پی ٹی وی، پارلیمان حملہ کیس: عمران خان کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں بریت کی درخواست جمع


پی ٹی وی
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے سنہ 2014 میں سرکاری ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) اور پارلیمان پر حملے کے مقدمے میں اپنی بریت کی درخواست اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع کروائی ہے۔

نامہ نگار بی بی سی شہزاد ملک کے مطابق عمران خان کے وکیل کی طرف سے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر کی گئی بریت کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس مقدمے کے کسی گواہ نے وزیر اعظم عمران خان کے اس حملے میں ملوث ہونے کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا۔

واضح رہے کہ ستمبر 2014 میں اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کے دوران ان جماعتوں کے کارکنوں نے پاکستان ٹیلی ویژن اور پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بول دیا تھا اور سیاسی کارکنوں نے نشریات میں خلل ڈالنے کی کوشش بھی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان اور طاہر القادری اشتہاری قرار دے دیے گئے

وارنٹ کے اجرا کے بعد عمران کا ضمانت کروانے سے انکار

پارلیمان پرحملہ، عمران اور قادری کے وارنٹ گرفتاری برقرار

اس حملے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک آڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں پاکستان کے موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ٹیلی فون پر اس واقعے کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں۔ اس آڈیو کے بارے میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے کوئی تردید سامنے نہیں آئی۔

اس واقعہ کا مقدمہ سرکاری مدعیت میں عمران خان سمیت دیگر افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا۔

پاکستان

عمران خان کو سیاسی عداوت کی بنیاد پر پھنسایا گیا

وزیر اعظم کی بریت کی اس درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ اس مقدمے میں عمران خان کو سیاسی عداوت کی بنیاد پر پھنسایا گیا ہے کیونکہ اس واقعے میں اُن کا کوئی کردار نہیں تھا۔

وزیر اعظم عمران خان اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کی وجہ سے اُنھیں اشتہاری قرار دے دیا گیا تھا۔ بعدازاں جب سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت ختم ہونے کے قریب تھی تو اس کیس میں نامزد ملزم عمران خان عدالت میں پیش ہوئے جس پر عدالت نے عمران خان کے اشتہاری ہونے کا سٹیٹس ختم کر دیا تھا۔

مقامی پولیس کے مطابق اس مقدمے میں پاکستان کے موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی بھی نامزد ملزمان میں شامل ہیں تاہم بطور صدر ان کو استثنیٰ حاصل ہے اور ان کے خلاف ضابطہ فوجداری کے مقدمات کی کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی ہے۔

عمران خان

اس واقعہ میں پولیس اہلکاروں پر تشدد بھی کیا گیا تھا

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی ملزمان میں شامل ہیں تاہم وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس کی وجہ سے انھیں اشتہاری قرار دیا گیا جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور صوبہ پنجاب کے سینیئر وزیر علیم خان بھی اس مقدمے میں نامزد ملزمان ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بریت کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ یہ مقدمہ سیاسی طور پر درج کیا گیا تھا اس لیے اس مقدمے میں کسی کو سزا ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے وزیر اعظم کی بریت کی درخواست پر 29 اکتوبر کو فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp