بوہومل ہرابل کا ناول:Too Loud a Solitude


تم پوچھتی ہو نا ہر وقت کتابیں کیوں پڑھتے رہتے ہو۔ کہتی ہو! زندگی میں ان خشک کتابوں کے سوا اور بھی بہت کچھ ہے ۔ چھوڑو سب کچھ اور میری طرف دیکھو ،مجھ سے باتیں کرو۔ میں تمھاری بات مان کر کچھ دیر کو تمھارے حسن کے سحر میں کھو تو جاتا ہوں۔ مگر دل انھیں خشک کتابوں میں اٹکا رہتا ہے۔ تم جاننا چاہتی ہو نا کہ آخر ان کتابوں میں کیا کشش ہے جو کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ تو تھوڑا وقت نکال کر بوہومل ہرابل کا ناول Too loud a Solitude پڑھ لو۔

 یہ بھی میرے ہی جیسے ایک شخص کی کہانی ہے کتابیں ہی جس کا سب کچھ تھیں۔ اسے بھی لوگوں سے زیادہ کتابوں کے کرداروں اور ان کے خیالات میں دلچسپی ہے۔ اسی لیے وہ بھی ہر لمحہ کتابوں کی آغوش میں بتانا پسند کرتا ہے۔ ہر کتاب اس کے لیے ایک زندہ وجود ہے۔ اپنے لکھنے والے سے علیحدہ ایک زندہ وجود۔ اور وہ زندگی کو کتابوں کے علاوہ کسی نظر سے دیکھنے یا محسوس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے۔ اس کے ذہن میں اٹھنے والی ہر سوچ کسی نہ کسی بڑے لکھاری کے خیال سے منسلک ہوتی ہے۔

مگر بدقسمتی سے وہ بھی ایک ایسے ملک کا باشندہ تھا جہاں کتابوں کو جرم قرار دے کر مٹانے کا حکم دیا جا چکا تھا۔ وہ پینتیس سال سے ایک ایسے کارخانے میں کام کر رہا ہے جہاں سارے شہر سے ضبط کی گئی باغیانہ کتابوں کو فنا کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ وہ ان میں سے نایاب کتابوں کو چوری چھپے بچا کر اپنے گھر میں جمع کرتا ہے۔ پینتیس سال میں اس نے مذہب، فلسفہ، تاریخ اور ادب کی دو ٹن سے زیادہ کتابیں جمع کر لیں۔ اپنے گھر کو چھت تک کتابوں سے بھرا دیکھ کر اسے لگتا ہے جیسے اس نے تاریخ انسانی کے سارے سرمائے کو بچا لیا ہو۔

وہ بھی میرے طرح زندگی کی تلخ پہلوؤں کو ہی دیکھتا ہے۔ اسے بھی کہیں کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ایک اتفاقیہ واقعے نے نہ صرف اس کی محبت چھینی بلکہ اس کی محبوب کی ساری شخصیت ہی مسخ کر دی۔ شہر کے نیچے بدرو میں کالے اور گورے چوہوں کے درمیاں لڑائی ہوتی ہے۔ اس کا دوست اس لڑائی کا چشم دید گواہ ہوتا ہے۔ گورے چوہے کالے چوہوں کو شکست دے کر شہر کی ساری گندگی پر اپنا حق ثابت کر دیتے ہیں۔ پھر ان گورے چوہوں کے دو گروہوں آپس میں لڑنے لگتے ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ یہ گندگی ان کے لیے کم نہ پڑجائے۔ اسے اپنا آپ بھی ایک چوہے جیسا لگتا ہے جو ہر وقت کتابوں میں گھسا انھیں چاٹتا رہتا ہے۔ ایک خانہ بدوش لڑکی اس کے چھوٹے سے بل میں آتی ہے۔ وہ جب اس کے کمرے میں سوتی ہے تو کسی چوہیا جیسی معصوم لگتی ہے۔ مگر اسے جرمن نازی اٹھا کر لے گئے اور وہ دھواں بن کر فضا میں گھل مل گئی۔ وہ اس کے سنگ ساحل سمندر پر پتنگ اڑایا کرتا تھا۔ پتنگ اڑاتے اسے لگا وہ مسیح ہے، پتنگ خدا اور ڈور روح القدس ہے۔

وہ زندگی کے بارے میں مسیح اور لاؤزی کے خیالات پر خود سے بحث کرتا ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ دونوں میں سے کون زیادہ صحیح ہے۔ شاید دونوں ہی ٹھیک کہتے ہیں۔ لیکن اخلاقیات پر کانٹ کی بات بہت گہری لگتی ہے۔ اسے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے کیونکہ اب اس کا کام کرنے کے لیے مشینیں آ چکی ہیں۔ اب کسی کو کتاب کو بچانے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ اس نئی دنیا میں غیر متعلق ہوچکا ہے۔ اب لوگون کو یونانی تہذیب کی علمی گہرائی سمجھنے سے زیادہ گھوم پھر کر یونان دیکھا پسند ہے۔ اب زندگی محض مادی ترقی کا نام ہے۔ وہ اپنی کتابوں کے ساتھ مر جانا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).