امریکی صدارتی انتخابات 2020: انڈینز اور پاکستانی نژاد امریکی متحد


یہ 14 دسمبر 2012 کی بات ہے جب کنیکٹیکٹ کے سینڈی ہک ایلیمینٹری سکول میں فائرنگ کی خبر پہلے پہل آئی تھی۔

انڈین نژاد امریکی انوسٹمنٹ بینکر شیکر نرسمہن یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اس وقت ایک پارٹی کے لیے وائٹ ہاؤس میں تھے لیکن اس کے بعد وہ اداس ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خوفناک حملے کی تفصیلات سامنے آنے پر سب خاموش ہوگئے۔ اس حملے میں 20 بچے جو کہ سب کے سب دس سال سے کم عمر کے تھے اور چھ بالغ ہلاک ہو گئے تھے۔

اسی دن پہلی بار مسٹر نرسمہن کی ملاقات ایک پاکستانی امریکی دلاور سید سے ہوئی تھی۔

کیلیفورنیا میں رہنے والے ٹیکنالوجی کے شعبے میں کاروبار کرنے والے مسٹر دلاور سید نے کہا: ‘ہمارے دل مل گئے تھے۔ مجھے کمرے میں ایک شخص نظر آیا جس کا تعلق جنوبی ایشیا سے تھا اور وہ میری طرح ہی جذباتی تھا۔’

یہ بھی پڑھیے

امریکی الیکشن کے نتائج آنے میں تاخیر کیوں ہو سکتی ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو کس طرح تبدیل کیا ہے؟

امریکی الیکشن 2020: ڈونلڈ ٹرمپ آگے ہیں یا جو بائیڈن؟

امریکی صدارتی انتخاب میں چین کس کی جیت چاہتا ہے؟

دونوں جلد ہی دوست بن گئے اور انھوں نے مل کر ایشین امریکن اینڈ پیسیفک آئیلینڈرز وکٹری فنڈ (اے اے پی آئی ایف) قائم کیا۔ اس گروپ کا مقصد مقامی اور قومی سیاست میں ان علاقوں سے آنے والی برادریوں کی آواز بلند کرنا ہے۔ ایشین امریکی اور پیسیفک جزائر کے لوگوں کی امریکہ میں دو کروڑ سے زیادہ آبادی ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کی رائے دہی کا اندراج اور ووٹ دینے والوں کا فیصد دیگر برادریوں کی قومی اوسط سے کم ہے۔

اور مسٹر سید اور مسٹر نرسمہن اپنی تنظیم کے ذریعہ اس رجحان کو بدلنا کی خواہش رکھتے ہیں۔

انڈینز اور پاکستانی اکثر اپنے ممالک کے مابین کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں دونوں ممالک کے لوگ ایک ہی خطے جنوبی ایشیا کے باشندے ہیں اور اکثر سیاسی مہموں کے دوران مل کر کام کرتے ہیں۔

مسٹر نرسمہن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ان (مسٹر سید) کی ان حلقوں میں رسائی ہے جہاں میری نہیں ہے۔’ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کے ساتھ اسی لیے کام کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ مختلف برادری سے آتے ہیں اور امریکہ کے دوسرے کونے میں رہتے ہیں۔

ان کے گروپ نے جنوری میں ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈین کی صدارت کے عہدے کے لیے حمایت کی تھی۔ دونوں افراد کا کہنا ہے کہ مسٹر بائیڈن کی فتح امریکہ کو ‘زیادہ مساوی، انصاف پسند’ بنانے کا باعث ہوگی۔

انڈینز اور پاکستانیوں میں بہت کچھ مشترک ہے۔ ان میں سے کچھ ایک جیسی زبان بولتے ہیں، شمالی انڈیا اور پاکستانی کھانوں کی ایک مشترکہ تاریخ ہے اور دونوں ممالک کرکٹ کے کے شوقین ہیں اور بالی وڈ کی فلموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

لیکن مسٹر سید کا کہنا ہے کہ صرف یہی چیزیں ان کی قربت کا باعث نہیں بلکہ ‘ہمارے اقدار ایک جیسی ہیں۔’

ساتھ چلنا

انڈیا اور پاکستان کی ایک پیچیدہ اور متنازعہ تاریخ رہی ہے۔ سنہ 1947 میں انگریزوں سے آزادی کے ساتھ برصغیر کی ایک خونی تقسیم ہوئی تھی اور دو ممالک معرض وجود میں آئے۔ اس کے بعد ہونے والے مذہبی فسادات میں لاکھوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس وقت سے جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ ہمسایہ ممالک دو جنگیں لڑ چکے ہیں اور ان کے درمیان کشمیر پر محدود جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ دونوں ممالک مسلم اکثریتی سرحدی خطے پر اپنا دعویٰ پیش کرتے ہیں اور یہی ان کے مابین تنازعے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

لیکن مسٹر نرسمہن اور مسٹر سید کشمیر پر بات نہیں کرتے ہیں۔

مسٹر نرسمہن نے کہا: ‘ہم اس سے گریز کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں، دیکھو یہ انتخابات گھریلو معاملات کے متعلق ہیں۔’

بہت سارے انڈینز اور پاکستانی امریکی کہتے ہیں کہ ان کے وطن کے کشیدہ معاملات نے امریکہ میں ان کے تعلقات میں ترشی پیدا نہیں کی ہے۔

مسٹر نرسمہن کا کہنا ہے کہ دونوں برادریوں کے لیے وہ امور زیادہ اہم ہیں جن کا براہ راست ان کی روزمرہ کی زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ اور یہ ان کے بچوں کے متعلق ہے جو امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں اور انڈیا-پاکستان کے درمیان کا تنازع ان کے لیے زیادہ اہم فیکٹر نہیں ہے۔

نرسمہن نے مزید کہا: ‘میرا بیٹا کہتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان 50 یا 60 سال پہلے جو کچھ ہوا تھا اس کا میرے ساتھ کیا لینا دینا ہے؟’

ٹرمپ

سروے کے مطابق صدر ٹرمپ جنوب ایشیائی ممالک کے ووٹرز میں کم مقبول ہیں

مسٹر سید کہتے ہیں کہ اگر پہلی نسل کے پاکستانی امریکیوں کی بات کی جائے تو نائن الیون اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے واقعات نے امریکہ میں ان کے تجربات کو تشکیل دیا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں سے مسلمانوں، سکھوں، عرب اور جنوبی ایشیائی نسل کے لوگوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا اور انھیں دھمکیاں دی گئیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ان کی فتح کے بعد سے ہی اقلیتوں اور غیر ملکیون سے نفرت کے بیانیہ میں اضافہ دیکھاہے۔ مسٹر سید اس سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسٹر ٹرمپ ‘نفرت، تعصب اور امیگریشن مخالف جذبات میں اضافے’ کے لیے ذمہ دار ہیں۔

‘ٹرمپ انتظامیہ میں پیش آنے والے واقعات کے بعد میں نے اپنی مذہبی شناخت کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ لوگ یہ دیکھیں کہ ایک مسلمان امریکی کس طرح کا نظر آتا ہے۔’

‘جو چیز ہمیں متاثر کرتی ہے وہ مقامی ہے’

پاکستانی نژاد امریکی برادری کی آبادی تقریبا دس لاکھ ہے جبکہ انڈیا کے تقریبا 45 لاکھ لوگ وہاں آباد ہیں۔ دونوں ڈیموکریٹک کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ سنہ 2016 کے ایک سروے کے مطابق 88 فیصد پاکستانی امریکی اور 77 فیصد انڈین امریکیوں نے گذشتہ انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیا تھا۔ سروے میں یہ پایا گیا کہ صرف پانچ فیصد پاکستانی اور 16 فیصد انڈینز نے مسٹر ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔

رواں سال دونوں ممالک سے آنے والے لوگ مل کر اپنی پسند کے امیدوار کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف صدارتی انتخابات کے لیے ایک ساتھ ہین بلکہ سینیٹ اور کانگریس کی نشستوں کے لیے بھی مل کر کام کر رہے ہیں۔

انڈین امریکی منو میتھیوز اور ان کے پاکستانی نژاد امریکی دوست راؤ کامران علی اپنے مقامی ڈیموکریٹک امیدوار کینڈیس ویلنزوئلا کی حمایت کر رہے ہیں تاکہ وہ ٹیکسس میں اپنے کانگریس کے ضلع کی نمائندگی کریں۔

مسٹر میتھیو نے انڈیا اور پاکستان کے مابین تناؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ‘ہم کوشش کرتے ہیں اور ان باتوں سے اجتناب کرتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ ہم ان پر اتفاق نہیں کریں گے۔’

ریپبلکن پارٹی میں بھی ایسا ہی ہے۔ انڈیا میں پیدا ہونے والے رئیل سٹیٹ کا کاروبار کرنے والے راج کتھوریا اور پاکستانی امریکی شہاب قرنی ایک دوسرے کے دوست ہیں اور 20 منٹ کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ وہ دونوں مسٹر ٹرمپ کے لیے آن لائن مہم چلا رہے ہیں۔

مسٹر کتھوریا کے والدین تقسیم کے دوران نو تشکیل شدہ ملک پاکستان سے ہجرت کرکے انڈیا آئے تھے۔ ان کے لیے دونوں ممالک کے مابین معاملات یا تناؤ اہم اور ذاتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں اس کا اثر امریکہ میں ان کی زندگی پر نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا: ‘جو چیز ہم پر اثر انداز ہوتی ہے وہ مقامی سیاست ہے۔’

یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستانی امریکیوں کا کس طرف جھکاؤ ہے لیکن 2020 کے انڈین امریکن رویوں کے سروے کے مطابق 70 فیصد سے زیادہ انڈیا نژاد امریکی آئندہ انتخابات میں مسٹر بائیڈن کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انڈین برادری ہمیشہ کی طرح بڑے پیمانے پر ڈیموکریٹ کو ووٹ دے گی۔

یہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور مسٹر ٹرمپ کے مابین دوستی کی شہ سرخیاں بنانے کے باوجود ہے۔ گذشتہ سال ستمبر میں ہیوسٹن میں ‘ہاوڈی مودی’ کے نام سے منعقدہ ایک پروگرام میں دونون اکٹھے ہوئے جہاں مسٹر ٹرمپ نے اعلان کیا: ‘صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بہتر کوئی صدر آپ کا کبھی اور دوست نہیں ہوا ہے۔’

اور پھر رواں سال فروری میں مسٹر ٹرمپ نے انڈیا کا دورہ کیا جہاں انھوں نے مسٹر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں ایک لاکھ سے زیادہ کو مجمع سے خطاب کیا۔

لیکن سروے کے مطابق انڈین امریکی ووٹرز ‘امریکہ اور انڈیا کے تعلقات کو اس انتخاب میں انھیں ووٹ دینے کے لیے اہم فیصل کن چیز نہیں سمجھتے ہیں۔’ اس کے بجائے بہت سے دوسرے امریکیوں کی طرح وہ بھی معیشت اور ہیلتھ کیئر کو دو اہم ترین امور کے طور پر دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp