خواتین مسافروں کی زبردستی تلاشی لینے پر آسٹریلیا کا قطر سے احتجاج


قطر کے دارالحکومت دوحہ کے ایئر پورٹ سے ایک لاوارث نومولود بچہ ملنے پر خواتین مسافروں کی تلاشی اور تفصیلی معائنے پر آسٹریلوی حکام نے اس اقدام کو پریشان کن اور جارحانہ قرار دیا ہے۔

قطری حکام کے مطابق دوحہ کے شیخ حماد انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے بیت الخلا سے دو اکتوبر کو ایک نومولود بچہ ملا تھا جسے بظاہر لاوارث چھوڑ دیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق واقعے کے بعد جہاز سے کئی خواتین کا زچگی کے آثار دیکھنے کے لیے معائنہ کیا گیا جن میں آسٹریلوی مسافر خواتین بھی شامل تھیں۔

آسٹریلیا کی حکومت نے مذکورہ خواتین کی جانب سے آواز اُٹھانے پر قطری حکام سے احتجاج کیا ہے اور باضابطہ طور پر شکایت بھی درج کرا دی گئی ہے۔

آسٹریلیا کی وزیر خارجہ مرائز پین کا کہنا ہے کہ “یہ انتہائی پریشان کن اور ناپسندیدہ واقعہ ہے۔ میں نے ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں سنا ہے۔ ہم نے قطری حکام سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔”

‘اے ایف پی’ کے مطابق قطر ایئر پورٹ پر ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خواتین مسافروں کو جانچ پڑتال کے سخت مراحل سے گزارا گیا۔

ایک مسافر نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ اس فلائٹ میں دوحہ سے سڈنی پہنچنے والی خواتین گھبرائی ہوئی تھیں۔ انہیں جانچ پڑتال کے دوران کپڑے اُتارنے پر بھی مجبور کیا گیا۔

مسافر نے بتایا کہ “وہ سب پریشان تھیں۔ بہت زیادہ غصے میں، ایک رو رہی تھی۔ بہرحال کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے۔”

دوحہ ایئر پورٹ حکام نے واقعے کی تصدیق کی ہے مگر خواتین کی شکایات کے حوالے سے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔

حکام کے مطابق طبی عملے نے بچے کو جنم دینے والی خاتون کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے تلاش کرنے پر زور دیا تھا جس کے بعد یہ کارروائی کی گئی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کچھ افراد، جنہیں ایئر پورٹ کے اس علاقے جہاں یہ نوزائیدہ بچہ ملا تھا تک رسائی تھی، انہیں اس تلاش کے سلسلے میں مدد کی درخواست کی گئی تھی۔”

حکام نے مذکورہ بچے کی ماں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کرے کیوں کہ اس روز ہونے والی جانچ پڑتال کے باوجود بچے کو جنم دینے والی خاتون کا تعین نہیں ہو سکا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے قطر کی بین الاقوامی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے ہو سکتے ہیں۔ قطر 2022 میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی بھی کرنے والا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa