عوامی مشکلات اور اپوزیشن کے احتجاجی جلسے


گوجرانوالہ، کراچی اور اب کوئٹہ میں متحدہ اپوزیشن نے جلسے کیے اور اپنی بساط کے مطابق اپنی بھرپور قوت کا اظہار بھی کیا اور بیانیہ یہ دیا گیا کہ عوام مہنگائی اور اپنے مسائل میں اس بری طرح سے گھر چکی ہے اس لیے ہم عوام کے درد کو سمجھتے ہوئے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ یہ بیانیہ بالکل اس سے ملتا جلتا ہے جو پی ٹی آئی نے بحیثیت اپوزیشن رکھا تھا جب وہ اقتدار میں نہیں تھے کہ عوام اس لیے بدحالی کا شکار ہیں کیونکہ روزانہ بیس ارب روپے کی کرپشن اس وقت کی حکومتیں کر رہی ہیں اور ٹیکسوں کا پیسے سے حکمران مزے کر رہے ہیں اور ہم حکومت میں آ کر چونکہ اس کا خاتمہ کر دیں گے اس لیے عوام کو خوشحال کر دیں گے۔

یہ خوش کن باتیں پاکستان کی بالخصوص ڈگری ہولڈر مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کو بہت بھائیں کہ جب پرانی سیاسی جماعتوں کو الٹا لٹکا دیا جائے گا تو ملک میں زبردست صنعت کاری ہو گی اور بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں آئیں گی جس میں ان سب کو اعلی نوکریاں ملیں گی جس سے ان کی زندگیوں میں ناقابل یقین خوشحالی آئے گی گو کہ پی ٹی آئی نے نہ تو کوئی ٹھوس اور قابل عمل طریقہ کار بتایا تھا اور نہ ہی کبھی کوئی شیڈو بجٹ بنا یا تھا اور نہ ہی کبھی آئی ایم ایف سے بچنے کا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا طریقہ کار بتایا تھا۔

جب کہ اگر دیکھا جائے تو کسی کی مجبوری یا محرومی کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے لیکن پاکستان میں کرپشن کی تعریف محض سول اداروں اور محکموں میں کی گئی مالی خردبرد ہی ہے۔ ان تمام باتوں کا مرکز صرف یہ تھا کہ عمران خان کو اقتدار دلا دو سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ اگر ایک ایماندار شخص اوپر آ جائے تو نیچے سب ٹھیک ہو جاتا ہے یعنی کہ اس سرمایہ داری نظام میں اور اس کے انتظامی اسٹرکچر میں کچھ بھی خامی نہیں ہے جبکہ یہ سب تو بہترین ہے اور مسئلہ صرف چند لوگوں کو تبدیل کرنے کا ہے۔

پاکستان کا باشعور اور ترقی پسند طبقہ (ظاہر ہے اس میں ٹی وی ٹاک شو کے شوبز دانشوروں کی بات نہیں ہو رہی) اس بات کو سختی سے رد کر رہا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ نظام ہمیشہ شخصیات پر حاوی ہو جاتا ہے اس لیے اگر حقیقی بہتری چاہتے ہو تو نظام کو بدلو نہ کہ شخصیات کو لیکن اس پر تو کام ہی نہیں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات جس کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا وہ حکمران طبقہ کی تعریف تھی۔ پاکستان میں حکمران طبقہ صرف حکمران سیاسی جماعت کو کہا گیا جبکہ حقیقت میں حکمران جماعت جس کی مدد اور تعاون سے حکومت کر رہی ہوتی ہے وہ بھی حکمران طبقہ کا ایک بہت بڑا اور انتہائی اہم دھڑا ہوتا ہے اور یہ سب مل کر حکمران طبقہ کہلاتا ہے اس کے کسی ایک خاص حصہ کو ہم مکمل طور پر حکمران طبقہ نہیں کہہ سکتے۔

اس طرح پاکستان میں پارلیمان اور اس میں شامل مختلف سیاسی جماعتیں، عدلیہ، اہم سول اور دفاعی محکموں کے کلیدی عہدیدار، بڑے ملکی اور غیر ملکی کارپوریشنوں کے عہدیدار بلکہ بڑے زمیندار اور وڈیرے بھی اس میں شامل ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ تمام اس میں سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ شریک اقتدار کر لیتے ہیں اور سیاسی جماعت کا کام عوام کو مطمئن رکھنا ہوتا ہے اس کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی فورم پر یہ ملکی ترجمان کے طور پر پیش ہوتے ہیں کیونکہ ان کو جمہوری حکومت کے طور پر پہچانا جاتا ہے حالانکہ پاکستان میں جو حکومت ایک سے ڈیڑھ کروڑ ووٹ حاصل کر لے وہ بائیس کروڑ عوام کی نمائندہ جماعت کہلائی جاتی ہے جبکہ حقیقی نمائندگی کے لیے کم از کم بارہ سے پندرہ کروڑ ووٹ تو ضرور ہونے چاہئیں۔

اس لیے کوئی بھی سیاسی جماعت اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے تابع کر سکے کیونکہ اس کے لیے عوام کی قطعی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے جو حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے اور نظام کو بدل بھی سکتی ہے اور اس کو انقلاب کہا جا سکتا ہے اگر دیکھا جائے تو ان جماعتوں کا حقیقی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ یہ خود کسی نہ کسی دھڑے کے مفادات کے تحفظ کے لیے وجود میں آتی ہیں۔ یہ موجودہ جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں یہ اسی حکمران دھڑوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں اور پھر ان کو عوامی بنا کر میڈیا اور دوسرے ذرائع سے عوامی سیاسی جماعت بنایا جاتا ہے جبکہ حقیقی عوامی جماعت وہاں کے محنت کش طبقے کی ترجمان ہوتی ہے جو عوام کے مسائل کی نشاندہی کرنے کے بعد ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک عوامی حل پیش کرتی ہے جس کو اگر پذیرائی حاصل ہو تو عوام اس میں شامل ہو جاتے ہیں اور اس کی نہ صرف تنظیم سازی کرتے ہیں بلکہ اس کو خود چلاتے ہیں اور اس سے یہ کسی کو اقتدار میں نہیں لاتے بلکہ خود اقتدار میں آتے ہیں۔

عوامی سیاسی جماعت شخصیات کے لیے نہیں بلکہ نظریات کے اطلاق کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے جو نوکری پیشہ، کسان، مزدور، محنت کش اور دیگر محروم طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ان کی نمائندہ جماعت ہوتی ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے وجود میں آتی ہے اور اس کی مثال آپ کو دنیا بھر کی سوشل ڈیموکریٹ اور لیبر پارٹیوں میں مل سکتی ہے جو اسی طرح وجود میں آئیں تھیں لیکن موجودہ سرمایہ داری نظام میں اس کا حصہ بن شروع میں اس کو تبدیل کرنے کا نعرہ لگایا پھر اقتدار میں آ کر اصلاحات کا ذکر چھیڑا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ پاپولزم کا شکار ہوتی چلی گئیں اور اب وہ بھی دیگر پارٹیوں کے طرح کی ہی ایک پاپولسٹ پارٹی بن گئیں ہیں۔

اس کی ایک قریب ترین مثال پاکستان میں پیپلز پارٹی کی ہے جو بہت ریڈیکل نظریات کے ساتھ وجود میں آئی لیکن موجودہ نظام کا حصہ بن کر وقت کے ساتھ ساتھ آج اتنی دہائیوں بعد وہ بھی تقریباً ویسی ہی ایک سیاسی جماعت بن کر رہ گئی ہے جیسی کوئی بھی اور سیاسی جماعت ہو۔ حد تو یہ ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں بھی ایک عوامی سیاسی جماعت کو اقتدار میں آنے کے لیے بائیس کروڑ کی آبادی میں سے محض ایک کروڑ ووٹ نہیں بلکہ دس یا پندرہ کروڑ ووٹ ضرور ہونے چاہیے تاکہ وہ اپنے ووٹروں کے مفادات کا تحفظ کرسکے۔

آئیے اب اس تناظر میں ہم موجودہ پاکستانی سیاسی منظر نامہ کو دیکھتے ہیں۔ موجودہ سیاسی افق پر ہم کو اوپر بیان کردہ کوئی بھی عوامی مفادات کی سیاسی جماعت نظر ہی نہیں آتی یہ تمام کسی نہ کسی طریقہ سے یا تو مکمل طور پر ان دھڑوں کی تخلیق کردہ ہیں یا پھر کم از کم ان کے مفادات کے تحفظ کی نگران ہیں جب کبھی ان کی اپنے مفادات کے لیے باقی دھڑوں سے ان بن ہو جاتی ہے تو باقی دھڑے ان کو کرپشن اور مہنگائی کے نام پر دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیتے ہیں اور پھر کسی اور کی باری آجاتی ہے اور یہ سب کچھ بظاہر عوامی مفاد اور ملکی سلامتی کے لیے ہوتا ہے۔

اب عتاب زدہ جماعت اندرون خانہ باقی دھڑوں یا اس میں سے کسی ایک دھڑے سے سازباز شروع کرتی ہے اور صاحب اقتدار سیاسی جماعت اور باقی دھڑوں کو دباؤ میں لانے کے لیے عوامی مشکلات اور محرومیوں کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مظاہروں اور جلسوں کا اہتمام کرتی ہے تاکہ باقی کے حکمران دھڑوں کو یہ باور کرایا جاسکے کہ ہمیں واپس اقتدار میں لایا جائے کیونکہ اب بپھرے ہوئے عوام کو وہی سنبھالنے کی پوزیشن میں ہیں۔

یہ سیاسی دھرنے اور جلسے جلوس اسی لیے کیے جاتے ہیں کیونکہ اگر ہم دیکھیں تو موجودہ اپوزیشن کوئی بھی ایسا پروگرام دینے سے قاصر ہے جو عوامی مشکلات کا حل ہو اور تمام زور صرف اور صرف اس بات پر ہے کہ موجودہ حکومت کو ہٹا کر ہمیں اقتدار دلا دو اور یہی سب کچھ موجودہ حکومت نے اپنے اپوزیشن کے دور میں کیا تھا۔ اگر واقعی ان کو عوامی مشکلات کا درد ہوتا تو وہ دھرنا جو ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں، لیڈی ہیلتھ ورکرز، پیرا میڈیکل سٹاف، ینگ ڈاکٹرز اور دیگر محنت کشوں نے اسلام آباد میں دیا یہ اس کا حصہ بنتے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو براہ راست اپنی مشکلات کے تدارک کے لیے سراپا احتجاج ہیں یا یہ ان کو اپنی تحریک کا ہراول دستہ بناتے اور ان کے پیچھے خود کھڑے ہوتے۔

اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں طلباء کے اسکالر شپ ختم کر دیے گئے ان میں وہ بلوچ طلباء بھی ہیں جن کو آغاز حقوق بلوچستان کے تحت تعلیم کے لیے وظائف ملتے تھے وہ اس موجودہ حکومت نے ختم کر دیے جس کو اس کے اپوزیشن کے دور میں سب سے زیادہ مروڑ تعلیم اور صحت کے کم بجٹ پر اٹھتے تھے لیکن یہ مسئلہ بھی آج کی متحدہ اپوزیشن نکات میں شامل نہیں ہے حالانکہ یہ پیپلز پارٹی کے دور میں ہی شروع ہوا تھا۔

اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ ان جلسوں کی الیکٹرانک میڈیا پر ایک میراتھن ٹرانسمیشن پیش کی گئی نام نہاد تجزیہ نگاروں کو بٹھا کر سیاسی دنگل بنایا گیا اور اس کی آڑ میں کمائی کی گئی جبکہ اس کے دسویں حصے کے برابر بھی اسلام آباد میں محنت کشوں کے دھرنے کو کوریج نہیں دی گئی اور نہ ہی بہا الدین یونیورسٹی کے ان بلوچ طلباء کو کوریج دی گئی جو ملتان سے اسلام آباد اپنے اسکالرشپ کی بحالی کے لیے پیدل لانگ مارچ کیا یا جنہوں نے ملتان سے کوئٹہ لانگ مارچ کیا یا جو گورنر ہاؤس کے گیٹ کے باہر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ یاد رہے جب سیاست اور صحافت عوام سے اتنی بیگانگی اختیار کر لیتے ہیں تو پھر عوام کا بھی ان سے مکمل اعتبار اٹھ جاتا ہے اور وہ بھی ویسی ہی بیگانگی اختیار کر لیتے ہیں پھر اس کا نتیجہ وہی برآمد ہوتا ہے جو آج کل لبنان میں، کزغزستان میں، نائجیریا میں، عراق میں یا چلی میں یا اور کئی دیگر ممالک میں ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).