’میں بنگالی ہوں، میرا بوائے فرینڈ سیاہ فام تھا اور میری ماں یہ قبول نہیں کر پائیں‘


سلمیٰ
جب ایک برطانوی نژاد بنگالی لڑکی اپنے سیاہ فام دوست کے ساتھ رشتے میں منسلک ہونے کے بعد حاملہ ہو گئی۔۔۔ ان کے اہل خانہ کا سخت رد عمل سامنا آیا جس نے انھیں سیاہ رنگ کے خلاف تعصبات کا مقابلہ کرنے پر مجبور کردیا۔

اپنے آبائی گھر سے دوری کے بعد سلمیٰ (فرضی نام ) نے اپنی حیثیت کا جائزہ لیا۔ ایک 21 سالہ لڑکی جو دو ماہ کی حاملہ ہے اب اس کے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ تک نہیں۔۔۔ سلمیٰ کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا اور یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ وہ ایک ایسی بنگالی لڑکی تھی جو سیاہ فام آدمی کی بچی پیدا کرنا چاہتی تھی۔

ان کی برادری میں بنگالی خواتین شادی کے بغیر بچے پیدا نہیں کرتیں۔۔ پھر مخلوط نسل اور سیاہ فام ساتھی سے بچہ پیدا کرنا تو بہت دور کی بات تھی۔

پچھلی بار کی طری اس مرتبہ پھر ان کی خالہ نے اسقاط حمل کروانے کے لیے سلمیٰ کی منتییں کیں۔ بالکل ایسا ایک بار پہلے بھی ہو چکا تھا جب سلمیٰ حاملہ ہوئیں تھیں۔۔ لیکن اب سلمیٰ 18 سال کی نہیں تھیں۔۔۔ ان کے خاندان والوں کو یہ فیصلہ کرنے کا کیا حق تھا؟

سلمیٰ کا کہنا ہے کہ ’میں اپنی بچی کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔ اپنے خاندان سے تعلقات ختم کرنا، اپنا کیریئر داؤ پر لگانا اور سب کچھ چھوڑنے پر راضی تھی۔۔۔ لیکن مجھے ایسا لگا جیسے میرے پاس کوئی دوسرا راستہ تھا ہی نہیں۔‘

گھر سے نکلتے ہوئے سلمیٰ نے اپنی ماں کو دیکھا جن کے آنسو ان کی آدھی کھائی روٹی پر گر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’میں اپنے ماں باپ سے ملنا نہیں چاہتی‘

’میرے شوہر مجھے افورڈ ہی نہیں کر سکتے‘

وہ رات جو کئی خواتین کی زندگیاں تباہ کر دیتی ہے

ہم جنس جوڑے کو ’خاندان‘ تسلیم کرنے میں ڈر کیوں

’میں جانتی تھی کہ ان کی خواہش تھی یہ ایک بنگالی بچی ہوتی۔۔ اس صورت میں وہ لڑکے کے اہلِ خانہ کو بلا کر ان سے ملاقات کرتیں، اور ہمارے رشتے کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ایک ہی دن میں شادی کا اہتمام کر لیتیں۔‘

لیکن میری بچی کا باپ سیاہ فام تھا۔

اس سے پہلے کہ باقی رشتہ دار جمع ہوتے اور ان کی زندگی کے متعلق فیصلوں پر اثرانداز ہوتے۔۔۔ سلمیٰ نے اپنا گلابی نوکیا 3210 اٹھایا اور باہر نکل گئیں۔ وہ اسقاط حمل نہیں کروانا چاہتی تھیں اور وہ ایک ایسے خاندان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھیں جس نے ان کے اس فیصلے کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

سلمیٰ

سلمیٰ کا رومانس ایک کلاسیکی محبت کی کہانی جیسا تھا۔۔ وہ لڑکا ان کے پڑوس میں رہتا تھا اور سلمیٰ تو جیسے محبت میں گرفتار ہونے کے لیے تیار بیٹھیں تھیں۔۔۔ مگر بالی ووڈ میں سیاہ فام ہیروز کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

اگرچہ جنوبی ایشیائی باشندے صدیوں سے نسل پرستی کو برداشت کرتے آ رہے ہیں، لیکن سیاہ فام افراد کے خلاف اس معاشرے میں بھی اتنا ہی تعصب پایا جاتا ہے جتنا دوسروں میں موجود ہے۔

کسی بنگالی آنٹی کبھی سلمیٰ سے یہ تو نہیں کہا کہ ’سیاہ فام لوگ برے ہوتے ہیں‘ لیکن سیاہ رنگت کے خلاف عجیب و غریب تبصرے روزمرہ گفتگو کا حصہ ہیں جیسے کہ ’دھوپ میں باہر مت جاؤ، کالی ہو جاؤ گی‘ یا ’فلاں سفید رنگت والی لڑکی کے بہت رشتے آئیں گے۔‘

ان کی بنگلہ دیش سے آنے والی والدہ کی ہلکی رنگت کے باعث ان کا خیال تھا کہ ہلکے رنگ کی جلد ہی بہتر ہے اور شاید اسی لیے وہ سیاہ فام مردوں کے متعلق دقیانوسی خیالات رکھتیں تھیں۔

انھوں نے 16 سالہ سلمیٰ سے کہا: ’وہ صرف تمھیں حاملہ کرنا چاہتے ہیں۔‘ جب وہ ان سے گلے ملتیں تو سلمیٰ کو اپنا بڑھتا پیٹ محسوس ہوتا۔ ان کی والدہ نے پڑوس میں رہنے والے لڑکے کے بارے میں پتا چلتے ہی کہا ’یہ تو ڈیٹنگ کے قابل بھی نہیں۔‘

جب تین سفید فام عورتوں کی ان کے خاندان میں شادی ہوئی، اس وقت تو کسی نے بھی ایسی باتیں نہیں کیں تھیں۔

Short presentational grey line

سلمیٰ کے والدین 30 سال قبل لندن پہنچے تھے، انھوں نے بنگلہ دیش سے لندن کی ہاؤسنگ سٹیٹ میں ہجرت کی تھی، یہ جگہ حیرت انگیز طور پر ہیروڈس سے چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ وہ تارکین وطن کے خوابوں والی زندگی جی رہے تھے۔

سلمیٰ کہتی ہیں ’ایک ہیروڈس بیگ گھر میں ایک قیمتی چیز تھا۔ اسے کچن میں صاف جگہ پر رکھا جاتا اور صرف مہمانوں کی آمد پر ہی باہر نکالاجاتا تھا۔ مہمانوں کو یہ تھوڑی پتا تھا کہ یہ دکان میں سب سے سستی چیز – مونگ پھلی خریدنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔‘

لیکن پھر ایک دن سلمی کی چابی سے ان کے گھر کا سامنے والا دروازہ نہیں کھلا۔

جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ چھٹیوں پر تھیں، پیچھے سے ان کے والد نے تالے تبدیل کردیے اور سلمیٰ کی ماں کو دو بچوں کے ساتھ بے گھر کر دیا تھا۔

اس کے بعد ان کی اپنی برادری میں ان پر طلاق یافتہ ہونے کا داغ لگ گیا۔ لیکن وہ غیر بنگالی لوگوں کا حصہ بھی نہ بن پائیں۔

’ان کا بدترین خوف یہ تھا کہ میری زندگی ان کے جیسے نہ ہو جائے۔‘

’اس سب کے باوجود میں ایک سیاہ فام آدمی کے لیے اپنی ثقافت، کیریئر اور برادری کے خلاف جانے کے لیے تیار تھی۔۔ وہ سیاہ فام آدمی جس کے متعلق میری والدہ جانتی تھیں کہ وہ ایک زنا کار شخص ہے اور اس کا میرے ساتھ شادی کا کوئی ارادہ نہیں لیکن اس نے مجھے حاملہ کر دیا تھا اور اب میرے پاس بچی پالنے کے کوئی وسائل نہیں تھے۔‘

Short presentational grey line

بچی کی پیدائش کے ایک ہفتے بعد، سلمیٰ اپنی والدہ کے گھر کے سامنے کھڑی تھیں۔ وہ کھڑکیوں سے کرسمس کی روشنیوں کو چمکتے اور روسٹ مرغی کی جھلک دیکھ سکتی تھیں عجیب کشمکش کے عالم میں سلمیٰ نے اپنی بچی کے کپڑے سیدھے کیے اور دروازے کی گھنٹی بجا دی۔

ان کے بھائی نے دروازہ کھولا اور سلمیٰ کی چھوٹی بچی کو دیکھتے ہیں خوشی کا اظہار کیا۔ وہ گھبرائی ہوئی گھر میں داخل ہوگئیں۔ ایک ہفتے کی بچی کو دیکھ کر ان کی والدہ کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ سلمیٰ نے سوچا یقیناً مرغی ایک مثبت نشانی تھی۔ یہ سلمیٰ کا پسندیدہ انگریزی کھانا تھا اور کھانا اس گھر میں ہمیشہ امن کی پیش کش کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

بچی کو دوسرے کمرے میں سوتے چھوڑ کر ڈرتے ڈرتے سلمیٰ نے رات کے کھانے کی میز پر جگہ بنائی۔ ان کی والد نے مرغی کے ٹکڑے پلیٹ میں ڈالتے وقت براہ راست آنکھ ملانے گریز کیا۔ پھر اچانک ساتھ والے کمرے سے بچی کی چیخ کی آواز آئی۔ لیکن جب وہ کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئیں تو ان کی والدہ نے انھیں روک دیا: ’میں جاتی ہوں‘۔ جلد ہی رونا بند ہوگیا تھا۔ سلمیٰ کی والدہ نے پہلی بار اپنی نواسی کو اٹھایا ہوا تھا۔

سلمیٰ

سلمیٰ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کی والدہ اپنے تعصبات کے باوجود اپنی بیٹی سے پیار کرتی ہیں۔ سلمیٰ کو مدد مانگنے اور گھر واپسی کے لیے اسی توثیق کی ضرورت تھی۔

سلمیٰ کہتی ہیں ’کچھ ہی دن میں ماں نے مسلم بچے کی پیدائش کے بعد ہونے والی تمام رسومات ادا کیں اور واقعی میری چھوٹی بچی کو پیاد دیا۔‘

اس کے باوجود انھوں نے سلمیٰ کے گھر چھوڑنے کے بعد والے مہینوں کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔

پانچ ہفتوں بعد جیسے سلمیٰ کی زندگی میں تباہی آ گئی۔

سلمیٰ کو پتا چلا کہ ان کا ساتھی تمام وقت کسی اور عورت کے ساتھ رہا ہے اور اس عورت نے بھی ابھی ابھی بچے کو جنم دیا ہے۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے سیاہ فام مردوں کے بارے میں ان کی والدہ کے بدترین خدشات سچ ثابت ہو گئے ہوں، ان کی دقیانوسی تصریحات کی تصدیق ہوگئی تھی۔

سلمیٰ کی زندگی خاموشی، پریشانی اور غصے کے جذبات سے بھری تھی اور اس سب نے انھیں شدید ڈپریشن کا شکار بنا دیا۔

’اچانک ایسا محسوس ہوا کہ میری ماں کو دو بچوں کا خیال رکھنا ہے۔ میں اور میری بیٹی۔ وہ ہم دونوں کو اٹھاتیں، کھانا کھلاتیں اور ہماری دیکھ بھال کرتیں، لیکن یہ سب کچھ کرتے ہوئے وہ ہمیں سب کی نظروں سے چھپا دیتی تھیں۔‘

سلمیٰ نے شاعری لکھنی شروع کی اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور اسی طرح اپنی پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کیا۔ اپنی بچی کو جنم دینے کے سات ماہ بعد وہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئیں۔ سلمیٰ نے اپنی والدہ کو یہ بات کبھی نہیں بتائی لیکن وہ جانتی ہیں کہ ان کے بغیر یہ ناممکن تھا۔

ان کی والدہ ابھی بھی سلمیٰ کے فیصلوں کو پسند نہیں کرتیں، خاص طور پر جب سلمیٰ نے اپنے ساتھی کے ساتھ دوبارہ رشتے میں منسلک ہونے اور اس کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔

سلمیٰ نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سب سے پہلے یہ کام کیا، مگر وہ اپنی ماں سے اظہار تشکر یا ناراضگی کا اظہار کرنے سے قاصر رہیں۔

Short presentational grey line

اگلے چند سالوں میں سلمیٰ کی زندگی نے غیر متوقع موڑ لیا۔

اسی ساتھی سے سلمیٰ کا ایک اور بچہ پیدا ہوا، لیکن اس ساتھی نے بعد میں خیر سگالی کے طور پر سلمیٰ سے رشتہ ختم کر دیا۔ اس کے بعد سلمیٰ نے اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بنانا شروع کیا جو اس سے قبل انھیں اور ان کے بچوں کو براردری سے بے دخل کرچکے تھے۔ یہاں تک کہ ایک رشتہ دار نے تو اسقاط حمل کی حمایت کرنے پر سلمیٰ سے معذرت بھی کی۔

لیکن ڈھکے چھپے لفظوں میں سلمیٰ کے فیصلوں اور ان کے بچوں کے متعلق تبصرے جاری رہے۔۔ کوئی کہتا ’کم از کم بچے تم جیسے دکھتے ہیں‘ یا ان کی والدہ کہتیں ’مجھے تو پہلے ہی پتا تھا کہ وہ تمھیں چھوڑ کر کسی اور کو اپنا لے گا‘۔۔۔ ایک کزن نے تبصرہ کیا ’کاش تم نے کسی گوری رنگت والے شخص کو چنا ہوتا۔‘

سلمیٰ

وہ انھیں بتاتے کی کوشش کرتیں کہ ان میں سے کچھ تبصرے کس قدر ناگوار تھے، لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔

لیکن جب سلمیٰ کے اپنے بچے بڑے ہوئے تو ان کے لیے اپنی والدہ کے کچھ خدشات کو سمجھنا آسان ہوگیا۔

وہ کہتی ہیں ’میں اب سمجھ سکتی ہوں کہ میری والدہ نے جو کچھ کہا یا کیا وہ میری محبت اور حفاظت کے پیشِ نظر کیا۔‘

’وہ صرف وہی فیصلے کر رہی تھیں جن کے متعلق انھیں سکھایا گیا تھا کہ ان سے ان کی بیٹی کو خوشی اور محبت ملے گی۔‘

لیکن سلمیٰ سیاہ فام افراد کے خلاف اپنی ماں کے رویوں کو چیلینج کیے بغیر نہیں رہ سکتی تھیں۔

ایک صبح بالآخر وہ چیخ پڑیں ’یہ سب اس لیے کیونکہ وہ سیاہ فام تھا ، کیا ایسا نہیں تھا؟‘

ان کی والدہ نے جواب دیا ’نہیں، اس لیے نہیں کہ وہ سیاہ فام تھا بلکہ اس لیے کہ وہ مسلمان نہیں تھا۔ وہ ہمیں سمجھ نہیں سکتا تھا۔‘

سلمیٰ نے گھور کر اپنی والدہ کی طرف دیکھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب ان کی والدہ نے مذہب کو اس قدر اہمیت دی تھی۔ سلمیٰ نے سوچا ٹھیک ہے، پھر ان تین غیر مسلم خواتین کا کیا ہوگا جن کا خاندان میں استقبال کیا گیا تھا۔

سلمیٰ کا خیال ہے کہ ان کے والدہ کے لیے سیاہ فام افراد کے خلاف اپنے تعصب کا اقرار کیے بغیر، حقیقت تسلیم کرنے کا یہی ایک طریقہ تھا۔

’مجھے لگتا ہے کہ اس لمحے میں انھوں نے جان لیا کہ ان کا تعصب جلد کے رنگ پر مبنی ہے اور اس وجہ سے انھوں نے گفتگو کو مذہب کی طرف موڑ دیا۔‘

اس کے بعد سے خاندان میں مزید پیشرفت ہوئی ہے۔

کچھ مہینے پہلے خاندان میں ایک دلچسپ پیشرفت ہوئی- سلمیٰ کے بھائی نے ایک سیاہ فام عورت کو ڈیٹ کرنا شروع کیا۔ اور سلمیٰ کی حیرت کے باوجود ان کی والدہ نے بلاجھجک اسے قبول کیا۔

وہ کہتی ہیں ’یہ ایک ایسی عورت کی سوچ میں تبدیلی ہے جنھوں نے اس سے پہلے کبھی بھی سیاہ فام افراد کے خلاف تعصب بھرے رویوں کو تسلیم یا چیلینج نہیں کیا تھا۔‘

’مجھے بہت فخر ہے کہ ان میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔‘

’میں ان کی سوچ کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا رہی ہوں۔ لیکن وقت آگیا تھا کہ میں اسے چیلنج کرتی اب وقت آگیا ہے کہ ہم نے بطور برادری ایسا کیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp