقت میں اپنے شوہر اور بیٹی کا سہارا بنتی ہیں تو وہیں ایک دولت مند خاندان میں لیلی زبیری کا کردار خاندان کو جوڑے رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیلی زبیری کے کردار کو شائقین کی جانب سے مسلسل پذیرائی ملتی رہی۔

اس کہانی میں دو نوجوان لڑکیوں کو بھی اپنی اپنی جگہ مضبوط کرداروں میں دکھایا گیا۔ ایک سارہ خان (میرال) جو ایک کاروباری خاتون ہیں لیکن کئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں تو دوسری جانب ماورا حسین (عنایہ) جو متوسط طبقے کی لائق انجیئر ہیں، سیلف میڈ ہیں اور ذاتی نقصان کی فکر نہ کرتے ہوئے نفرت اور ہراسانی کے خلاف ڈٹ جاتی ہیں۔

ٹوئٹر صارف اقصیٰ بٹ کا کہنا ہے ’یہ ہوتا ہے اصلی خوشگوار اختتام۔ ہمارے معاشرے کو ایسی مثبت کہانی کی بہت ضرورت ہے۔‘

عورت کی مضبوطی

شائقین نے ڈرامے کے اختتام پر اسے سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی کہانی زبردست تھی اور اس میں خواتین اور ان کی شخصی آزادی کو درپیش مسائل کی عکاسی بخوبی کی گئی ہے۔

ایک ٹوئٹر صارف نیہا ملک کا کہنا تھا ’ڈیئر انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ہمارے معاشرے کو اس قسم کی مثبت کہانی کی ضرورت ہے، میں اس ڈرامے کے مصنف کاشف کی تعریف کرتی ہوں کہ انھوں نے لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے کیسے اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں اور اپنے فیصلوں پر ثابت قدم رہ سکتے ہیں۔‘

وہیں اس ڈرامے کی ایک مرکزی کردار عنایہ کو اس کے دفتر میں ہراسانی کا سامنا کرنے پر اس سے ڈرنے کے بجائے اس کے خلاف آواز اٹھانے پر کافی پسند کیا گیا۔ ڈرامے کے اس منظر کو شیئر کرتے ہوئے ایک صارف کا کہنا تھا ’یہ منظر بہت اطمینان بخش تھا، کتنی خواتین ہیں جو ایسا کر پاتی ہیں؟‘

شریک حیات کا ساتھ

اس ڈرامے میں جو دوسرا موضوع کہانی کو آگے لے کر چلا وہ تھا میاں بیوی کے درمیان شک، غلط فہمیوں اور عدم اعتماد کے باعث پیدا ہونے والے فاصلے۔

سوشل میڈیا پر لوگوں نے آخری قسط میں دونوں جوڑوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کو سراہتے ہوئے کہا کہ شکر ہے کہ اس ڈرامے کی ’ہیپی اینڈنگ‘ ہوئی ہے۔

ایک صارف امجد بلوچ کا کہنا تھا ’ثبات ڈرامے نے ثابت کیا کہ اگر شریک حیات وفادار ہو تو وہ آپ کو بدترین صورتحال میں بھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ پھر چاہے آپ اُن کے ساتھ کتنا ہی برا سلوک کیوں نہ کریں۔‘

اس ڈرامے میں دکھائے جانے والے دونوں جوڑوں میں ایک ایک شریک حیات کو اعلیٰ ظرف دکھایا گیا جنھوں نے معافی کا وصف اپنایا اور کئی لوگوں نے ایسا پیغام عام کرنے کو بھی سراہا۔

عروج احمد کا کہنا تھا ’اگرچہ میں چاہتی تھی کہ عنایہ، حسن کو معاف نہ کرے لیکن اس اختتام نے مجھے درگزر کے معنی سمجھا دیے۔ ہم اتنے سخت کیوں ہو گئے ہیں؟ ہم خوشگوار اختتام کیوں نہیں چاہتے؟ بچوں کو ماں باپ دونوں کا پیار ملنا چاہیے جو اسے مل گیا۔‘

