فرانسیسی صدر کا بیان: کیا مسلمانوں کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کام کرے گا؟


ترکی
ترکی نے عرب ممالک کے عوام سے اپیل کی ہے کہ فرانسیسی صدرایمانویل میکخواں کی جانب سے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز خاکوں کا دفاع کرنے کی وجہ سے وہ فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان کی بائیکاٹ کی اپیل کی تاحال کسی عرب سربراہِ مملکت نے توثیق نہیں کی ہے لیکن، کویت اور قطر میں قائم کئی سپر سٹوروں سے فرانسیسی مصنوعات کو شیلفوں سے ہٹا لیا گیا ہے۔

اِس وقت ترکی، ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، مراکش، فلسطینی علاقوں، الجزائر، تیونس سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں بائیکاٹ فرانس ہیش ٹیگ بہت مقبول ہو رہا ہے۔ خلیجی ریاستوں میں فرانس سے زیادہ تر کھانے پینے کی اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔

بائیکاٹ کی اپیل

قطر یونیورسٹی نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ میں مہم میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے فرانس کی ثقافت پر اس منعقدہ ایک تقریبات منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یونیورسٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ فرانس کے صدر نے ‘دانستا طور پر اسلام اور اسلامی شعار پر حملہ کیا۔’

یہ بھی پڑھیے

اردوغان: ترک شہری فرانسیسی اشیا کا بائیکاٹ کریں!

فرانس: قتل ہونے والے ٹیچر سے متعلق ویڈیوز پر مسجد کو بند کرنے کا حکم

پیرس میں استاد کا سر قلم، حملہ ’دہشتگردانہ کارروائی‘ قرار

کیا امریکہ کی عالمی سطح پر پسپائی ترکی کے لیے آگے بڑھنے کا موقع ہے؟

کیا ترکی سلطنت عثمانیہ کی تاریخ دہرانے کی کوشش کر رہا ہے؟

کویت میں فرانسیسی پنیر کیری اور بےبی بیل جیسی مصنوعات شیلفوں سے ہٹا لی گئی ہیں۔ سٹوروں کے ایک بڑے گروپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ فرانسیسی مصنوعات بشمول پنیر، کریم اور کازمیٹکس کی اشیا اپنے سٹور سے فروخت کرنا بند کر رہا ہے۔

اردن میں حزبِ اختلاف کی ایک اسلامی جماعت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے۔

فرانس کے تجارتی پارٹنرز

قطر اس وقت فرانس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ انفو لیب نامی ایک ٹریڈنگ ویب سائٹ کے مطابق، دونوں ملکوں کے درمیان گذشتہ برس تک تجارتی حجم تقریباً 5 ارب ڈالرز سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ متحدہ عرب امارات میں فرانس سے درآمدات کا حجم اس برس تقریباً 33 کروڑ ڈالر ہے۔

تُرک صدر رجب طیب اردوغان جنہوں نے عرب ممالک کو فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے، خود ان کا ملک فرانس سے 50 کروڑ ڈالرز کی مصنوعات کی درآمدات کرتا ہے اور خود فرانس کو 45 کروڑ کی تُرک مصنوعات برآمد کرتا ہے۔

فرانس کے دیگر عرب ممالک میں تجارتی پارٹنروں میں مصر ہے۔ الجزائر، تیونس اور مراکش تو فرانسیسی نوآبادیات رہی ہیں اس لیے وہاں کی اشرافیہ کو فرانس سے وہی تعلق ہے جو پاکستان کی اشرافیہ کا برطانیہ سے ہے۔ ان ممالک نے صدر میکخواں کی مذمت کی ہے لیکن بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے کام ٹریڈ کے مطابق، پاکستان نے گذشتہ برس فرانس سے 44 کروڑ ڈالرز کو مصنوعات درآمد کی تھیں جب کہ فرانس نے پاکستان سے 44 کروڑ ڈالرز کی مصنوعات درآمد کیں۔

ترکی

بائیکاٹ کی اپیلیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟

عالمِ عرب اور دیگر مسلم ممالک نے اس سے قبل بھی یورپی ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ اس سے پہلے جب ڈنمارک کے اخبار یولندے پوستن نے سنہ 2005 میں پیغمبرِ اسلام کے کارٹون شائع کیے تھے تو اس وقت بھی کئی مسلم ممالک نے ڈنمارک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

ان واقعات کے علاوہ سوشل میڈیا پر اور کئی مغربی ممالک کے بائیں بازوں کی یونینوں اور طلبا تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کی مبینہ نسل پرست پالیسیوں کی وجہ سے بھی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل اکثر و بیشترسامنے آتی رہتی ہے۔

تاہم یہ تمام اپیلیں غیر موثر ثابت ہوتی رہی ہیں۔ ایک عرب اخبار ‘عرب ٹائمز’ نے تو کھل کر کہا ہے کہ بائیکاٹ کی اپیلیں کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں کیونکہ ان سے مغربی ممالک کو کم نقصان ہوتا ہے اور درآمد کرنے والے ممالک کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے جہاں بائیکاٹ کی وجہ سے خوراک کی مصنوعات غائب ہو جاتی ہیں۔

ترکی

فرانس کی عالمی سطح پر برآمدات 563 ارب ڈالرز ہیں۔ فرانس کی زیادہ تر مصنوعات جرمنی سمیت یورپی ممالک اور امریکہ برآمد کی جاتی ہیں جن کے بعد اس کی مصنوعات کی بڑی منزل چین ہے۔ مسلم ممالک میں فرانس کی کل برآمدات کا دو فیصد سے بھی کم حصہ بنتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر فرانس کسی بھی مسلم ملک کی برآمدات کا بائیکاٹ کردے تو اس ملک کی معیشت کے لیے تباہ کن ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان کی 42 کروڑ ڈالرز مالیت کی مصنوعات کا فرانس میں بائیکاٹ شروع ہو جائے تو پاکستان کی کمزور معیشت تباہ ہو سکتی ہے۔

کیا تنازع کی وجہ خاکے ہیں؟

پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کا حساس معاملہ فرانس اور ترکی کے درمیان کشیدگی میں کوئی ایک نیا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے لیبیا، وسطی ایشا کی دو ریاستوں (آرمینیا اور آذربائیجان) کے درمیان لڑائی اور شام میں مختلف متحارب گروہوں کی پشت پناہی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی ایک تاریخ ہے۔

اگرچہ ترکی اور فرانس دونوں ہی مغربی اور یورپی ممالک کے فوجی اتحاد کا حصہ رہے ہیں لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نیٹو کے مستقبل پر اب کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور خطے میں اب نئے اتحاد بننے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں، جن میں فرانس کی امریکہ سے دوری اور ترکی کے روس سے قربت کے رجحانات کافی واضح ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ‘امریکہ فرسٹ’ کی پالیسی نے نیٹو کے یورپی ممالک کو اپنی سلامتی کے لیے خود سے انتظامات کرنے کی سوچ کو بڑھایا ہے۔ برطانیہ یورپین یونین سے علحیدہ تو ہو گیا ہے لیکن سلامتی کے لحاظ سے نیٹو کا ہی حصہ ہے۔

اس لیے ترکی کے بارے میں امریکہ اور یورپ فرانس کا کتنا ساتھ دے گے یہ بھی ایک سوال ہے جس کا جواب درکار ہے۔

ترکی

نت نئے اتحاد

ماضی میں مشرقِ وسطیٰ سوشلسٹ ممالک کے حامیوں اور مخالفین کی بنیاد پر تقسیم تھا۔ اسی لیے ایران، سعودی عرب، خلیجی ریاستیں، ترکی اور شمالی یمن امریکہ کے ساتھ تھے۔ جبکہ باقی ممالک روس کے ساتھ تھے یا اس کے بلاک میں تصور کیے جاتے تھے۔ اسرائیل نے روس اور امریکہ دونوں سے استفادہ کیا۔

آج جب کہ سرد جنگ ختم ہو چکی ہے تو مشرقِ وسطیٰ میں اتحادوں کی تقسیم کی واضح وجہ ایران ہے۔ ترکی بعض معاملات میں جہاں اس کا مغربی طاقتوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے، وہ ایران کا اتحادی بنتا ہے لیکن جہاں اس کو ایران سے ٹکرانا پڑتا ہے وہ مغربی ممالک کی مدد بھی حاصل کرنے سے ہچکچاتا نہیں ہے۔

حال ہی میں ترکی نے متحدہ عرب امارات اور بحرین پر اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات بنانے پر تنقید کی، لیکن ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں اگرچہ اب ان میں سرد مہری پیدا ہو چکی ہے۔ ترکی قطر-سعودی عرب کشیدگی میں قطر کے ساتھ کھڑا ہے۔

عالمِ اسلام کی قیادت کا امیدوار

امکان ہے کہ ترکی فرانس سے کشیدگی بڑھانے میں ایک ایسی حد تک جائے گا جہاں اس کے اپنے بنیادی مفادات کو زد نہ پہنچے۔ ساتھ ساتھ ترکی اپنی نئی اسلامی شناخت کو عالم عرب کی قیادت کے لیے بھی استعمال کرسکتا ہے کیونکہ موجودہ دور میں عالم عرب میں کوئی ایسا نام نہیں ہے جو قائدانہ کردار ادا کرسکے۔

پیغمبرِ اسلام کے کارٹونوں پر فرانسیسی صدر کو مذمت کا نشانہ بنا کر ترک صدر عالمِ عرب میں اس خلا کو پرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس وقت عرب ممالک میں حکمرانوں اور عوام کے درمیان اسرائیلی پالیسی پر شدید تضاد ہے جو کسی وقت بھی ایک زلزلہ پیدا کر سکتا ہے۔

پاکستان بھی اسلامی کارڈ کھیلنے کی کوشش کررہا ہے جس کے لیے وزیرِ اعظم عمران خان نے نہ صرف فرانسیسی صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے بلکہ سوشل میڈیا کی سب سے بڑی ویب سائیٹ فیس بک کے سربراہ مارک زُکربرگ کو اسلاموفوبیا کے مواد پر پابندی عائد کرنے کی اپیل کی ہے۔

ترکی

لیکن ترکی اور پاکستان میں دو بنیادی فرق ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان اقتصادی طور پر ایک کمزور ملک ہے۔ دوسرا اس کی مشرقِ وسطیٰ میں شناخت لیبر سپلائی کرنے والے ملک کی ہے۔ تاہم پاکستان عالمِ اسلام کی واحد جوری قوت ہے جو ترکی بھی نہیں ہے۔

فریقین حدود میں رہ سکتے ہیں

امکان یہی ہے کہ موجودہ کشیدگی کو ایک حد میں قید کردیا جائے گا، تاہم اگر کشیدگی کسی تصادم کی جانب بڑھتی ہے تو ترکی اور فرانس اس وقت تین جنگی محاذوں پر ایک دوسرے کے خلاف بالواستہ یعنی ایک ‘پراکسی وار’ میں الجھے ہوئے ہیں جہاں تیزی آسکتی ہے۔

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگرنو قرہ باغ پر تنازع اس وقت ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے اگرچہ امریکہ جنگ بندی کی کوششیں کر رہا ہے جس کی کامیابی کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ بحیرہِ روم میں قبرص کی تقسیم کی وجہ سے فرانس اور ترکی کا ایک پرانا تنازعہ دوبارہ سے متحرک ہو رہا ہے۔

ان ہی حالات کے پس منظر میں لیبیا میں جہاں یورپ کی حکمتِ عملی ناکام نظر آرہی ہے، ترکی نے براہِ راست فوجی مداخلت کرکے کئی یورپی ممالک کو اور خاص کر فرانس کو مزید ناراض کیا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تنازعات کی وجہ سے ترکی کے صدر نے فرانسیسی صدر کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے۔

ایک یہ بھی سوچ ہے کہ اس وقت خود یورپ میں یا پورے مغربی بلاک میں کوئی ملک یا رہنما پورے مغربی بلاک کے لیے قائدانہ کردار ادا نہیں کر رہا ہے جیسے کہ چین یا روس کر رہے ہیں۔ اس لیے امکانات ہیں کہ صدر اردوغان فرانس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے صاف نکل جائیں۔

لیکن جیسا کہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ایک مسجد پر توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد معاملہ صرف حکومتوں یا ریاستوں کے ہاتھ سے باہر نکل جانے کا بھی خطرہ ہے۔ سڈنی کی مسجد ترک مسلمانوں سے وابستہ ہے۔ حملہ آور ایک ذہنی مریض بتایا گیا ہے، لیکن کشیدگی بڑھنے کی صورت میں کئی عام افراد ذہنی مریض ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp