بلتستان کے مسائل اور پھول شہزادی


یہ روٹی اتنی کالی اور بے ذائقہ سی۔ کیوں؟ یہ آٹا کہاں سے آ رہا ہے۔ بہو بولی شاید روسی یا یوکرائنی گندم ہے۔ مجھے تو ان دنوں کاموں کے اژدہام میں اخبارات کے مطالعہ کی بھی مہلت نہ ملی تھی۔ ”ہائیں“ آنکھیں پھٹیں۔ اس زرعی ملک کی سونے رنگی میٹھی گندم کہاں گئی؟ بہو ہنسی وہیں جہاں پہلے چینی گئی تھی۔ اس جذباتی بوڑھی عورت کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ ابھی دو دن پہلے بیٹی چین سے آئی تھی۔ پی آئی اے کی تباہی کے دکھڑوں نے ہمارے دکھ کو دو چند کر دیا تھا۔

بیجنگ سے پہلے لوکل فلائٹ سے پہلے چندو گئی۔ جہاں پی آئی اے کی خصوصی پرواز سے اسلام آباد آئی۔ ہمارا قومی سمبل چاند تارے کا علمبردار ساری دنیا میں اڑانیں بھرتا ہمارے دیس کی نمائندگی کرتا کیسے پاتال میں گر گیا ہے؟ لائق باپ کی نالائق اولاد کتنے فضول فروعی جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہے۔ جاہل عورتوں کی طرح منہ پر ہاتھ پھیر کر مخالف کو چھبیاں دیتی ہے۔ چلو لندن جاکر اس گولو مولو کو لے بھی آیا اسے بندی خانے میں بھی ڈال دیا تو؟ غریب کو روٹی دال سبزی سے واسطہ۔ پھل اس کی بساط سے باہر۔ نگوڑا کیلا چلو وہ کھا سکتا ہے مگر پچاس روپے درجن بکنے والے کیلے کو دیکھا ہے کسی نے؟ اس بیچارے پر جانے کون سی زہریلی ادویات کا چھڑکاؤ ہوتا ہے کہ پکتا بعد میں ہے اندر سے سڑ پہلے جاتا ہے۔

رات بلتستان سے ایک محب وطن بلتی کا فون تھا۔ سوال تھا اس کے لہجے میں۔ پاکستان ماں ہے ہماری۔ پر کیسی؟ سوتیلی۔ جو اپنے بچوں کو ان کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ ان بچوں کے بڑوں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود ڈوگرہ فوج سے جنگ لڑی۔ اسے جیتا اور یہ جنت نظیر علاقہ طشتری میں رکھ کر اس ماں کو پیش کیا۔ اور یہ ماں تہتر 73 سال سے بس اسے گولیوں ٹافیوں پر بہلا رہی ہے۔ صبر پتری تمہارے تائے انڈیا نے تمہارا بڑا بھائی مقبوضہ کشمیر کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔

اسے آزاد کرا لوں پھر تم سب کو اپنی ممتا کی چھترچھاؤں میں لے کر تمہیں اپنا وارث ٹھہراؤں گی۔ اب ماں کو کون سمجھائے کہ اس ناہنجار تائے مودی نے تو ہمارا بھائی قید کر لیا ہے جس کے چھٹنے کا کوئی امکان ہی نہیں۔ تو اب ہمیں تو دیکھے ایک تو خود کمزور اور بیمار ہوئی بیٹھی ہے۔ اوپر سے بچوں کی دیکھ بھال سے غافل۔

فون سننے کے بعد دیر تک بیٹھی سوچوں میں گم رہی۔ بلتستان گلگت میری زندگی کے وہ خوبصورت اور جذباتی گوشے ہیں جن سے میری نوسٹلجیائی یادوں کی لام ڈوریاں بندھی ہوئی ہیں۔ 1954 کی پوہ ماگحھ راتوں کے پہلے پہروں جب گھر کے سب افراد ماں جی (نانی) کے کمرے میں چارپائیوں پر کمبلوں اور رضائیوں میں لپٹے خشک خوبانی، سوکھے توت اور گریوں سے شغل کرتے ہوئے بڑے ماموں کی باتیں سنتے تھے کہ جو شمالی علاقہ جات سے ابھی چند دن پہلے اپنی سالانہ چھٹی پر گھر آئے تھے۔ ان علاقوں کی سچی، محیر العقول، تاریخی کہانیاں اور ان کی جنگ آزادی کے واقعات جو انہیں سرکاری دوروں کے دوران سننے کو ملتے تھے۔

یہ بلتی لوگ سیدھے سادے مخلص اور پاکستان سے محبت کرنے والے اس خشک بنجر سنگلاخ چٹانوں والے علاقے جس پر تبتی، لداخی، کشمیری اور ایرانی تہذیبوں کے ملاپ کی گہری چھاپ ہے۔ اس وقت موسیقی، فنون لطیفہ، ثقافت اور تہذیبی اثرات جیسے الفاظ تو سر پر سے گزر گئے۔ بس یادوں میں کسی لفظ کی باز گشت رہ گئی یا پھر کہانی رہ گئی۔ جو علی شیر خان انچن اور اس کی ملکہ پھول شہزادی کی تھی۔ اتنی دلچسپ کہ بہت دنوں تک اس کا خمار رہا۔

تو پھر جب 1986 میں اپنے خوابوں کی سرزمین بلتستان دیکھنے گئی اور جناب غلام وزیر مہدی جو اس وقت ضیا الحق کی مجلس شوری کے معتمد رکن تھے سے ملنے گئی تو اس محبت سے لتھڑے شخص کا پہلا سوال یہ تھا۔ تم چھوربٹ سے ابھی ابھی سکردو پہنچی ہو۔ چھ سات گھنٹے کا یہ طویل اور مشکل سفر مگر بہت تازہ دم لگ رہی ہو۔

آپ نہیں سمجھیں گے ان علاقوں سے میری محبت کو۔ میں نمک خوار ہوں ان پھلوں کی، ان چھوٹی چھوٹی سوغاتوں کی جو مجھے بچپن میں ملتی تھیں اور جن کا تعلق ان علاقوں سے تھا۔ واپسی کے لیے کوئی سواری ملی نہیں۔ جس سوزوکی والے سے رات بات ہوئی وہ آیا نہیں۔ سیاری سیکڑ سے آنے والے پاکستان آرمی کے ایک ٹرک میں لفٹ لی۔ وہ بھی پچھلے حصے میں کبھی کھڑے اور کبھی بیٹھ کر۔ دریائے شیوق کی ٹھنڈی ٹھار ہواؤں کو پھانکتے ہوئے سفر کیا۔ مگر مہدی صاحب بہت خوش ہوں کہ اپنے ساتھ بہت کچھ سمیٹ کر لائی ہوں۔ یہ ساری سرشاری اسی اثاثے کی ہے۔

اب وہ پوچھتے ہیں تو شوگر میں کہاں ٹھہریں اور کیا کیا باتیں ہوئیں۔

قراقرم کے دامن میں بکھری بلتستان کی حسین وادی شوگر کے اسٹنٹ کمشنر داؤد صاحب یاد آئے کہ جن کا کہنا تھا پاکستان کی حکومت کو 1948 میں نظم و نسق سنبھالنے کے ساتھ ہی الحاق کے متعلق وضاحت کردینی چاہیے تھی۔ مقامی لوگوں کو انتظامی معاملات میں شریک کرنا ضروری تھا مگر یہاں وڑوے جیاتے نکل دے جیا والی حکمت عملی تھی۔

بھٹو نے بہت سی اصلاحات کیں۔ سیشن کورٹ کا اجرا، ایف سی آر اورراج گیری نظام کے خاتمے کے ساتھ مالیہ کی بھی معافی۔ یہ سب اپنی جگہ مگر آئینی حیثیت پھر بھی واضح نہیں ہوئی۔

میں ضیا الحق کی مجلس شوری کا رکن ہوں۔ انہوں نے واشگاف لفظوں میں اسے آئینی حیثیت دینے کا وعدہ کیا ہے مگر میں جانتا ہوں ایسا نہیں ہوگا۔ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی۔ گلگت بلتستان عظیم تر کشمیر کا کاغذوں میں جو حصہ ہے یہ کاغذوں میں ہی رہے گا۔ مجھے تو اپنی زندگی میں اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ واقعی یہ ابھی بھی کاغذوں میں ہے۔ جانے کب تک کاغذوں میں رہے گا۔

ایک وفادار قوم جسے خوامخواہ ہی مایوسی، بددلی، بے چینی اور غیر یقینی حالت میں رکھا ہوا ہے۔ ایک جرات مندانہ قدم کی ضرورت ہے۔ مگر کون اٹھائے؟

پھول شہزادی یاد آئی تھی۔ شہنشاہ اکبر کی عزیز جسے بلتستان کا عظیم فرمانروا دلی سے بیاہ کر لایا تھا۔ جس نے گنگوپی نہر بنائی اور سارے سکردو کو ہرابھرا اور سرسبز کر دیا۔ غلے اور چارے کی بہتات ہوئی اور لوگوں نے نعرے لگائے۔

ملکہ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رہے۔ تو جب لوگوں کو روٹی ملتی ہے اور خوشحالی آتی ہے تو سلامتی کے نعرے لگتے ہیں۔ اور جب حکمران خود محلوں میں رہیں اور لوگ روٹی کو ترسیں تو پھر گوگو کے نعرے مقدر بنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).