فریحہ نور کو بھی یہی پہلو بھایا۔ ان کے بقول ’کسی کو معاف کرنا آپ کو کمزور نہیں بناتا بلکہ اس سے آپ کی خوشیاں بحال ہوتی ہیں۔‘

اس ڈرامہ میں ایک ماہر نفسیات کا کردار ادا کرنے والے عثمان مختار کو لوگ ان کی ڈرامے میں انٹری سے ہی بے تحاشا پسند کر رہے تھے۔ بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ وہ اس سین کے بے چینی سے منتظر تھے۔ اور آخری قسط میں ان کے مضبوط جملوں نے ناظرین کو محظوظ بھی کیا اور جذباتی بھی۔

ان کا ایک ڈائیلاگ بارہا ٹویٹ کیا گیا جس میں وہ اپنے اہلیہ کو حادثے کے نتیجے میں معذوری کا شکار ہونے کے بعد اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلاتے ہوئے کہتے ہیں ’رشتے کاروبار تو نہیں ہوتے کہ جب تک سب ٹھیک ہیں، چلتے رہو جب خراب ہو جائے تو بند کر دو۔‘

عثمان مختار کے مداحوں کا خیال ہے کہ ان کا کردار ان کے شایانِ نشان نہیں تھا۔

وردہ نامی ٹوئٹر صارف منفی سوچ رکھنے والوں کو خبردار کرتی نظر آئیں کہ ’ثبات، کیا اختتام تھا! اپنے اندر ایک ’میرال‘ رکھنے والوں کے لیے پیغام ہے کہ کچھ بھی کرنے، کہنے اور سوچنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچ لیں۔‘

ڈرامہ ختم کرنے کی جلد بازی پسند نہیں آئی

کچھ صارفین نے ڈارمہ ختم ہونے پر کہا کہ کاش یہ ڈرامہ کچھ اور چلتا۔ ساتھ ہی اس کی موسیقی اور گانے کو بھی سراہا گیا۔

صحاب قریشی نامی صارف کو اتنی جلد بازی میں ڈرامہ ختم کیا جانا پسند نہیں آیا ان کا کہنا تھا ’ثبات کے مصنف کو اسے ختم کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ یہ آج کل کا بہترین ڈرامہ تھا لیکن اسے جلد بازی میں ختم کیا گیا لیکن بلاشبہ یہ بہترین ڈرامہ تھا۔ ثبات کی ٹیم کے لیے شاباش۔‘

ایک صارف کو میرال کا ایکدم اچھا ہو جانا ہضم نہیں ہوا۔ صباحت کا کہنا تھا ’میرال کی گاڑی کیا کسی فلسفے کی کتاب سے ٹکرائی تھی؟ اچانک اتنی تبدیلی؟ مجھے ثبات کا اتنی جلد بازی میں ختم کیا جانا پسند نہیں آیا۔‘

کچھ صارفین کے مسائل الگ تھے، سلیمہ کا کہنا تھا ’میں نے سپوائلرز سے بچنے کے لیے نہ ٹوئٹر دیکھا اور نہ انسٹاگرام لیکن جونہی یوٹیوب کھولا ثبات سامنے آ گیا۔‘

دراصل وہاں ڈارمے کی ویڈیو کے تھمب نیل پر اس ڈرامے کا ایک خوشگوار منظر دکھائی دے رہا ہے۔

وہیں چند صارفین ایسے بھی ہیں جنھوں نے ثبات ڈرامہ دیکھا ہی نہیں اور انھیں آڑے ہاتھوں بھی لیا جا رہا ہے اور ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ ’کیا وہ واقعی پاکستانی ہیں؟‘

ایسے ہی ایک صارف علی حسن نے ٹویٹ کیا ’میرے دوست ثبات اور اس کے اختتام کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور میں نے اس کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp