دریا کبھی سمندر کا راستہ نہیں پوچھتا


ایک بادشاہ سلامت نے خواب دیکھا کہ اس کے سب دانت گر گئے ہیں، بادشاہ سلامت ایسے عجیب خواب پہ بہت پریشان ہوئے اور اپنے خواب کی تعبیر جاننی چاہی۔ وزیر خاص کو حکم ہوا کہ تعبیر بتانے والوں کو لائن حاضر کیا جائے تو وزیر با تدبیر نے چار لوگوں کو دربار میں حاضر ہونے کا فرمان جاری فرمایا۔

چاروں کے سامنے بادشاہ سلامت نے اپنا خواب دہرایا اور انہیں تعبیر بتانے کا کہا۔ پہلے نے کہا کہ حضور آپ اپنے رشتہ داروں اور عزیز و اقربا کو اپنے ہاتھوں دفنائیں گے۔ بادشاہ سلامت کے نازک مزاج پہ یہ تعبیر گراں گزری اور انہوں نے موصوف کی گردن اڑانے کے احکامات موقعے پہ جاری کر دیے۔

دوسرے کو تعبیر بتانے کا اذن ملا تو انہوں نے خوب حساب لگایا اور ہر طرح سے زائچہ کھینچا، کنڈلی آگے پیچھے کر کے بھی دیکھ لی لیکن وہ بھی پہلے والے سے مختلف تعبیر نہ بتا سکے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے درخواست کی کہ حضور ہمارے علم کے مطابق یہی تعبیر ہے کہ آپ اپنے عزیزوں کو ایک ایک کر کے مرتا دیکھیں گے۔ بادشاہ سلامت مزید برہم ہوئے اور ان کے لئے بھی موت کا پروانہ جاری کر دیا۔

تیسرے صاحب کی جبہ اور دستار بتا رہی تھی کہ موصوف اپنے علم میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اور ان کو تعبیر بتانے میں ملکہ حاصل ہے لیکن اپنی تمام تر نابغہ روزگاری کے باوجود بھی جب وہ کچھ مختلف تعبیر نہ بتا سکے تو پھر ان کے لئے سزا بھی کیسے مختلف ہو سکتی تھی۔ بادشاہ سلامت نے ان کے لئے بھی سر تن سے جدا کرنے کی سزا قائم رکھی۔

دربار کے ماحول کا تناؤ بہت بڑھ گیا تھا۔ کیونکہ چوتھے نمبر والا عالم ایک نوجوان تھا اور جوان موت کے دکھ اور کرب نے سب کو پیشگی سوگوار کر دیا تھا۔ نوجوان کو خواب کی تعبیر بتانے کا حکم ہوا تو وہ کچھ یوں گویا ہوا: آپ کے خواب کے مطابق آپ طویل عمر پائیں گے اور عوام تا دیر آپ کی حکومت سے مستفید ہوتے رہیں گے، اور اس طویل عمری کے باعث جو عزیز و اقربا آپ کے سامنے وفات پا جائیں گے آپ خود ان کے آخری سفر کے سارے انتظامات مکمل کروائیں گے۔

یہ تعبیر بادشاہ سلامت کے دل کو بھا گئی، نوجوان کے لئے تحائف اور انعامات کا اعلان ہوا۔ بادشاہ سلامت نے پوچھا اے نوجوان تیری عمر پہلے تینوں حضرات سے کم ہے اور پھر علم کا یہ عرفان اور مقام کیسے حاصل کیا۔ وہ کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت میں نے تعبیر انہی سے سیکھی ہے لیکن آپ کو تعبیر بیان کرتے ہوئے اسی بیانئے کو مختلف نظریے سے بیان کیا۔ بادشاہ سلامت مزید مرعوب ہو گئے اور دربار میں اس نوجوان کی خوب عزت افزائی فرمائی۔

آج کے حالات کے تناظر میں انفرادی اور اجتماعی طور پہ بھی ہمیں اپنے گرد تیزی سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور پیش رفت کو سمجھنا ہے۔ اپنی قوت ارادی اور اخلاقی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے ان حالات سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔ بے قابو مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، کرونا وبا میں شدت، کمزور معیشت، بے ہنگم سیاسی حالات اور خاص طور پہ نوجوان طبقے کی صلاحیتوں کو درست سمت میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔

یہ تمام مخدوش حالات انشا اللہ سدا نہیں رہیں گے، لیکن ان کے حل تک ہمیں سب کو مل کر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں مثبت روئیے اور مثبت طریقے سے کام کرتے رہنا ہو گا۔ مقتدر حلقوں اور بالخصوص عوام سے رابطے میں رہنے والے علما حضرات کو اس میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ اور ہر ذمہ دار شخص نتائج سے ماورا ہو کر جہاں تک ہو سکے اپنا حصہ اس میں ڈالے کیونکہ دریا کے چلتے پانی نے کبھی کسی سے سمندر کا راستہ نہیں پوچھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).