عبدالرؤف حسام: کیا القاعدہ کے مرکزی رہنما کی افغانستان میں ہلاکت امریکہ، طالبان معاہدے کے لیے ایک ممکنہ ضرب ہے؟


افغانستان کے استخباراتی ادارے این ڈی ایس نے القاعدہ کے ایک اہم مرکزی رہنما عبدالرؤف حسام عرف ابو محسن المصری کو صوبہ غزنی کے ضلع اندڑ میں اپنے میزبان، طالبان کے مقامی رہنما سمیت ایک چھاپے میں مارنے کا دعویٰ کیا ہے۔

افغانستان میں القاعدہ کے ایک ’انتہائی مطلوب دہشتگرد‘ کی ہلاکت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات کا پڑاؤ انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس حساس مرحلے میں طالبان کی میزبانی میں القاعدہ کے ایک صفِ اول کے رہنما کی ہلاکت شاید افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان رواں سال فروری میں ہونے والے ‘امن معاہدہ’ کے لیے منفی مضمرات پیدا کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بین الافغان امن مذاکرات پر جہادی گروہ منقسم

کابل میں تعلیمی مرکز پر خود کش حملے میں 24 افراد ہلاک

ملک رئیس خان: قبائلی رہنما جن کے قتل کی فوج اور طالبان دونوں نے مذمت کی

اس مضمون میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ عبدالرؤف حسام کا القاعدہ سے کیا تعلق تھا اور آیا ان کی ہلاکت سے افغان امن مذاکرات پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

کیا یہ امریکہ، طالبان معاہدے کے لیے ایک ممکنہ ضرب ہے؟

عبدالرؤف حسام کے مارے جانے کی خبر سب سے پہلے نامور افغان صحافی بلال سروری نے ہفتے کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شائع کی۔ اس کے اگلے ہی روز سروری نے حسام کی ہلاکت کے بعد کی تصویر اس خبر کے ساتھ شائع کی کہ افغان استخباراتی ادارے کے بقول عبدالرؤف حسام افغانستان کے صوبہ غزنی کے ضلع اندڑ میں طالبان کے ایک مقامی رہنما عبدالحلیم کے ساتھ مارے گئے ہیں۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے بھی حسام کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور اسے القاعدہ، طالبان خفیہ گٹھ جوڑ کا ایک اہم ثبوت قرار دیا ہے۔ امریکہ کے انسدادِ دہشت گردی کے قومی ادارے کے سربراہ کریس میلر نے بھی حسام عبدالروف کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے اور اسے القاعدہ کے لیے ایک اہم نقصان قرار دیا ہے۔

فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کا اساسی نقطہ یہ تھا کہ طالبان مستقبل میں دوبارہ افغان سرزمین کو امریکہ اور اس کی اتحادیوں کے خلاف سرگرمِ عمل دہشت گردوں کی پناہ گاہ بننے نہیں دیں گے۔

اس ضمانت کے نتیجے میں امریکہ نے 14 مہینوں کی مدت میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بین الافغانی تفاہم کے بعد افغانستان سے مکمل انخلا کا اعلان کیا ہے جس کی صورت میں افغانستان میں اس مرتبہ عالمی برادرای کی حمایت کے ساتھ طالبان کو اقتدار میں حصہ ملنے کا امکان ہے۔

موجودہ افغان حکومت میں شامل اہم افراد اور گروہ جن میں اکثریت طالبان مخالف عناصر کی ہے، طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے یا ان کے ساتھ اقتدار میں شراکت داری کے شدید مخالف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کافی دنوں سے جاری مذاکراتی عمل میں پیشرفت کی بجائے ایسی خبریں متواتر کے ساتھ سامنے آرہی ہیں کہ شدید مشکلات کی وجہ سے ان مذاکرات میں کوئی خاص پیشرفت اب تک نہیں ہوسکی ہے۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گذشتہ روز جاری کیے گئے اپنے بیان میں طالبان کے اس مؤقف کو دہرایا ہے کہ افغان حکومت ایسی کوششوں میں مصروف ہے تاکہ اس امن معاہدہ کو کسی بھی صورت ناکام بنا سکے۔

لہذا افغان استخباراتی ادارے کی طرف سے امریکی انتخابات سے محض ایک ہفتہ قبل القاعدہ اور طالبان کا خفیہ گٹھ جوڑ ثابت کرنے کے لیے القاعدہ کے اس اہم رہنما کے مارے جانے کی خبر نشر کرنا اس سلسلہ میں بڑی پیشرفت سمجھی جاسکتی ہے۔

مگر امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی سے وابسطہ سیاسیات کے استاد اور امریکی خارجہ پالیسی کے ماہر ڈاکٹر اسفند یار میر کا کہنا ہے کہ اگرچہ عبدالرؤف حسام کی ہلاکت ایک بڑی خبر ہے مگر یہ امکان بہت کم ہے کہ یہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدہ کے لیے کوئی خطرہ بن جائے گا۔

ڈاکٹر میر کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی عوام سے افغانستان سے اپنی فوج نکالنے کا جو وعدہ کر رکھا ہے شاید القاعدہ اور طالبان کے خفیہ تعلق کا کوئی ثبوت اس عمل میں مشکلات پیدا کرسکے۔

ٹرمپ حکومت نے عبدالرؤف حسام کی ہلاکت کی اس مہم خبر پر خاموشی اختیار کی ہے کیونکہ شاید اس پر ردِعمل ان کے لیے چند روز میں ہونے والے امریکی انتخابات میں فائدہ مند ثابت نہ ہو سکے۔

دوسری طرف موجودہ امریکی حکومت کے حامیوں کی طرف سے غیر رسمی طور پر ایک ایسا بیانیہ سامنے آ رہا ہے جس میں عبدالرؤف حسام کی ہلاکت کی خبر کو غیر مہم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عبدالرؤف حسام کون تھا؟

امریکی استخباراتی ادارے ایف بی آئی نے سنہ 2018 میں عبدالرؤف حسام کا نام امریکہ کو مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا اور اسے القاعدہ کے نشریاتی ادارے سے منسلک مصری نژاد 62 سالہ ایک اہم رہنما بتایا تھا۔

امریکہ سے تعلق رکھنے والے عالمی جہادی تنظیموں کے ماہر محقق مسٹر چارلس لسٹر کا کہنا ہے کہ عبدالرؤف حسام کا بنیادی تعلق مصر سے تھا جو اسی دہائی میں روس افغان جنگ کے سلسلہ میں دیگر عرب جنگجوؤں کی طرح اس خطے میں منتقل ہوا تھا جو کہ شیخ عبداللہ عزام کے مکتبہ الخدمات کا حصہ تھا اور اسی دور سے اس کے القاعدہ رہنماؤں اسامہ بن لادن اور ایمن الظواھری سے قریبی تعلقات بن گئے تھے۔

القاعدہ کے مرکزی نشریاتی ادارے السحاب کی ایک ویڈیو کے مطابق حسام نائن الیون کے بعد سے پاک افغان خطے سے شائع ہونے والے القاعدہ کے ایک عربی مجلہ الصمود کا بانی مدیر رہا ہے جو اکیلے ہی کئی سالوں تک اس مجلہ کی ادارت اور اشاعت کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھا۔

القاعدہ پر گہری نظر رکھنے والی بی بی سی سے وابسطہ تجزیہ کار مینا ال لامی کا دعویٰ ہے کہ حسام اواخر سالوں میں السحاب کے سربراہ بن گئے تھے۔

عبدالرؤف حسام سنہ 2014 کے بعد سے ایک ایسے وقت میں اچانک القاعدہ کے مرکزی نشریاتی ادارے السحاب کا نمایاں چہرہ ابھرنے لگا جب خطے میں القاعدہ کے وہ تمام اہم رہنما یکے بعد دیگرے امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے جو اس سے بیشتر اہم امور پر القاعدہ کی ترجمانی کے لیے تنظیم کی نشریاتی فلموں میں متواتر نمودار ہوتے رہتے تھے، مثلاً ابویحیی اللیبی، عطیہ اللیبی، اور عزام الامریکی وغیرہ۔ مگر اس سے قبل القاعدہ کی مرکزی قیادت میں حسام کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا۔

عبدالرؤف حسام کا نام سنہ 2010 میں اسامہ بن لادن کو لکھے گئے ان کے نائب اور پاک افغان خطے میں القاعدہ کے سربراہ، شیخ عطیہ اللیبی کے خط میں ذکر کیے گئے القاعدہ کے ان اہم ارکان کی فہرست میں شامل نہیں تھا جن کا القاعدہ کی مستقبل کی ذمہ دارویوں کے حوالہ سے تذکرہ کیا گیا ہے۔

لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ خطے میں بڑی تعداد میں القاعدہ ارکان کی امریکی ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کی وجہ سے تنظیم میں قیادت کی خلا کو پُر کرنے کے لیے عبدالرؤف حسام کو اپنے سابقہ جہادی تجربہ اور القاعدہ قیادت کے ساتھ دیرینہ تعلق کی وجہ سے القاعدہ کے نشریاتی امور کا سربراہ منتخب کیا گیا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp