علی ظفر، میشا شفیع تنازع: گلوکار کو نمل نالج سٹی میں بطور سفیر تعینات کرنے پر سوشل میڈیا صارفین کا ملا جلا ردعمل


پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اتوار کو صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی میں نمل نالج سٹی کا سنگ بنیاد رکھا اور معروف گلوکار و اداکار علی ظفر کو اس کا سفیر مقرر کیا ہے جس کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے علی ظفر نے اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ انھیں فخر ہے کہ انھیں یہ عہدہ دیا گیا ہے۔

لیکن جہاں ایک جانب علی ظفر کے چاہنے والوں نے انھیں مبارک باد پیش کی، وہیں دوسری جانب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک بڑی تعداد میں صارفین نے وزیر اعظم عمران خان کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ان صارفین میں سے کئی نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان میں علی ظفر کے علاوہ ایسا کوئی اور شخص حقدار نہیں تھا جسے یہ عہدہ دیا جاتا۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

کیا ہتکِ عزت کا قانون آواز اٹھانے والوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے؟

’ہراس کا شکار خواتین اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کر سکتی ہیں‘

کیا پاکستان میں MeToo# مہم خطرے کا شکار ہے؟

علی ظفر پر ہونے والی اس تنقید کا کا محور اُن کا گلوکارہ میشا شفیع سے ہونے والا تنازع ہے۔

اپریل 2018 میں میشا شفیع نے ایک ٹویٹ کے ذریعے علی ظفر پر انھیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد ایک طویل قانونی جنگ کی ابتدا ہوئی تھی۔

پہلے دونوں میں مخالفانہ بیانات کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر یہ بات قانونی نوٹسز تک جا پہنچی۔ بعد ازاں عدالت نے کیس ’تکنیکی بنیادوں‘ پر خارج کر دیا کیونکہ لاہور ہائیکورٹ کے مطابق فریقین میں مالک اور ملازم کا رشتہ نہیں ہے۔

اس کے بعد سے دونوں فریقین کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً بحث چھڑتی رہتی ہے اور اس بار بھی علی ظفر کو نمل نالج سٹی کا سفیر مقرر کرنے پر کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔

’علی ظفر کو اچانک سے کام اور پذیرائی ملنا شروع ہو گئی‘

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا کہ یہ پریشان کُن بات ہے کہ علی ظفر جن کی گذشتہ کچھ عرصے سے مقبولیت میں کمی ہو رہی تھی، ان کو اچانک سے کام ملنے لگا ہے اور ان کو عوامی سطح پر پزیرائی مل رہی ہے، اور یہ سب کچھ ان پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کرنے کے بعد ہو رہا ہے۔

ایک اور صارف ایمن نے بھی اس فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خوش آمدید، جہاں معروف ماہر معیشت عاطف میاں کسی یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب نہیں کر سکتے لیکن مبینہ طور پر خواتین کو ہراساں کرنے والے علی ظفر، جن کی اپنی کوئی خاص تعلیمی قابلیت نہیں ہے، انھیں ایک یونیورسٹی کا سفیر مقرر کیا جا سکتا ہے، وہ بھی ایسی یونیورسٹی کا جس کے بانی وزیر اعظم پاکستان ہوں۔‘

ایک اور صارف مشال ملک لکھتی ہیں کہ اس فیصلے سے لگتا ہے کہ عمران خان ایک اشارہ دینا چاہتے ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ ’اس ملک کے وزیر اعظم کی جانب سے ایک ایسے شخص کو عہدہ دینا جن پر ہراساں کرنے کے الزامات ہوں اور وہ اس قدر متنازع شخصیت ہوں، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کس کی طرفداری کر رہے ہیں۔‘

صارف باسط نے اپنی ٹویٹ میں عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کی کتاب میں ایک واقعہ کا حوالہ دیا جس میں ریحام خان بتاتی ہیں کہ کس طرح عمران خان نے علی ظفر کا ایک گانا گلوکار کو خوش کرنے کی غرض سے ٹویٹ کیا تھا۔

کسی شخص کو صرف الزامات عائد ہونے کی وجہ سے سزا نہیں دی جا سکتی

لیکن دوسری جانب علی ظفر کی حامیوں نے بھی ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور ان پر ہونے والی تنقید کا دفاع کیا۔

اسامہ نامی صارف نے علی ظفر کو نئے ملنے والے عہدے پر مبارک باد دی اور لکھا کہ وہ اس کے مستحق ہیں۔

علی ظفر

علی ظفر

ایک صارف نے لکھا کہ ان کا ذاتی طور پر نہ علی ظفر سے کوئی تعلق ہے نہ میشا شفیع سے کوئی رشتہ، لیکن کسی شخص کو صرف الزامات عائد ہونے کی وجہ سے سزا نہیں دی جا سکتی۔

ایک اور صارف علی نے بھی یہی نکتہ اٹھایا کہ علی ظفر کو عدالت نے بے گناہ ثابت کر دیا، تو ان کا نمل نالج سٹی کے لیے سفیر بننا خواتین پر حملہ کیسے ہو سکتا ہے؟

واضح رہے کہ دو ماہ قبل اگست میں علی ظفر کو حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا اور اس موقع پر بھی ان کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس اعزاز کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس کے بعد ستمبر میں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سائبر کرائمز لاہور نے گلوکار علی ظفر کی جانب سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت انھیں بدنام کرنے کی کوشش کے الزام میں میشا شفیع سمیت کل نو افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔

گذشتہ سال نومبر 2018 میں بھی علی ظفر نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں شکایت درج کروائی تھی، جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ بہت سارے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ان کے خلاف ’دھمکیاں اور بدنامی کا باعث بننے والا مواد‘ پوسٹ کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp