جنسی حملوں کے باعث مصر میں ’فیمینسٹ انقلاب‘ آنے لگا


فیمنزم: مصر میں 'خواتین کے حقوق کے لیے انقلاب' کیسے شروع ہوا؟
سلمیٰ ایل وردنے کہتی ہیں کہ مصر میں خواتین اور لڑکیوں پر جنسی نوعیت کے حملے عام ہیں لیکن اب متاثرین کی جانب سے اس کے خلاف جو ردعمل سامنے آرہا ہے، وہ پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔

سلمیٰ مصری مصنفہ، شاعرہ اور اینکر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں مصر میں جتنی بھی عورتوں کو جانتی ہوں، ان کے پاس جنسی ہراسانی، حملے یا ریپ کی کہانی ہے۔

یہ اس ملک میں روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے جہاں خواتین اپنے کپڑے نئے سٹائل کے بجائے یہ دیکھ کر منتخب کرتی ہیں کہ کس لباس میں وہ زیادہ محفوظ رہیں گی۔

یہ بھی پڑھیے

نعمان اعجاز کا عفت عمر کے ساتھ ’پرانا‘ انٹرویو کیوں وائرل ہوا؟

کیا پاکستان میں MeToo# مہم خطرے کا شکار ہے؟

’ہزاروں خواتین کی جعلی فحش تصاویر آن لائن شیئر کی گئیں‘

برسوں سے پدر شاہی روایات، مذہب اور قدامات پسندی کے ماحول میں خواتین اس وقت زیادہ تر خاموش ہی رہتی ہیں جب انھیں جنسی تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ وہاں متاثرہ خواتین کو ہی موردِ الزام ٹھرانے کا رواج زیادہ ہے۔

اب خواتین اور لڑکیاں کئی دہائیوں سے اختیار کی گئی چُپ توڑ رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر خود پر ہونے والے حملوں کی کہانی بیان کر رہی ہیں، ایک دوسرے کو ہمت دے رہی ہیں اور انصاف کا تقاضہ کر رہی ہیں۔

مصر

اہم موڑ

یہ رواں برس جولائی میں شروع ہوا جب ایک طالب علم احمد بسام ذکی کے خلاف اس قسم کے دعوؤں کو شیئر کیا گیا۔

22 سالہ طالبہ نادین اشرف نے ’اسالٹ پولیس‘ کے نام سے ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ بنایا اور یہاں خواتین کے پیغامات شیئر کیے جن میں وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ احمد بسام ذکی نے انھیں بلیک میل کیا، ان پر حملہ کیا، ہراساں کیا اور اُن کا ریپ کیا۔

کچھ ہی دنوں میں بسام کو گرفتار کر لیا گیا اور اب وہ ان الزامات کے حوالے سے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان پر 18 برس سے کم عمر کی تین لڑکیوں پر جنسی حملہ کرنے اور انھیں دھمکانے کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور لڑکی کو بلیک میل کرنے کا الزام ہے۔

وہ یہ الزامات مسترد کرتے ہیں۔

لیکن نادین کے بنائے گئے اس انسٹا گرام اکاؤنٹ کے فالوورز کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

نادین اس پر آنے والے ردعمل اور اس میں ہونے والی پیشرفت پر بہت جذباتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ ہی ہفتوں میں ملکی پارلیمان میں نیا قانون متعارف کروایا گیا جو خواتین کی شناخت کے تحفظ کے لیے تھا۔ یہ جنسی نوعیت کے جرائم کا شکار خواتین کی مدد کے لیے بنایا گیا ہے۔

گذشتہ برس ایک سماجی کارکن صبا خودر پر ہونے والا جنسی حملہ اتنا زیادہ پریشان کن تھا کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر امریکہ چلی گئیں۔

صبا نے خواتین کی مدد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ ان کا رابطہ وکلا اور تھیراپسٹ سے کرواتی ہیں اور اب وہ یہ دیکھ سکتی ہیں کہ ان کی مدد سے لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔

مصر

رواں سال کے اوائل میں ملک میں اعلیٰ مذہبی ادارے جامعہ الازہر نے خواتین کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے کپڑے کسی جنسی حملے کا جواز نہیں۔

صبا کہتی ہیں کہ ‘اس تحریک کے بعد پہلے جمعے کو کئی مساجد سے کہا گیا تھا کہ وہ جنسی ہراسانی کے خلاف خطبہ دیں۔’

اس تحریک نے متاثرین کو ہی قصور وار ٹھہرانے اور مذہب کے بارے میں ضروری بحث کو بھی جنم دیا۔

جانے مانے نام، معروف شخصیات اور انفلوئینسرز بھی ان کے حمایت میں آگے بڑھے اور مردوں نے ان خواتین کی ہاں میں ہاں ملائی۔

معروف مصری سیاح عمر سمرا ان افراد میں تھے جنھوں نے سوشل میڈیا پر اس کی حمایت کی۔

‘جو کچھ ہو رہا تھا مجھے اس پر بہت غم و غصہ تھا۔ یہ حد سے گزر چکا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سب تب ہی ٹھیک ہوسکتا ہے جب مردوں کا ان کی حرکتوں پر احتساب ہوگا۔’

سب داؤ پر لگ گیا

تاہم حقیقت میں اب بھی کئی خدشات موجود ہیں۔

مصر میں کئی برسوں سے حقوقِ نُسواں کے کارکنان ایک بہتر نظام عدل کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔ لیکن انھیں بہت کم کامیابی ملی ہے۔

ریپ یا جنسی ہراسانی کے خلاف بہت کم قانونی کارروائی ہوتی ہے اور ایسا صرف 2014 کے بعد ممکن ہوا تھا کہ موزن حسن نامی کارکن نے اسے غیر قانونی قرار دینے کے لیے مہم چلائی تھی۔

ہیومن رائٹس واچ کی روثنا بیگم کہتی ہیں کہ حکومت خواتین کے ساتھ ہے لیکن انٹرنیٹ سمیت دیگر عوامی جگہوں پر خواتین کو رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘حکام خواتین کو گرفتار کر رہے ہیں جیسے جو سوشل میڈیا انفلوئینسرز ہیں اور ٹک ٹاک پر ویڈیوز لگاتی ہیں، انھیں فحش قرار دیا جاتا ہے۔’

اس تحریک کے دوران 2014 کا ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ سامنے آیا ہے جو قاہرہ کے ایک لگژری ہوٹل سے جڑا ہے۔

اس واقعے میں مبینہ طور پر مصر کے طاقتور خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نو مردوں نے ایک نوجوان خاتون کا اجتماعی ریپ کیا، اس کی ویڈیو بنائی اور اپنے دوستوں کو بھیجی۔

استغاثہ نے ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ گواہان اور مقدمے سے جڑے دیگر افراد کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا طبی معائنہ ہوا ہے، ان کے فون اور لیپ ٹاپ ضبط کر لیے گئے ہیں تاکہ ذاتی معلومات حاصل کی جاسکے۔

روثنا بیگم کے مطابق حکومت خواتین کو ایک پیغام دے رہی ہے کہ اگر آپ ریپ کی شکایت لے کر یا گواہ بن کر سامنے آئیں گی تو خود بھی گرفتار کی جاسکتی ہیں۔

قاہرہ

قاہرہ کے ایک لگژری ہوٹل میں ہونے والے مبینہ گینگ ریپ کے واقعے میں ملزمان کے ساتھ ساتھ گواہان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے

مصر میں خواتین نے سب داؤ پر لگا دیا ہے، جس کی وجہ سے موجودہ تحریک بہت اہم ہے۔

مصر میں خواتین پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں آواز اٹھا رہی ہیں باوجود اس کے کہ قانونی نظام انھیں مکمل تحفظ نہیں دیتا، انھیں گھروں سے قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے، اور یہ کہ اب بھی نام نہاد غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔

امریکی نژاد مصری فیمینسٹ کارکن مونا الطحاوی پُرامید ہیں کہ یہ ملک میں خواتین کے حقوق کے انقلاب کا آغاز ہے۔ لیکن وہ ساتھ یہ بھی مانتی ہیں کہ اس بات کے شواہد ہیں کہ حکام متاثرہ خواتین کو چُپ کروانے کے لیے گواہان اور ٹک ٹاکر لڑکیوں کو گرفتار کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق انھیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ نوجوان خواتین، لڑکیاں اور ہم جنس پرست اس ماحول میں بھی ان مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp